قول اور فعل جن کا یکساں ہو
ہم انھیں معتبر سمجھتے ہیں
ایم ۔ اے اردو میں داخلہ ملا ۔ پنجاب یونیورسٹی میں صدرِ شعبہِ اردو جناب ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب نے ہماری کلاس کے پہلے دن اپنا تعارف کرواتے ہوٸے فرمایا کہ کوٸی کتنا ہی بڑا شاعر و ادیب ہو ، میں کچھ نہیں سمجھتا اگر وہ اچھا انسان نہیں ۔ یہ سن کے جی خوش ہو گیا کیونکہ عربی ، فارسی ، اردو اور پنجابی چار زبانوں کے شاعر میرے والِد گرامی نذیر احمد اختر نے بھی ہمیں یہی پڑھایا تھا ۔ پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب نے گویا میرے نظریے کو مزید پختہ کر دیا ۔
ایم ۔ اے اردو کے دوران اور مابعد اپنے عہد کے نامور شعراء و شاعرات کو پڑھا ۔ کچھ شعراء و شاعرات سے مشاعروں میں ملاقات کا بھی موقع ملا ۔ ریڈیو پاکستان کے ماہانہ مشاعروں میں بہت سے معروف شعراء و شاعرات کے ساتھ شرکت کا موقع ملا لیکن اتفاق کی بات ہے کہ امجد اسلام امجد صاحب کی زیرِ صدارت یا ان کی ہمراہی میں کسی مشاعرے میں شرکت کا موقع نہیں ملا ۔ اس کے باوجود وہ مجھے ہمیشہ اپنے اپنے سے لگے ۔ وجہ بلاشبہ یہی ہو سکتی ہے کہ وہ محض ایک شاعر اور ادیب ہی نہیں ایک بہت اچھے انسان بھی تھے ۔
شاعری ہو یا نثر لکھنے والا محبت کے موضوع سے صرفِ نظر کر ہی نہیں سکتا ۔ یہ اور بات کہ اہلِ قلم کی اکثریت نے محبت کو آتے جاتے موسموں کی طرح برتا ہے ۔ ایک سے دوسرے پھول کے رنگ و بُو پہ مٹنے والوں نے محبت کے نام پہ اندھا دھند مشہور ہونے والی شاعری کی اور کر رہے ہیں لیکن محبت کو اس کی مکمل حرمت کے ساتھ معتبر سمجھ کے اس پہ شاعری کرنے والوں نے نہ تو کبھی اس لفظ کی توقیر کم ہونے دی اور نہ ہی محبوب کو لبِ بام لا کے رسواء کیا ہے ۔ امجد اسلام امجد انہی قلمکاروں میں شامل ہیں ۔
نظم : ۔۔۔۔۔۔۔ امجد اسلام امجد
زندگی کے میلے میں خواہشوں کے ریلے میں
تم سے کیا کہیں جاناں اس قدر جھمیلے میں
وقت کی روانی ہے بخت کی گرانی ہے
سخت بے زمینی ہے سخت لا مکانی ہے
ہجر کے سمندر میں
تخت اور تختے کی ایک ہی کہانی ہے
تم کو جو سنانی ہے
بات گو ذرا سی ہے
بات عمر بھر کی ہے
عمر بھر کی باتیں کب دو گھڑی میں ہوتی ہیں
درد کے سمندر میں
ان گنت جزیرے ہیں بے شمار موتی ہیں
آنکھ کے دریچے میں تم نے جو سجایا تھا
بات اس دئے کی ہے
بات اس گلے کی ہے
جو لہو کی خلوت میں چور بن کے آتا ہے
لفظ کی فصیلوں پر ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے
زندگی سے لمبی ہے بات رت جگے کی ہے
راستے میں کیسے ہو
بات تخلیئے کی ہے
تخلیئے کی باتوں میں گفتگو اضافی ہے
پیار کرنے والوں کو اک نگاہ کافی ہے
ہو سکے تو سن جاؤ ایک روز اکیلے میں
تم سے کیا کہیں جاناں اس قدر جھمیلے ہیں
وہ اپنی سادہ لیکن پُرتاثیر نظموں اور غزلیات میں پوری کشش اور تاثیر کے ساتھ اپنے فکروخیال کو رقم کرتے ہیں
ان کی شاعری میں لہریں ، بارش ، سمندر ، ساحل ، دریا ، کنارے ، پانی اور اشک اس تشنگی کا استعارہ ہیں جو لافانی تخلیقات کو جنم دیتی ہے ۔
امجد اسلام امجد کی شاعری دن میں سورج کی کرنوں اور رات میں آسمان پہ سجے ستاروں اور تاروں جیسی ہے ۔ روشن روشن ، ٹمٹماتی ، جگمگاتی ، راہ دکھاتی ، بھید بتاتی اور کچھ سمجھاتی ہوٸی ۔
ان کی نظمیں روانی کی لہروں پہ بہاتی ہوٸی قاری کو ان جزیروں تک لے جاتی ہے جہاں شہروں کے شوروغُل سے دور نیلگوں آسمان کہیں زیادہ نکھرا ہوا ملتا ہے ، ہوا کسی کے پیغام میں جھومتی ہوٸی آتی ہے اور فضاء میں کسی کا ہجر رشکِ وصال بن کے مسکراتا ہے ۔
انھوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ ڈرامانگاری میں بھی کمال مہارت اور انفرادت کے جھنڈے گاڑے ۔ ڈراما ” وارث “ ان کی اس کامیاب مہارت کا شاندار عکس ہے ۔
انھوں نے شعروادب میں اپنے قلم کے ساتھ ساتھ کردار کی حُرمت کا بھی ہمیشہ پاس رکھا ہے ۔ فرماتے ہیں
شہرِ سخن میں ایسا کچھ کر عزت بن جاٸے
سب کچھ مٹی ہو جاتا ہے عزت رہتی ہے
