عامر سہیل کا افسانہ “جہیز” کہانی کے مرکزی کردار “ارسلان” کی پراسرار گمشدگی کے بارے میں ہے۔ یہ کہانی دو دوستوں رؤف اور نزاکت کے خدشات کو بیان کرتی ہے، جب وہ ارسلان کی اچانک اسکول سے غیر حاضری کی وجہ کی کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ داستان برسوں پر محیط ہے، جس میں دوستوں کی زندگیوں اور ارسلان کے ساتھ ان کے دوبارہ اتحاد کو دکھایا گیا ہے جو دھوکہ دہی، قید اور اپنی بہن کے آخرکار چھٹکارے کی تاریک کہانی کو ظاہر کرتا ہے۔ عامر سہیل کہانی کا آغاز یوں کرتے ہیں کہ ” یار وہ ارسلان تین دنوں سے سکول نہیں آ رہا، رؤف نے حیرت کے عالم میں پوچھا، وہ تو چھٹی نہ کرنے والا طالب علم ہے مگر یوں تین دن تک غیر حاضر رہنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟؟ نزاکت۔۔یار رؤف میں نے کل ارسلان کے چچا سے پوچھا تھا ارسلان کی بابت، انہوں نے کہا کہ آ جائے گا وہ رؤف۔۔پر نزاکت بھائی، وہ آیا تو نہیں، مجھے تو بڑی فکر ہو رہی ہے اس کی، نہیں معلوم اچھا بھلا پڑھنے والا ہمارا دوست کس جھنبیلے میں پھنس گیا ہے،نزاکت۔۔میں آج پھر جاؤں گا یہ معلوم کرنے واسطے کہ آخر کو ارسلان کے سکول نہ آنے کی اصل وجہ کیا بنی؟؟ رؤف۔۔نزاکت بھائی میں بھی چھٹی ہو جانے کے بعد آپ کے ساتھ چلوں گا، تا کہ ہم اصل وجہ کی ٹوہ لگائیں۔ نزاکت۔۔۔رؤف یار اس کے گھر کوئی نہیں ملتا، بس ایک اکڑ مزاج چچا باہر نکلتا ہے اور بس اتنا سا بولتا ہے کہ وہ آ جائے گا”
افسانہ”جہیز” کا بنیادی موضوع سماجی مسائل کے گرد گھومتا ہوا نظرآتا ہے خاص طور پر جہیز کے مضرعمل کو کہانی میں موضوع بنایا گیا ہے۔ یہ بیانیہ افراد اور ان کے رشتوں پر لالچ، ہیرا پھیری اور جھوٹے وعدوں کے اثرات کو نمایاں کرتا ہے۔ مزید برآں کہانی دوستی، استقامت اور انصاف کے موضوعات کو چھوتی ہے۔ عامر سہیل رقمطراز ہیں کہ ”وہ دونوں ارسلان کے گھر کی سمت روانہ ہو گئے، جا کر دروازہ کھٹکھٹایا، ایک چھوٹی سی بچی باہر آئی، اس سے دریافت کرنے پر معلوم پڑا کہ ارسلان گزشتہ چار دن سے غائب ہے، دونوں بے بچی سے کچھ اور معلومات لینا چاہیں مگر بچی نے صرف اتنا بتایا کہ چاچو اور ارسلان ساتھ گئے تھے واپسی پر ارسلان نہیں آیا، دونوں بچی کی جانب ششدر نگاہوں سے دیکھنے لگے اور پھر متجسس زدہ گھر کو لوٹ گئے،اگلے دن پھر ارسلان سکول نہیں آیا،دونوں دوست آپسمیں پھر یہی باتیں کرنے لگے کہ نہیں خبر ہمارا دوست کس چکر میں آ گیا؟؟ رؤف ۔۔۔نزاکت یار یہ ارسلان پتہ نہیں کہاں گم ہو گیا ہے اچانک، اتنے دن سے آ بھی نہیں رہا اور اس کے گھر والے بھی کچھ بتانے کو تیار نہیں،
نزاکت ۔۔رؤف بھائی کچھ خبر نہیں، بیچارا کس حال میں ہے اور کیا کرتا ہو گا”۔
