آج – 31 / اگست / 1919
ناول نگار، افسانہ نگار اور معروف شاعرہ " امرتا پریتم صاحبہ" کا جنم دن…
نام امرتا پریتم 31 اگست 1919ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئی ، اصل نام امرت کور تھا ، تقسیم ہند کے بعد دہلی میں رہائش پذیر ہوگئی لیکن تقسیم پنجاب کے وقت ہونے والے خونی واقعات نے امرتا پریتم کے دل ودماغ پر قبضہ جمائے رکھا ، خون کی بہنے والی ندیاں پار کرتے ہوئے اس نے خواتین اور معصوم بچوں کی چیخ و پکار جس طرح سنی اور اسی طرح سپرد قلم کردی ۔وہ ایک صدی کی نامور شہرہ آفاق افسانہ نگار، شاعرہ اور ناول نگار تھیں۔
امرتا پریتم نے سو سے زائد کتابیں لکھیں، جن میں شاعری کے علاوہ کہانیوں کے مجموعے، ناول اور تنقیدی مضامین کے انتخابات بھی شامل ہیں۔ کاغذ اور کینوس، خاموشی سے پہلے، ستاروں کے لفظ اور کرنوں کی زبان، کچے ریشم کی لڑکی، رنگ کا پتہ، چک نمبر چھتیس، ایک تھی سارا، من مرزا تن صاحباں، لال دھاگے کا رشتہ، لفظوں کے سائے، درویشوں کی مہندی، حجرے کی مٹی، چراغوں کی رات، پنجر، کورے کاغذ ،انچاس دن ،ساگر اور سپیاں ،ناگ منی ،دل کی گلیاں ،تیراہوں سورج ، نویں رت ،چنی ہوئی کویتائیں ، رسیدی ٹکٹ (آپ بیتی) وغیرہ۔
آخری کتاب، میں تمہیں پھر ملوں گی، نظموں کا مجموعہ تھا ۔ ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم پر ان کے ایک ناول پنجر پر اسی نام سے فلم بھی بن چکی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی تخلیقات پر 9 سے زائد فلمیں اور سیریل بن چکے ہیں۔
امرتا پریتم بھارتی ایوان کی رکن بھی رہی ،دہلی، جبل پور اور وِشو بھارتی یونیورسٹی کی طرف سے انہیں ڈاکٹر آف لٹریچر کی تین اعزازی ڈِگریاں دی گئیں اور 1982ء میں انہیں پنجابی ادب کی عمر بھر کی خدمات کے اعتراف پر اعلیٰ ترین گیان پیتھ ایوارڈ بھی دیا گیا۔وہ ساہتیہ اکیڈمی ایورڈ پانے والی اورصدارتی ایوارڈ پدم شری حاصل کرنے والی پہلی پنجابی بھارتی خاتون تھیں۔ انہیں پدم شری کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔
پنجابی زبان کی صدی کی شاعرہ کا ایوارڈ دیا گیا۔۔ امریکہ میں مشی گن سٹیٹ یونیورسٹی کے ماہنامہ میگزین محفل نے امرتا پریتم پر اپنا ایک خصوصی نمبر بھی شائع کیا تھا۔ 1948ء سے 1959ء تک آل انڈیا ریڈیو میں بطور پنجابی اناؤنسر کام کیا۔ مئی 1966ء سے 2001ء تک پنجابی رسالے۔۔ ناگ منی، کی ادارت کی ذمہ داری سر انجام دیتی رہی ہیں۔
امرتا پریتم کا ساحر لدھیانوی کے ساتھ معاشقہ ادبی دنیا کے مشہور معاشقوں میں شمار ہوتا ہے، جس کے بارے میں ان کی کتاب رسیدی ٹکٹ میں موجود ہے۔ امرتا ہندو تھیں اور ساحر مسلمان ۔ امرتا ساحر کے عشق میں گرفتار ،خوابوں خیالوں میں کھوئی اس کا انتظار کرتی رہی، لیکن ساحر نے فیروزہ سے شادی کر لی مگر امرتا ساحر کے سحر میں ڈوبی رہی۔ امرتا اور پریتم کی شادی زیادہ عرصہ نا چل سکی ۔ اور اس کی وجہ ساحر بنا تھا مگر امرتا نے بعد ازاں آرٹسٹ امروز سے شادی کر لی تھی۔
امرتا پریتم کی تمام تحریریں شاہ مکھی (اُردو رسم الخط کی پنجابی) میں شائع ہوچکی ہیں ۔ وہ اس بات کی خواہش رکھتی تھیں کہ دونوں ممالک کے پنجابی ادب کو شہ مکھی اور گور مکھی میں منتقل کیا جائے تاکہ دونوں ملکوں کی نئی نسل کو ادب کو جاننے کا موقع مل سکے ۔
ان کی تحریروں کا ترجمہ انگریزی کے علاوہ فرانسیسی جاپانی اور ڈینش، مشرقی یورپ کی کئی زبانوں میں کیا گیا۔ پاکستانی پنجاب کے ادیبوں، شاعروں سے بھی امرتا پریتم کی گہری دوستی تھی۔
امرتا پریتم کی شاعری میں مشرقی عورت ظلم و جبر سفاکیت و بربریت کی چکی میں پستی ہو ئی نظرآتی ہے ،امرتا پریتم کی سب سے زیادہ شہرہ آفاق نظم پیش ہے۔اس موقع پر امرتا نے وارث شاہ کودہائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ، اے دکھی انسایت کے ہمدرد تو نے پنجاب کی ایک بیٹی کے المیے پر پوری داستانِ غم رقم کر دی تھی، آج تو ہیر جیسی لاکھوں دُخترانِ پنجاب آنسوؤں کے دریا بہا رہی ہیں۔ اُٹھ اور اپنے مرقد سے باہر نکل!
اصل پنجابی متن کچھ اس طرح سے ہے۔
اج آکھاں وارث شاہ نوں، کتوں قبراں وچوں بول،تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ کھول۔۔۔۔۔اک روئی سی دھی پنجاب دی توں لِکھ لِکھ مارے وَین،اَج لَکھاں دھیآں روندیاں، تینوں وارث شاہ نوں کَیہن۔۔۔۔اٹھ دردمنداں دیا دردیا تک اپنا دیس پنجاب،اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب
امرتا پریتم کا 86 سال کی عمر میں 31 اکتوبر 2005ء میں انتقال ہو گیا ۔اور ادب کا ایک ستارہ غروب ہو گیا۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