امجد غزالی صاحب کہتے ہیں
تلخ لہجے سے جان کٹتی ہے جیسے جیون کی تان کٹتی ہے
یہ بھی دستور ہے زمانے کا
سچ کہو تو زبان کٹتی ہے
معروف شاعر امجد غزالی صاحب کی شاعری کا لہجہ دھیمہ مگر تلخ حقائق پر لب کشائی کے باعث ان کے الفاظ میں گھن گرج کا احساس ہوتا ہے ۔ عہد حاضر میں اردو کے ایسے شعراء اور شاعرات کی ایک طویل فہرست ہے جن کی شاعری ہزارہا سختیوں کے باوجود حق اور سچ کی حامی اور متلاشی ہے جن میں امجد غزالی صاحب بھی شامل ہیں ۔
امجد غزالی کا اصل نام امجد محمود اور تخلص غزالی ہے ۔ والد صاحب کا نام محمد علی تاریخ پیدائش 28 مارچ 1973 اور جائے پیدائش رتوچھ یونین کونسل چوآسیدن شاہ ضلع چکوال پنجاب(پاکستان ) ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم پرائمری سے مڈل تک رتوچھ اور میٹرک کی تعلیم چوآ سیدن شاہ ضلع چکوال سے حاصل کی ۔ ٹیکسٹائل سپننگ کا 3 سالہ ڈپلومہ اور لینڈ سروے کا ایک سالہ ڈپلومہ بھی کر رکھا ہے ۔ پیشے کے لحاظ سے خطاطی ہیں جبکہ کیلیگرافی اور کلاسیکل موسیقی سننا ان کے مشاغل میں شامل ہیں ۔ غم روزگار کے باعث تلاش رزق میں افغانستان اور سعودی عرب بھی گئے ہر دونوں ممالک میں دو دو سال بسر کیئے اس بہانے ان کو خانہ کعبہ اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی نصیب ہوئی جو ان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی جو کہ پوری ہوئی ۔
امجد غزالی صاحب نے ادبی سرگرمیوں کا آغاز 1992 سے کیا ۔ شاعری میں ان کو استاد، سائیں غلام حیدر صاحب مرحوم کی رہنمائی حاصل ہوئی ۔ ان کا غزالی تخلص اختیار کرنے کی وجہ حضرت امام غزالی کی شخصیت اور تعلیمات سے متاثر ہو کر غزالی تخلص اختیار کر کے عقیدت کا اظہار کرنا ہے ۔ انہوں نے ادبی اصناف میں غزل،نظم ، قطعہ، دوہڑہ وغیرہ میں طبع آزمائی کی ہے ۔ ان کی کچھ ادبی تنظیموں سے وابستگی بھی ہے جن میں لوکل ادبی فورم، بزم سوز، جھکڑ ادبی سنگت چکوال اور حصار ادبی انٹرنیشنل شامل ہے ۔ امجد غزالی کا کہنا ہے کہ ماضی میں جب میں نے ادبی سرگرمیوں اور شاعری کا آغاز کیا تھا اس وقت اور موجودہ ادبی ماحول میں بہت بڑا فرق ہے ۔ ماضی میں ادب اور ادیب کی قدر اور اہمیت آج کی نسبت بہت زیادہ تھی آج کا ادب زیادہ تر سوشل میڈیا تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا میں کچھ اس طرح کی شاعری اور ادب بھی تخلیق ہو رہا ہے جس سے نئی نسل اخلاقی قدرروں سے دور اور باغی ہوتی جا رہی ہے اس لیئے ادباء اور شعراء کو چاہیے کہ وہ غیر معیاری ادب اور شاعری کے تخلیقی عمل کی حوصلہ شکنی کر کے اصلاحی اور تعمیری ادب میں اپنا کردار ادا کریں ۔ امجد غزالی کی شاعری سے ایک نمونہ کلام اور چند منتخب اشعار آپ کی سماعتوں کی نذر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھراڑانے کو سائبان خاک
چل پڑا ھے یہ کاروان خاک
خاک پر کشتیء حیات چلی
ہم نےکھولا جو بادبان خاک
آندھیاں آ کے پھر جو پلٹیں تو
لے گئیں ساتھ آشیان خاک
اب ھنر آزما کے تم دیکھو
چھین لو ھم سے سائبان خاک
در بدر گھومتے ہیں قیس بنے
خاک اڑاتے ھیں محرمان خاک
دھوپ اوڑھی ھے خاک نے تن پر
چھن گیا سر سے آسمان خاک
ایک دن ھم بھی چھوڑ جائیں گے
خاک پر لکھ کے داستان خاک
ھم غزالی ہوئے ہیں خاک بسر
خاک میں بن گیا مکان خاک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بول کر سچ جو میں نے دیکھا تو
دست یاراں میں تیز خنجر تھے
اک اداسی تھی ان کی آنکھوں میں
اور چہرے تمام بنجر تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں تخیل کو چال دیتے ہیں
سوز حرفوں میں ڈال دیتے ہیں
بھیک مانگوں جو ایک قطرے کی
وہ سمندر اچھال دیتے ہیں
ذکر کرتا ہوں آل احمد کا
حروف زہرا کے لعل دیتے ہیں
امجد غزالی