کیا خوبصورت دور تھا آمریت کا‘ یقین کیجئے آج بھی یاد آتا ہے تو دل خوشی سے جھوم جاتاہے۔میں نے اپنی زندگی میں دو دفعہ آمریت کا دور دیکھا ہے اورمجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ یہی ادوارمیری زندگی کا اثاثہ ہیں۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔بھلا جمہوریت میں کیا رکھا ہے؟ ٹاک شوز‘ لڑائیاں‘ گالیاں‘ بیہودہ الزامات۔ جبکہ آمریت اس قسم کی تمام لغویات سے پاک ہوتی ہے۔آمر یت ہوتی ہے تو ہر طرف امن و امان ہوتاہے‘ نہ بھی ہو تو الحمدللہ دل کو یقین رہتا ہے کہ سب اچھا ہے کیونکہ نہ کوئی ہولناک قسم کی خبر چھپتی ہے نہ موڈ خراب ہوتاہے۔چند ڈھیٹ لوگوں کو چھوڑ کر پوری قوم ایک پیج بلکہ ایک لائن پر آجاتی ہے۔اختلاف رائے اول تو ہوتا نہیں اور اگر ہوتا بھی ہے تو اخلاق کے بلند ترین درجے پر۔نہ کوئی جلسہ ہوتاہے‘ نہ جلوس نکلتاہے نہ احتجاج ہوتاہے۔۔۔بس میٹھے میٹھے انتہائی سلجھے ہوئے الفاظ میں تھوڑی سی ’’اوں آں‘‘ کرلی جاتی ہے۔جنتا کا پیار محبت اتنا بڑھ جاتا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے نام پر ایک دوسرے سے روز الجھنے والے بھی آپس میں شیرو شکر ہوجاتے ہیں۔
جب سے آمریت رخصت ہوئی ہے سب سے زیادہ میں دُکھی ہوں۔جمہوریت نے مجھے کیا دیا ہے؟مجھے تو یہ بھی پتا نہیں ہوتا کہ میں نے جس کوووٹ دیا ہے وہ صحیح بندہ ہے بھی یا نہیں؟ لیکن آمریت میں مجھے سکون ہوتاتھا کہ مجھ ناچیز پر بوجھ ڈالنے کی بجائے بہترین دماغوں نے خود ہی بہترین لوگوں کا انتخاب کرلیا۔آمریت کے دور میں میرے بڑے بڑے کام ہوئے‘ مثلاً میرا شناختی کارڈ بن گیا‘ میرے دادا جی کی دانت کا درد ٹھیک ہوگیا‘ میری پھوپھی کو اللہ تعالیٰ نے دس سال بعد اولاد نرینہ سے نوازا‘ میرے خالو کی زمین میں فصل بڑی اچھی ہوئی۔۔۔اور میرے جگری دوست کے والد صاحب قضائے الہٰی سے وفات پاگئے جس کے بعد ساری جائیداد اُس کے حصے میں آگئی اور آج وہ بہترین بزنس مین ہے۔ آمریت کی بڑی برکتیں ہیں لیکن چونکہ ہمارے ہاں کبھی آمریت کو پنپنے ہی نہیں دیا گیااسی لیے لوگ اس کے ثمرات سے واقف نہیں ہوسکے۔ آمریت کا پودا جب بھی تھوڑا سا نشو نما پانا شروع ہوا ‘ کاٹ دیا گیا۔اسی وجہ سے ملک ترقی نہیں کر سکا۔اگر آمریت کا تجربہ مسلسل جاری رہتا تو ہم آج کہاں کے کہاں پہنچ چکے ہوتے۔معذرت کے ساتھ‘ ہم نے کبھی آمریت کی قدر ہی نہیں کی۔مخالفین کی دلیل ہے کہ آمریت میں کسی کو بولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ کیا بھونڈی دلیل ہے‘ میں تو مسلسل بولتا رہا ہوں‘ بلکہ میں ہی کیا میرے سارے جاننے والے دوست عزیز بھی بولتے رہے ہیں‘ ہم نے آمریت کے ادوار میں خوب گپیں لگائیں‘ لطیفے سنائے‘ گانے گائے‘ سالگرہ منائیں‘ کھانے کھائے‘ خوب ہلہ گلہ کیا لیکن کبھی کسی نے ہمیں بولنے سے نہیں روکا۔یہ بھی کہا جاتاہے کہ آمریت میں لکھنے والوں پر پابندیاں لگ جاتی ہیں۔ بھائی جی ! یہ بھی سو فیصد غلط ہے۔ میں نے تو ایسا کوئی عمل نہیں دیکھا ‘ میرے تو آدھے سے زیادہ افسانے ہی آمریت کے دور میں شائع ہوئے۔۔۔اور وہ جو میں نے مردہ خانہ‘ میانی صاحب قبرستان‘ شیشے کے گلاس کیسے بنتے ہیں ٹائپ بے شمار فیچر لکھے تھے وہ بھی اُسی دور میں شائع ہوئے‘ مجھے کبھی کسی نے لکھنے سے نہیں روکا۔ تو صاحب! طے ہوا کہ آمریت کے بارے میں پھیلائی گئی ساری ہولناک باتیں محض افواہیں ہیں۔