یہ کہانی ارسلان کے لاپتہ ہونے سے شروع ہو کر رؤف، نزاکت اور ارسلان کی زندگیوں میں آگے بڑھتی ہے اور ایک تاریخی ترتیب میں سامنے آتی ہے۔ ڈھانچہ سسپنس بنانے اور قارئین کی مصروفیت کو برقرار رکھنے کا کام کرتا ہے۔ سماجی توقعات کے نتائج اور پائیدار دوستی کی طاقت پر زور دیتے ہوئے موضوعاتی عناصر بغیر کسی رکاوٹ کے بیانیے میں بنے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کہانی کو آگے بڑھاتے ہوئے عامر سہیل لکھتے ہیں کہ ” دونوں دوست چھٹی کے بعد گھر واپس چل دیے، راستے میں اچانک دونوں کی نظریں ارسلان پر پڑیں جو اپنے چچا کے پیچھے موٹر سائیکل پر سوار تھا، دونوں والہانہ انداز میں ان کی جانب لپکے، مگر چچا نے موٹر سائیکل کی رفتار بڑھا دی اور یوں دونوں اپنا سا منہ لے کر رہ گئے، وقت کا گھوڑا سر پٹ دوڑتا رہا اور دونوں نے میٹرک کر لی، اس کے بعد اکٹھے ایف اے اور بی اے بھی کر لی، رؤف پولیس میں بھرتی ہو گیا اور نزاکت نے فوج میں ملازمت اختیار کر لی، وہ دونوں ہر چھٹی پر ملا کرتے اور ہر ملاقات پر حسرت زدہ ہو کر اپنے دیرینہ دوست ارسلان کو ضرور یاد کرتے۔ رؤف ۔۔یار نہیں خبر ارسلان کدھر گیا؟؟ کیا بنا اس کے ساتھ؟؟ اس ماں باپ تو تھے نہیں، پتہ نہیں چاچو نے کیا کیا اس غریب کے ساتھ؟؟؟ نزاکت ۔۔۔جی رؤف بھائی، میں گیا تھا اس بار اس کے گھر اس کی بابت معلوم کرنے، مگر ان کے گھر کوئی اور رہتا ہے جس نے بتایا کہ وہ لوگ یہ شہر ہی چھوڑ کر چلے گئے، کہاں گئے نہیں معلوم۔ رؤف ۔۔۔بس یار، بڑا دکھ ہوتا ہے اتنا اچھا دوست تھا اپنا اور ہم نے کھو دیا، بس دعا ہے وہ جہاں بھی ہو، خیریت سے ہو بس، پھر سالوں پہ سال یونہی گزر گئے مگر ارسلان کا کچھ نہیں ٹوہ لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
مصنف نے اپنے افسانہ “جہیز” میں مختلف ادبی آلات کا استعمال کیا ہے، بشمول رؤف اور نزاکت کے اسرار کو کھولنے کی کوشش کے طور پر معلق پیش گوئی بھی کہانی میں شامل ہے۔ مکالمہ کرداروں کے جذبات اور محرکات کو بیان کرتے ہوئے ایک کلیدی بیانیہ کے آلے کے طور پر کام کرتا ہے۔ جہیز کے رواج کے خلاف ارسلان کی بہن کی فریاد میں علامتیت موجود ہے، جو کہانی میں شامل وسیع تر سماجی تنقید کی نمائندگی کرتی ہے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ ” ایک دن رؤف کو کال آئی کہ محلہ رشید آباد میں ایک شوہر اپنی جواں سالہ بیوی پر روز تشدد کرتا ہے، ہمارا محلہ آپ کے تھانے کی حدود میں آتا ہے، اس لیے تھانے کا ایس ایچ او ہونے کی وجہ سے آپ کا فرض بنتا ہے کہ اس بیچاری کی جان چھڑائیں اس نشئی سے، ورنہ تو کسی دن وہ مار ڈالے گا۔۔۔۔ رؤف اپنی نفری لے کر پہنچا اور ان دونوں کو پکڑ کر تھانے لے آیا، اس نشئی کو تھانے میں بند کیا اور لڑکی کو اپنے ساتھ گھر لے آیا، رؤف ۔۔امی جان اس آفت کی ماری کو یہ نئے کپڑے پہنا دو اور کچھ کھانے کو بھی دو کیونکہ اس نے کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا سوائے مار کے امی جان۔۔بیٹھو بیٹا، مجھے اپنی ماں ہی سمجھو اور کپڑے پہن لو لڑکی ۔۔ماں؟؟ اور اتنا کہہ کر رونے لگی،امی جان۔۔بیٹا کیوں میں تیری ماں نہیں بن سکتی؟؟ لڑکی ۔۔نہیں امی جان ایسی بات نہیں، اصل میں آج تک کسی نے مجھے ایسے بیٹی نہیں بلایا، بس ہر کسی نے حیوان سمجھ کر ظلم و ستم ہی کیا، رؤف ۔۔۔امی جان میں نے کاغذات تیار کرنے کا کہا ہے وکیل کو اس کی کل اس نشئی سے جان چھوٹ جائے گی امی جان۔۔ شاباش بیٹا، آباد رہو”۔
