:::" امّی جان کی یاد میں" :::
آج " ماں کا عالمی دن " ہے ۔ میری والدہ صاحبہ کو ہم سے جدا ہوئے بارہ سال ہوگئے ہیں۔ آج وہ پھر شدت سے یاد آرہی ہیں۔ میری ماں بہت ٹھنڈے مزاج کی ماں تھی۔ انھوں نے ہم کو ڈانٹا بھی نہیں۔ اور نہ کبھی غصہ بھی کیا۔ بہت محبت سے ہماری غلطیوں پر بڑے دھیمے لہجے اور عقلمندی سے ہماری اصلاح کرتی تھی ۔ پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ اردو کا کلاسیک ادب بڑے شوق سے پڑھتی تھی۔ ہندی کی شاعرہ میرا بائی کے کئی ہندی اشعار انھیں زبانی یاد تھے۔ خطوط بہت اچھے اور دلچسپ انداز میں لکھتی تھی۔ کھیلوں میں کرکٹ، گھڑسواری اور باکسنگ کے مقابلے دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ اب رمضان شریف آرہے ہیں تو " امی جان بہت یاد آئیں گی۔
ماں کی محبت و ممتا عالم میں ایک مثال ہے،ماں کی محبت وہ گہرا سمندر ہے،جس کی گہرائی کو آج تک کوئی ناپ نہ سکانہ ناپ سکے گا۔ماں کی محبت وہ ہمالیہ پہاڑ ہے کہ جس کی بلند یوں کو کوئی آج تک چھو نہ سکانہ چھو سکے گا۔ماں کی محبت وہ سدا بہار پھول ہے جس پر کبھی خزاں نہیں آتی۔ اللہ نے ماں کا رشتہ کیا سوچ کر بنایا تھا، شاید اس دنیا کی تلخیوں میں یہ رشتہ یہ محبت ضروری تھی۔ اگر ماں نہ ہوتی تو پیار کا آغاز ہوتا کیسے، کیسے بہن بھائیوں میں آپس میں محبت ہوتی۔ کیوں کہ ماں ہی وہ واحد رشتہ ہے جو باقی سب رشتوں کو جوڑ کر رکھتا ہے۔ آج " ماں کا عالمی دن " ہے۔ مگر میرے لیے تو ہر دن " ماں" کا ہی دن ہوتا ہے جس نے ہماری اس قدر اچھی تربیت کی اور ہمیں اپنی محبت سے نوازہ۔ ہم کو دن میں کتنی بار اپنی مان یاد آتی ہے شاید ہم کو بھی یہ نہیں معلوم ۔۔۔۔۔ ماں اوراس سی جڑی ہوئی یادوں کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ ۔ " ماں کے عالمی دن" کے حوالے سے یہ بات بتانا چاھتا ہوں کہ ماؤں کا دن منانے کا آغاز ایک امریکی خاتون اینا ہاروس کی کوشش کا نتیجہ ہے ۔ اینا ہاروس چاہتی تھیں کہ اس دن کو ایک مقدس دن کے طور پر سمجھا اور منایا جائے ۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں 8 مئی 1914 ء کو امریکا کے صدر ووڈرو ولسن نے مئی کے دوسرے اتوار کو سرکاری طورپر ماؤں کا دن قرار دیا۔
اس لیے چل نہ سکا کوئی بھی خنجر مجھ پر
میری شہ رگ پہ مری ماں کی دعا رکھی تھی
{نظیر باقری}
———–
میں رویا پردیس میں بھیگا ماں کا پیار
دکھ نے دکھ سے بات کی بن چٹھی بن تار
{ندا فاضلی}
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