اب آخر میں امجد اسلام امجد صاحب کی ایک شاندار غزل اور منتخب اشعار نذر قارئین ہیں
کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا
وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دل بے خبر مری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا
میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں تری آس تیرے گمان میں
صبا کہہ گئی مرے کان میں مرے ساتھ آ اسے بھول جا
کسی آنکھ میں نہیں اشک غم ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
تجھے زندگی نے بھلا دیا تو بھی مسکرا اسے بھول جا
کہیں چاک جاں کا رفو نہیں کسی آستیں پہ لہو نہیں
کہ شہید راہ ملال کا نہیں خوں بہا اسے بھول جا
کیوں اٹا ہوا ہے غبار میں غم زندگی کے فشار میں
وہ جو درد تھا ترے بخت میں سو وہ ہو گیا اسے بھول جا
تجھے چاند بن کے ملا تھا جو ترے ساحلوں پہ کھلا تھا جو
وہ تھا ایک دریا وصال کا سو اتر گیا اسے بھول جا
*امجد اسلام امجد کے چند منتخب اشعار *
ﻏﻢِ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻓﺸﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﯼ ﺁﺭﺯﻭ ﮐﮯ ﻏﺒﺎﺭ ﻣﯿﮟ
ﺍﺳﯽ ﺑﮯ ﺣﺴﯽ ﮐﮯ ﺣﺼﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﮨﮯ
نہ آسماں سے نہ دشمن کے زور و زر سے ہوا
یہ معجزہ تو مرے دستِ بے ہنر سے ہوا
یوں تو دکھائی دیتے ہیں اسرار ہر طرف
کھلتا نہیں کہ صاحبِ اسرار کون ہے
شاید اس بار ملے کوئی بشارت امجدؔ
آئیے پھر سے مقدر کی جبیں دیکھتے ہیں
تو اَسیرِ آبروئے شیوۂ پندارِ حسن
میں گرفتارِ نگاہ زندگیٔ مختصر
کمالِ حسن ہے حسنِ کمال سے باہر
ازل کا رنگ ہے جیسے مثال سے باہر
لہو میں تیرتے پھرتے ملال سے کچھ ہیں
کبھی سنو تو دلوں میں سوال سے کچھ ہیں
چہرے پہ مرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن
کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن
دامِ خوشبو میں گرفتارِ صبا ہے کب سے
لفظ اظہار کی الجھن میں پڑا ہے کب سے
رکا ہوا ہے ستاروں کا کارواں امجدؔ
چراغ اپنے لہو سے ہی اب جلائیں کہیں
تیرا یہ لطف کسی زخم کا عنوان نہ ہو
یہ جو ساحل سا نظر آتا ہے طوفان نہ ہو
حرفِ بے صوت کی مانند رہے دنیا میں
دشتِ امکاں میں کھلے نقش مصور نہ ہوئے
آئینوں میں عکس نہ ہوں تو حیرت رہتی ہے
جیسے خالی آنکھوں میں بھی وحشت رہتی ہے
حضورِ یار میں حرفِ التجا کے رکھے تھے
چراغ سامنے جیسے ہوا کے رکھے تھے
کسی ترنگ کسی سر خوشی میں رہتا تھا
یہ کل کی بات ہے ، کہ دل زندگی میں رہتا تھا
ﺩﺭﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﻗﻄﺮﮮ ﮐﯽ ﺻُﻮﺭﺕ ﮔﻢ ﮬﻮ ﺟﺎﺅﮞ
ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﻠﻮﮞﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﮬﻮ ﺟﺎﺅﮞ
وفا کی قبر پہ کب تک اِسے جلا رکھیں
سو یہ چراغ ہواؤں کے نام کرتے ہیں
اندھیرے سے لڑائی کا یہی احسن طریقہ ہے
تمہاری دسترس میں جو دیا ہو وہ جلا دینا
عجب موڑ پہ ٹھہرا ہے قافلہ دل کا
سکون ڈھونڈنے نکلے تهے وحشتیں بھی گئیں
ہر شام سُلگتی آنکھوں کو دیوار میں چُن کر جاتی ہے
ہر خواب، شکستہ ہونے تک زنجیرِ سحر میں رہتا ہے
نکل کے حلقٔہ شام و سحر سے جائیں تو کہیں
زمیں کے ساتھ نہ مل جائیں یہ خلائیں کہیں
یہ خواب ہے کہ حقیقت خبر نہیں امجدؔ
مگر ہے جینا یہیں پر یہیں پہ مرنا ہے
ﮐﮩﻨﮯ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺍﺳﻄﮧ ﻧﮩﯿﮟ
ﺍﻣﺠﺪؔ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺷﺨــﺺ ﻣﺠﮭﮯ ﺑُـﮭﻮﻟﺘﺎ ﻧـﮩﯿﮟ
میری راتیں تیری یادوں سے سجی رہتی ہیں
میری سانسیں تیری خوشبو میں بسی رہتی ہیں
میری آنکھوں میں تیرا سپنا سجا رہتا ہے
ہاں میرے دل میں تیرا عکس بسا رہتا ہے
ملے کیسے صدیوں کی پیاس اور پانی، ذرا پھر سے کہنا
بڑی دلرُبا ہے یہ ساری کہانی، ذرا پھر سے کہنا
کہاں سے چلا تھا جدائی کا سایا، نہیں دیکھ پایا
کہ رستے میں تھی آنسوؤں کی روانی، ذرا پھر سے کہنا
اللہ تبارک و تعالیٰ انھیں بلندیِ درجات سے نوازے ، آمین ۔