افسانے میں موجود مکالمے، تفصیل اور کردار کی نشوونما کے متوازن استعمال کے ساتھ کہانی کے تکنیکی پہلوؤں کو اچھی طرح سے سنبھالا گیا ہے۔ کہانی کی رفتار قاری کو مطالعے میں مشغول رکھتی ہے، اور مصنف کرداروں کے جذبات کی باریکیوں کو کامیابی کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ کہانی میں ماضی اور حال کے واقعات کے درمیان تبدیلیاں ہموار نظر آرہے ہیں، جو بیانیہ کی مجموعی ہم آہنگی میں معاون ہیں۔ عامر سہیل لکھتے ہیں کہ ” رؤف نے اگلے دن دونوں میں طلاق کروا دی۔۔۔اگلے پانچ ماہ پلک جھپکنے میں گزر گئے اور وقت کی یہی خاصیت ہے کہ وہ رکتا نہیں ہے، خوشی میں گزرے یا غمی میں چلتا ہی جاتا ہے، چلتا ہی جاتا ہے، اور پانچ ماہ کا عرصہ بھی یونہی گزرا۔۔۔۔۔۔ایک دن رؤف کی والدہ نے اسے اچانک گھر بلوایا، لڑکی کو اندر جانے کا کہا لڑکی دل میں گمان کرنے لگی کہ آج گھر جانا پڑے گا کیونکہ یہ لوگ میری غیر موجودگی میں یہی فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، اس نے کہا کہ اب بس حکم صادر ہونا ہے کہ جاؤ اپنے گھر۔۔۔ رؤف ۔۔۔امی جان، خیریت اتنی جلدی بلوایا؟؟ طبعیت تو ٹھیک ہے نا آپ کی؟؟ امی جان۔۔۔جی بیٹا سب ٹھیک ہے اور جس ماں کے تیرے جسیے فرماں بردار بیٹے ہوں اسے کیا فکر رؤف ۔۔۔پھر امی مجھے بلانے کی وجہ؟؟ امی جان۔۔۔بیٹا، یہ جو لڑکی آئی ہے نا، یہ نیک سیرت بھی ہے اور اچھی صورت والی بھی اس کے ساتھ ساتھ اس نے میرا بہت خیال بھی رکھا ہے، اور مجھے بیٹی کی کمی محسوس نہیں ہونے دی، بیٹا میں بالکل ایسی ہی بہو چاہتی تھی ،تم اس سے شادی کر لو،رؤف ۔۔کچھ دیر خاموش اور ساکت رہنے کے بعد، ٹھیک ہے امی، جیسے آپ کی مرضی اگر آپ کو اچھی لگتی ہے تو مجھے بھی قبول ہے کیونکہ ماں باپ اپنی اولاد کے متعلق سوچ ہی نہیں سکتے، ضرور آپ نے اسے اچھی طرح جانچ پرکھ کر پھر فیصلہ کیا ہو گا۔۔۔۔۔”
بیانیہ معاشرتی اصولوں، اخلاقی انتخاب، اور انفرادی اعمال کے نتائج پر فکری عکاسی کی دعوت دیتا ہے۔ یہ قارئین کو جہیز سے متعلق مروجہ رسم و رواج پر سوال اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے اور ان لوگوں کے لیے ہمدردی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو ہیرا پھیری کا شکار ہوتے ہیں۔ عامر سہیل لکھتے ہیں کہ ” اس کے بعد رؤف کی والدہ نے لڑکی کو بلایا اور اس سے رؤف سے نکاح کے بارے میں پوچھا، لڑکی بولی کہ امی جان اس طرح کا شوہر تو ہر لڑکی چاہے گی، آپ کا بیٹا مجھے پسند ہے اور میں اس سے نکاح کرنے میں اپنی خوش قسمتی سمجھوں گی۔۔۔۔ اگلے جمعے کو دونوں کا نکاح طے پا گیا۔۔۔ امی جان۔۔بیٹی اگر تمہارا کوئی ہے تو اسے بلا لو۔۔لڑکی ۔۔میرا کون ہے ماں؟؟ ماں باپ پیدا ہوتے ہی ٹریفک حادثے میں چل بسے اور ایک بھائی ہے اسے میرے ظالم چچا نے کہیں قید کروایا ہوا تھا، اب چھوٹا ہے نہیں خبر کہاں ہو گا۔۔۔۔امی جان۔۔۔یہ لو بیٹا موبائل اور اپنے بھائی کو بلوا لو، لڑکی نے اپنے بھائی کو کال کر دی۔۔۔ نکاح والے دن سب انتظامات مکمل کر لیے گئے، بس لڑکی کے بھائی کا انتظار تھا، وہ بھی مقررہ وقت پر آگیا۔۔۔۔
رؤف کی آنکھیں اور نزاکت کی آنکھیں لڑکی کے بھائی کو دیکھ کر کھلی کی کھلی رہ گئیں، کیونکہ لڑکی کا بھائی کوئی اور نہیں ارسلان تھا۔۔۔۔۔۔”