آپ میں سے وہ لوگ جنہوں نے آمریت کا کوئی دور دیکھا ہے وہ میری بات کی گواہی دیں گے کہ آمریت کی وجہ سے بے شمار محاورے ہمیں عملی طور پر سمجھنے کا موقع ملا مثلاً’’ایک چُپ سو سُکھ‘ تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو‘ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘ عقل بڑی یا بھینس وغیرہ وغیرہ۔جمہوریت پسند ڈھیٹ لوگ آئین کا واویلا کرتے ہیں‘ میں بھی آئین کو مانتا ہوں لیکن صرف’’آئین سٹائن‘‘ کو۔یہ جس آئین کی بات ہمارے جمہوریت پسند کرتے ہیں ‘ آمریت کے سامنے اس کی کیا حیثیت ہے۔ آمریت تو اک ایسا طرز عمل ہے جس میں بندوں کو جمہوریت سے کہیں زیادہ بہترین طریقے سے تولا جاتاہے۔کون نہیں جانتا کہ جمہوریت میں جب الیکشن ہوتے ہیں توسرکار کا کتنا خرچہ ہوتاہے‘ الیکشن کمیشن بنانا پڑتاہے‘ جگہ جگہ عملہ تعینات کرنا پڑتاہے‘ بیلٹ باکس ‘ ووٹر لسٹ‘ ووٹ کی پرچی‘ مہریں۔۔۔اربوں روپے لگتے ہیں۔ جبکہ آمریت میں مُلکی خزانہ سرمائے کی اس فضول خرچی سے یکسر محفوظ رہتاہے۔خدا کے لیے آمریت کی قدر کرنا سیکھو ورنہ تمہارا نام تک نہ ہوگا داستانوں میں۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ 70 سالوں میں ایک بھی آمراپنی مدت پوری نہ کرسکا۔اگر آمریت کا پہیہ چلنے دیا جاتا تو پاکستان آج ایشین گھوڑا ہوتا۔لیکن جمہوریت پسند نادیدہ قوتیں کب یہ چاہتی ہیں‘ ہر دفعہ جب بھی آمریت نے پھل پھول نکالنے شروع کیے‘ کہیں نہ کہیں سے سازشی ٹولے نے جمہوریت کی آواز بلند کی اوراچھی خاصی آمریت کا بیڑا غرق کرکے ملک کو واپس دھکیل دیا۔جمہوریت کی گود میں پلنے والوں کو آمریت کے تقدس کا ذرا بھی خیا ل نہ آیااور محض اپنے ذاتی مفاد کی خاطر آمریت کی کشتی کو بیچ دریا میں ڈبو دیا۔
لیکن ہماری جدوجہد جاری ہے۔ہم آمریت لاکر رہیں گے‘ آج نہ سہی‘ کل سہی‘ پرسوں سہی‘ برسوں بعد سہی۔۔۔ہم اپنے وطن کو پھر سے آمریت کی پٹری پر چڑھائیں گے ۔جب تک اس ملک میں آمریت نہیں آتی‘ بریکنگ نیوز بند نہیں ہوں گی۔ جمہوریت اور آمریت کی بریکنگ نیوز میں بڑا فرق ہوتاہے۔ جمہوریت میں بریکنگ نیوز ہوتی ہے کہ’’فلاں سیاستدان نے اربوں روپے ڈکار لیے‘‘۔ جبکہ آمریت میں بڑی سے بڑی بریکنگ نیوز بھی اس قسم کی ہوتی ہے کہ ’’کراچی میں خربوزے مزید سستے ہوگئے‘‘۔آمریت کے دور میں کوئی لاحاصل مباحثے نہیں ہوتے‘ بلاوجہ ہرکام میں کیڑے نہیں نکالے جاتے‘ یہ دل ہلا دینے والی خبریں نہیں لگتیں کہ آمر صاحب کتنے لوگوں کا وفد لے کر کس ملک گئے‘ کس طیارے پر گئے‘ کس ہوٹل میں ٹھہرے اور کتنا بل بنا۔ یہ لغویات جمہوریت میں ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔پلیزمیرا پوائنٹ سمجھنے کی کوشش کیجئے! میں صرف یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ آمریت ہماری منزل ہونی چاہیے کیونکہ آمریت میں ہی ہماری بقا ہے۔ سلام اُن جاں نثاروں کو جنہوں نے آمریت کی خاطر ہر سچ کا ۔۔۔سوری ۔۔۔ہر جھوٹ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔یہ لوگ میرے لیے مشعل راہ ہیں‘ میری سات نسلیں بھی اِن کے احسانوں کا بدلہ نہیں چکا سکتیں۔آمریت کے لیے ان کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔آئیے ہم سب مل کر آمریت کے استحکام کے لیے ایک ہوجائیں‘ یقیناًمشکلات پیش آئیں گی‘ سازشیں ہوں گی‘ سختیاں جھیلنی پڑیں گی۔۔۔لیکن عظیم مقاصد کے حصول کے لیے یہ سب کرنا ہی پڑتاہے۔پچھلے دنوں ایک جمہوریت پسندسے میری بحث ہورہی تھی‘ شکوہ ٰ کرنے لگے کہ آمریت میں کوئی آمر کا کارٹون نہیں بناتا‘ کوئی اسے گالیاں دینے کی جرات نہیں کرتا‘ کوئی مزاحیہ پروگراموں میں اس کا ہمشکل نہیں بناتا۔۔۔میں نے بڑے پیار سے اُن کے گال تھپتھپائے ’’حضور! یہی تو آمریت کا حسن ہے‘‘۔۔۔!!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“