آج – ۴ ؍ اگست ۱۹۴۴
مشہور ڈرامہ نگار، کالم نگار، خمار آلود خوابوں اور محبتوں کے جذبوں میں رچی بسی کیفیات کے معروف شاعر”امجد اسلام امجدؔ صاحب“ کا یومِ ولادت…
نام امجد اسلام اور تخلص امجدؔ ہے۔ ۴؍اگست۱۹۴۴ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے(اردو) پاس کیا اور درس وتدریس سے منسلک ہوگئے۔ کچھ عرصہ نیشنل سینٹر سے وابستہ رہے۔ چلڈرن لائبریری کمپیلکس ، لاہور کے پروجیکٹ ڈائرکٹر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ امجد اسلام کو شاعری کے علاوہ تنقید اور ڈرامے سے لگاؤ ہے۔ آپ کے کئی ٹی وی ڈرامے پبلک سے خراج تحسین حاصل کرچکے ہیں۔ ڈرامہ ’’وراث‘‘ کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ قومی ایوارڈ ’’پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ اور ’’ستارۂ امتیاز‘‘ کے علاوہ پانچ مرتبہ ٹیلی وژن کے بہترین رائٹر، سولہ مرتبہ گریجویٹ ایوارڈ اور دیگر متعدد ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں۔ یہ بیس سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں۔ چند نام یہ ہیں:
’’برزخ‘، ’عکس‘، ’ساتواں در‘، ’فشار‘، ’ذراپھر سے کہنا‘ (شعری مجموعے)، ’وارث‘، ’دہلیز‘ (ڈرامے)، ’ آنکھوں میں تیرے سپنے‘ (گیت) ، ’شہردرشہر‘ (سفرنامہ)، ’پھریوں ہوا‘، ’یہیں کہیں‘ ۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:376
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
ممتاز شاعر امجد اسلام امجدؔ کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ تحسین…
ﻏﻢِ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻓﺸﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﯼ ﺁﺭﺯﻭ ﮐﮯ ﻏﺒﺎﺭ ﻣﯿﮟ
ﺍﺳﯽ ﺑﮯ ﺣﺴﯽ ﮐﮯ ﺣﺼﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﮨﮯ
—–
نہ آسماں سے نہ دشمن کے زور و زر سے ہوا
یہ معجزہ تو مرے دستِ بے ہنر سے ہوا
—–
یوں تو دکھائی دیتے ہیں اسرار ہر طرف
کھلتا نہیں کہ صاحبِ اسرار کون ہے
—–
شاید اس بار ملے کوئی بشارت امجدؔ
آئیے پھر سے مقدر کی جبیں دیکھتے ہیں
—–
تو اَسیرِ آبروئے شیوۂ پندارِ حسن
میں گرفتارِ نگاہ زندگیٔ مختصر
—–
کمالِ حسن ہے حسنِ کمال سے باہر
ازل کا رنگ ہے جیسے مثال سے باہر
—–
لہو میں تیرتے پھرتے ملال سے کچھ ہیں
کبھی سنو تو دلوں میں سوال سے کچھ ہیں
—–
چہرے پہ مرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن
کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن
—–
دامِ خوشبو میں گرفتارِ صبا ہے کب سے
لفظ اظہار کی الجھن میں پڑا ہے کب سے
—–
رکا ہوا ہے ستاروں کا کارواں امجدؔ
چراغ اپنے لہو سے ہی اب جلائیں کہیں
—–
تیرا یہ لطف کسی زخم کا عنوان نہ ہو
یہ جو ساحل سا نظر آتا ہے طوفان نہ ہو
—–
حرفِ بے صوت کی مانند رہے دنیا میں
دشتِ امکاں میں کھلے نقش مصور نہ ہوئے
—–
آئینوں میں عکس نہ ہوں تو حیرت رہتی ہے
جیسے خالی آنکھوں میں بھی وحشت رہتی ہے
—–
حضورِ یار میں حرفِ التجا کے رکھے تھے
چراغ سامنے جیسے ہوا کے رکھے تھے
—–
کسی ترنگ کسی سر خوشی میں رہتا تھا
یہ کل کی بات ہے ، کہ دل زندگی میں رہتا تھا
—–
ﺩﺭﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﻗﻄﺮﮮ ﮐﯽ ﺻُﻮﺭﺕ ﮔﻢ ﮬﻮ ﺟﺎﺅﮞ
ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﻠﻮﮞﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﮬﻮ ﺟﺎﺅﮞ
—
وفا کی قبر پہ کب تک اِسے جلا رکھیں
سو یہ چراغ ہواؤں کے نام کرتے ہیں
—
اندھیرے سے لڑائی کا یہی احسن طریقہ ہے
تمہاری دسترس میں جو دیا ہو وہ جلا دینا
—
عجب موڑ پہ ٹھہرا ہے قافلہ دل کا
سکون ڈھونڈنے نکلے تهے وحشتیں بھی گئیں
—
ہر شام سُلگتی آنکھوں کو دیوار میں چُن کر جاتی ہے
ہر خواب، شکستہ ہونے تک زنجیرِ سحر میں رہتا ہے
—
نکل کے حلقٔہ شام و سحر سے جائیں تو کہیں
زمیں کے ساتھ نہ مل جائیں یہ خلائیں کہیں
—–
یہ خواب ہے کہ حقیقت خبر نہیں امجدؔ
مگر ہے جینا یہیں پر یہیں پہ مرنا ہے
—
ﮐﮩﻨﮯ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺍﺳﻄﮧ ﻧﮩﯿﮟ
ﺍﻣﺠﺪؔ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺷﺨــﺺ ﻣﺠﮭﮯ ﺑُـﮭﻮﻟﺘﺎ ﻧـﮩﯿﮟ
امجد اسلام امجدؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