عامر سہیل کا تحریری انداز دلکش اور پُرجوش ہے، جو کرداروں کو درپیش جذبات اور مخمصوں کو مؤثر طریقے سے بیان کرتا ہے۔ حقیقت پسندانہ مکالمے کا استعمال بیانیہ میں صداقت کا اضافہ کرتا ہے، جبکہ وضاحتی عناصر کرداروں کے تجربات کی واضح تصویر کشی کرتے ہیں۔عامر سہیل کا مکالماتی انداز ملاحظہ کیجیے ” رؤف ۔۔۔ارسلان تم؟؟؟ ارسلان ۔۔۔آپ کون ہو؟؟ نزاکت۔۔۔یار ارسلان ہم تیرے بچپن کے دوست، میں نزاکت اور یہ رؤف جس سے تیری بہن کی شادی ہو رہی ہے۔ ارسلان خوشی سے ان دونوں سے لپٹ گیا اور پھر بولا کہ رب تیرا شکر ہے میری بہن کو ان حریص لوگوں کے چنگل سے بچا لیا۔۔۔۔۔ نزاکت اور رؤف نے ارسلان سے غائب ہو جانے کی وجہ پوچھی۔۔”
کہانی بڑی مہارت سے ذاتی کہانیوں کو وسیع تر معاشرتی مسائل کے ساتھ مربوط کرتی ہے۔ ارسلان کی حالت زار کا تجزیہ ایک نصیحت فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے قارئین افراد پر معاشرتی توقعات کے اثرات کو سمجھ سکتے ہیں۔ دوستی کی کھوج اور انصاف کی تلاش بیانیہ میں گہرائی کا اضافہ کرتی ہے۔ عامر سہیل کہانی کا اختتام اس طرح کرتے ہیں کہ ” رسلان بولا کہ میرے چچا نے مجھے دھوکے سے ایک بڑے آدمی کے پاس قید کروا دیا اور مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ میری بہن کیلئے اچھا رشتہ ڈھونڈے گا اور بہت سا جہیز بھی دے گا، مگر ایسا کچھ کیا نہیں ،میں بھی بچہ تھا لالچ میں آ گیا، پھر دھمکی سے میری بہن کی شادی اپنے نشئی بیٹے سے کروا دی اور مجھے یہ کہہ کر چپ کروا دیا کہ تم جہیز تمام عمر نہیں دے سکتے، ہم جہیز نہیں لیں گے، بس پھر میں چپ ہو گیا اور ایک دن میرے چچا نے مجھے ایک جھوٹے کیس میں گرفتار کروا دیا اور میں آٹھ سال قید کاٹ کے ایک ماہ پہلے لوٹا ہوں، پرسوں مجھے خبر ملی کہ میرے چاچو اور ان کے بیٹے کا ایک ٹریفک حادثے میں انتقال ہو گیا۔۔۔۔۔یہ ہے میری کہانی۔۔۔اتنے میں ارسلان کی بہن ارسلان سے لپٹ گئی اور روتے روتے کہنے لگی کہ بھیا، یہ لوگ جہیز نہیں لیتے، جہیز نہیں لیتے۔۔۔۔”
اگرچہ کہانی سماجی مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کرتی ہے لیکن کچھ لوگوں اور ناقدین کو ارسلان کی صورت حال کا حل کسی حد تک قابل پیشن گوئی معلوم ہو سکتا ہے۔ تاہم کردار کی نشوونما کی طاقت اور بڑے موضوعات کسی بھی پیشین گوئی کی تلافی کرتے ہیں۔
بیانیہ سماجی مسائل کی گہری تفہیم پر مبنی ہے، اور مصنف کی جہیز اور اس کے نتائج سے متعلق پیچیدگیوں سے آگاہی پر زور دیتا ہے۔
کہانی کی طاقت ذاتی بیانیے کو معاشرتی تنقید کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے ملانے کی صلاحیت میں مضمر ہے۔ ارسلان کا سفر بڑے سماجی چیلنجوں کا ایک مائیکرو کاسم بن جاتا ہے، جو قارئین کو نقصان دہ طریقوں کی انسانی قیمت کے بارے میں جذباتی طور پر معلومات پر مبنی تحقیق فراہم کرتا ہے۔ کردار کی حرکیات، پلاٹ کے موڑ اور موضوعاتی گہرائی عامر سہیل کے افسانہ “جہیز” کو ایک زبردست اور فکر انگیز ادب پارہ بناتی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...