بانسری کو موسیقی کے شعبے میں بہت بڑی اہمیت حاصل ہے بلکہ جو، سوز اور مٹھاس بانسری میں ہے وہ موسیقی کے دوسرے کسی بھی آلہ میں نہیں ہے۔ حضرت امیر خسرو کو موسیقی کے شعبے کا امام تسلیم کیا جاتا ہے ۔ امیر خسرو نے مثنوی مولانا روم کے پہلے 6 اشعار کو صرف بانسری کی مدد سے کمپوز کر کے اس کے حسن اور تاثیر میں بھرپور اضافہ کر دیا ہے ۔ بانسری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک درخت کا جدا کیا ہوا حصہ ہے جو کہ اس سے الگ ہو کر روتی رہتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ بانسری میں سر اور مٹھاس کے ساتھ ساتھ حزن و ملال اور غم کا عنصر نمایاں ہوتا ہے ۔
موسیقاروں نے غم و اندوہ کا تاثر بڑھانے کے لیے ہمیشہ بانسری کو ہی استعمال کیا ہے ۔ ایران کے جدید انقلاب کے بانی حضرت امام آیت اللہ خمینی ایک مذہبی عالم اور سیاستدان کے طور پر مشہور ہیں لیکن وہ ایک صوفی، روحانی شخصیت اور شاعر بھی تھے۔ امام خمینی کا ایک شعری مجموعہ " دیوان امام " کے نام سے شائع شدہ ہے یہ فارسی زبان میں ہے جو کہ 438 صفحات پر مشتمل ہے اور اس کے 6 ابواب ہیں جس میں غزلیں، رباعیات، قصیدے اور بند و دیگر اصناف شاعری شامل ہیں ۔ امام خمینی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مولانا رومی کی مثنوی کے جواب میں ایک مثنوی لکھی تھی اور انہوں نے بھی امیر خسرو کی طرح اپنی مثنوی میں بانسری کا استعمال کیا تھا ۔