امرتا اور ساحر
امروز سے شادی کے بعد بھی امرتا پریتم اسے نہ بھول سکی۔
ایک بار امرتا کے بیٹے نے ماں سے سوال کیا۔ ”ماں کیا میں ساحر کا بیٹا ہوں“ امرتا نے جواب دیا ”کاش یہ سچ ہوتا“۔
25 اکتوبر 1980 کو جب رات 2 بجے امریتا کو ساحر کی وفات کا علم ہوا تو انہوں نے کہا :
" اچانک میں اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھنے لگ گئی کہ ان ہاتھوں نے اپنے دل کے دریا میں تو اپنی ہڈیاں بہائی تھیں۔ پھر یہ ہڈیاں کیسے تبدیل ہو گئیں؟ یہ فریب ہاتھوں نے کھایا تھا یا موت نے؟
وقت سامنے آگیا جب دلی میں پہلی ایشین رائٹرز کانفرنس ہوئی تھی شاعروں اور ادیبوں کو ان کے ناموں کے ڈیلی گیٹ "بیج" دئيے گۓ جو سب نے اپنے کوٹوں پر لگا رکھے تھے۔ ساحر نے اپنے کوٹ پر میرے نام والا "بیج" لگا لیا تھا اور اپنے نام کا "بیج" اپنے کوٹ سے اتار کر میرے کوٹ پر لگا دیا تھا اس وقت کسی کی نظر پڑی اور اس نے کہا ہم نے غلط "بیج" لگا رکھے ہيں۔ ساحر ہنس دیا تھا کہ بیج دینے والوں سے غلطی ہوئی ہو گی۔ لیکن اس غلطی کو ہم نے درست کرنا تھا نہ کیا۔ اب برسوں بعد رات کو دو بجے خبر سنی کہ ساحر نہيں رہے تو لگا جیسے موت نے اپنا فیصلہ اس بیج کو پڑھ کر کیا جو میرے نام والا تھا اور ساحر کے کوٹ پر لگا ہوا تھا۔
میری اور ساحر کی دوستی میں کبھی بھی الفاظ حائل نہیں ہوۓ۔ یہ دو خاموشیوں کا ایک حسیں رشتہ تھا۔ میں نے اس کے لیے جو نظمیں کہی تھیں اس مجموعہ کلام کو ساہیتہ اکاڈمی ایوارڈ ملا۔ پریس والے میری تصویریں لینے لگے۔ میں نے اس وقت محسوس کیا کہ میں کاغذ پر کچھ لکھ رہی ہوں۔
فوٹو گرافر جب تصویر لے کر چلے گۓ تو کاغذ اٹھا کر دیکھا تو اس پر بار بار صرف ایک لفظ لکھا گیا تھا۔
ساحر۔ ساحر۔ ساحر۔ ۔ ۔ ۔
اپنے اس دیوانگی کے عالم پر بعد میں گھبراہٹ ہوئی کہ صبح جب اخبار میں تصویر چھپے اور تصویر والے کاغذ پر سے یہ نام بھی پڑھا جاۓ گا تو کیسی قیامت آۓ گی؟ لیکن قیامت نہيں آئی۔ تصویر چھپی تو کاغذ بالکل کورا دکھائی دے رہا تھا۔