آمریت جمہوریت سے بہتر؟
جنرل مشرف کو جب سے عمران خان نے اپنے جلسے میں ایک دستاویزی فلم میں اپنی تعریفیں کرتےدکھایا گیا اس وقت سے جنرل مشرف کی ٹون اور زیادہ م آمرانہ ہو گئی ہے۔
ابھی مشرف نے یہ ہزرہ سرائی کی کہ "آمریت جمہوریت سے بہتر ہوتی ہے، پاکستان کو سویلین نے تباہ کیا اور آمریت نے بچایا"
آمریت ایک دفعہ پھر سر آٹھا رہی ہے۔ سویلین کو بدعنوان اور بے کار ثابت کیا جاررھاہے۔ جب سے میاں نواز شریف کو عدالتوں نے نا اھل قرار دیا، اس قسم کی آوازیں کچھ زیادہ ہی سننے کو مل رہی ہیں۔ سرمایہ درانہ جمہوریت کے خلاف مسلسل پراپیگنڈا جاری ہےلیکن یہ کوئی اس میں بہتری کے لئے نہیں بلکہ آمریت کے نظریات کو مظبوط کرنے کے لئے کیا جا رھا ہے۔
پاکستان کے 70 سالوں میں فوجی آمریتیں 32 سال براہ راست اقتدار میں رہی ہیں اور باقی سالوں بالواسطہ طور ہر سویلین کو ڈکٹیٹ کراتے رھے ہیں، جنرل مشرف کو عوام کی ایک بھاری اکثریت نے تھو تھو کر کے اقتدار سے نکالا تھا۔ اس کے پورے دور میں بجلی کا ایک کلوواٹ بھی بجلی خزانہ میں شامل نہ کی گئی۔ کالاباغ بنانے کے چکر میں کسی اور بجلی منصوبے کا آغاز نہ کیا۔لوڈ شیڈنگ مشرف دور کا سب سے بڑاتحفہ تھا۔
وہ نو سال اس لئے نکال گیا کہ انہیں ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے سویلین مل گئے تھے۔ ان کے ابتدائی دور میں عمران خان، طاہر قادری ان کی حمائیت کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔ 2002 کے بعد انہیں چوھدری شجاعت، پرویز الہی وغیرہ مل گئے۔ نواز شریف کے ساتھ اس وقت شامل 37 ممبران اسمبلیاس دور میں جنرل پروز مشرف کے ساتھ تھے۔
تمام مذہبی سیاسی جماعتیں جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام بھی اسُکی حامی رہیں۔ ایل ایف او کے زریعے اس ک وردی میں صدر بنے رھنے کا موقع بھی متحدہ مجلس عمل نے فراھم کیا جو مذہبی جماعتوں کا اس وقت الائینس تھا اور خیبر پختون خواہ میں اس کی حکومت تھی جس طرح اج عمران خان کی ہے۔
جنرل مشرف اس وقت کوشش کر رھا ہے کہ جس طرح فوجی جرنیل راحیل شریف نے اسے ملک سے باھر جانے میں مدد کی تھی اسی طرح اب جنرل باجوہ اسے واپس پاکستان آنے میں مدد دے تا کہ وہ غیر جمھوری قوتوں کو اکٹھا کر کے سویلینز کا بچا کچھا بوریابستر بھی گول کردے۔
سرمایہ داری نظام میں پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں جمہوریت بھی ان جیسی ہی ہوتی ہےجو اس کو چلا رھے ہوتے ہیں۔ ایک ایسا ملک جس میں فیوڈل نظام ابھی بھی اپنی ننگی شکل میں موجود ہو، فیڈل کلچر بھی اپنی آب وتاب میں چمک رھا ہو،وھاں کا اس کا سب سے بڑا نقصان محروم طبقات کو ہوتاہے۔
میاں نواز شریف جس جگہ اپنے رجعتی خیالات میں کھڑا ہے، عمران خان اس سے چار قدم اور آگے ہے۔ اب پرویز مشرف کو بھی یہ بات کرنے کی ہمت ھو گئی ہے جووہ اپنے اقتدار میں بھی کرنے کی جرات نہ کر سکتا تھا۔
سرمایہ دار طبقات میں کوئی بھی پروگریسو نہیں ہے۔ ان میں
سے کسی ایک کو بھی چننے کی ضرورت نہیں۔
سرمایہ درانہ جمہوری نظام
میں امرانہ نظام لانے کی اوازیں بلند ہوتی رھیں گی کیونکہ یہ
نظام محنت کش طبقات کا ایک بھی بنیادی مسئلہ حل کرنے میں ناکام ہے مگر جو بھی آمریت کو لانے کے خلاف کھڑا ہو گا اس کے ساتھ وقتی طورپر مل کر آمریت مخالف آوازاس طرح بلند کی جا سکتی ہے کہ ان میں خوش فہمیاں پیدا نہ ہوں۔
ہم آج ایک مشکل اور رجعتی رد انقلابی دور سے گزر رھے ہیں اس میں تو بات کرنا بھی مشکل ہو رھی ہے مگر ایسے ھی دور میں بات کریں گے تو بات بنے گی۔ رجعتی دور کی حکمت عملی وہ نہیں ھو گی جو انقلابی دور کی ھوتی ہے۔ھمیں جہاں بچی کچھی جمھوریت کا دفاع کرنا ہے وھاں ہی ہمیں اپنے سوشلسٹ انقلابی نظریات کو فروغ دیتے ہوئے سرمایہ داری جاگیرداری کو بے نقاب بھی کرنا ہے۔ یہ ایک ھمہ اطراف حکمت عملی ہو گی جو اپنوں کو جوڑتے اور مخالف طبقات کو توڑتے اگے بڑھے گی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“