اس خاک سے اٹھے ہیں وہ غواص معانی
جن کے لئے ہر بحر پر آشوب ہے پایاب
اقبال
امیر خسرو فارسی اردو اور ہندوستانی تینوں زبانوں کے بلند مرتبہ شعرا اور ائمہ میں شمار ہوتےہیں۔ انہوں نے اپنے کلام میں جا بجا حب الوطنی اور ہندوستانی روایتوں سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے ۔ پان ہندوستان میں بکثرت استعمال کی جاتی ہے ۔
امیر خسرو کو پان بہت پسند تھی ۔گورکھ پان; گورکھ اِملی وغیرہ غذائیت سے خالی نہیں اور ہاضمے کے لئے مفید ہوسکتی ہے ۔امیر خسرو نے پان میں تنبول یا ناگ بیل کے پتے کا ذکر یوں کیا ہے
خراسانی که هندی گیردش گول
خسی باشد به نزدش برگ تنبول
شناسد آن که مرد زندگانی ست
کہ ذوق برگ خائی ذوق جانی ست
امیر خسرو
ترجمه : وہ خراسانی جسے ہندوستانی مسخرا سمجھتا ہے اس کے نزدیک پان کا پتہ گھاس پھوس ہے صرف مرد میدان ہی جانتا ہے کہ یہ روح کو مزہ دیتا ہے دوسرے مقام پر امیر خسرو کہتے ہیں
پان کی تشبیہ محراب جیسی ہے اور سب میووں کو چاہئے کہ اسکے آگے سجدہ کریں۔
شبیه بمحراب و کان فریضة
علی کل اثمار علیه مسجود
امیر خسرو
بھائی چارہ اور اخوت کی پاسداری:
برون شدی دویی از سر ترک و هندو
که هندوستان با خراسان یکی شد
امیر خسرو
ترجمہ: ترک یعنی مسلمان اور ہندو قوم کو مل کر دوئیت اور باہمی نفرت کو ملک سے باہر کردینا چاہئے ہند سے خراسان تک سب کو ایک جھٹ ہونا چاہئے.
تاتاریوں کے حملے کے دوران انہوں نے اہم رول ادا کیا ہندوستانیوں نے ایک جھٹ ہوکر انہیں ملتان کے نواحی علاقوں میں شکست فاش دی۔
امیر خسرو فارسی کے اہم شاعر ہوتے ہوئے ہندوستانی یعنی ہندی زبان کے ائمہ میں بھی شمار کئے جاتے ہیں ۔انہوں نے ہندی میں دوہے لکھے انکی Riddles یاپہیلیاں, بجھارتیں مشہور ہیں۔ انہیں ہندوستانی زبان اور اپنےوطن پرناز تھا۔
چومن طوطی هندم راست پرسی
زمن هندوی پرس تا نغز گویم
امیر خسرو
تا چه طوطی است که ازآینه باشد سخنش!
زمن تا صبر صد فرسنگ راهست
امیر خسرو
امیر خسروکو خاک ہند سے بہت محبت تھی بجا طور پر اعتراف کیا ہے
خاک وطن از ملک سلیمان خوشتر
خار وطن از سنبل و ریحان خوشتر
امیر خسرو
امیر خسرو کی روایت کا پاس رکھتے ہوئے اقبال ابتدائی دور میں وطن کے جذبہ سے سرشار تھے لیکن بعد میں سیاست کی پاسداری میں مسلمان ہوگئے۔
تیغوں کہ ساے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
اقبال جدید
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اسکی یہ گلستاں ہمارا
اقبال قدیم
مور ہندوستان کا قومی پرندہ ہے امیر خسرو نے اسکا ذکر یوں کیا ہے
گر نه بهشت است همیں هند چرا
از پی طاؤس جنان گشت مرا
امیر خسرو
ترجمہ: اگر ہندوستان بہشت نہیں ہے تو پھر طاؤس کی وجہہ سے میرےلئے بہشت کا درجہ رکھتا ہے
دل را ز عشق چند ملامت کنم کہ ہیچ
این کافر قدیم مسلمان نمی شود
امیر خسرو
عشق کے معاملہ میں دل کی ملامت کہاں تک کروں ۔ یہ قدیم کافر کسی حالت میں مسلمان نہیں ہوتا۔ دل کو کافر قدیم کہا ہے
ہندوستان میں شروع ہی سے بت پرستی عام ہوتی ہے خسرو اس بت پرستی کو معشوق پرستی یا عشق مجازی پر محمول کرتے ہیں ۔
خلق می گوید کہ خسرو بت پرستی می کند
آری آری می کنم با خلق مارا کارنیست
شاید غالب نے اسی شعر سے متاثر ہوکر یہ شعر کہا ہے:
چھوڑوں گا میں نہ اس بت کافر کو پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہےبغیر
دیوانۂ بتان نکشد روبہ کعبہ زانک
تعظیم کعبہ کفر بود بت پرست را
امیرخسرو
یعنی بتوں کے پجاری کعبہ کی طرفہ منہ کرنے کو کفر جانتے ہیں یہاں کفر کے مذہب کو اسلامی چنگل سے نکال دیا ہے ۔ اور یہ کہ بت پرست کے نزدیک وہ کفر ہے جو اہل کعبہ کے نزدیک عین ایمان ہے۔
دہلی کے ہندو محبوبوں کے بارہ بارہ میں قرالسعدین میں کہتے ہیں۔
ای دہلی و ای بتان سادہ
پگ بستہ و چیرہ کج نہادہ
امیر خسرو
اے دہلی کے سادہ مزاج محبوبو جنہوں نے پگڑی باندھی ہے اور ترچھا چیرہ لگا رکھا ہے۔
یہاں ہندوستانی لوگوں کی پگڑی کے لئے پگ پنجابی لفظ استعمال ہے اور مانگ میں ترچھا چیرے کا استعمال کیا ہے اسی طرح ایک غزل کے شعر میں ” رسم ستی” جس کے تحت ہندو عورتیں اپنے متوفی خاوند کے ساتھ خود کو زندہ جلاتی ہیں امیر خسرو نے اس رسم کو نئی نئی معنویت دی ہے۔
جان فدای دوست کن کم زان زن ہندو زنی نہ ای
کزو فای شوی در آتش بسوزد خویش را
امیر خسرو
تو اپنے دوست پر جان قربان کردے ۔تو اس ہندو عورت سے کم نہیں ،جو اپنے شوہر کی وفاداری میں خود کو آگ میں جلا دیتی ہے۔
اسی خیال کو کسی متاخر شاعر نے مزید صفائی سے پیش کردیا
چون زنِ ہندو کسی در عاشقی مردانہ نیست
سوختن بر شمع مردہ کارِ ہر پروانہ نیست
فرمان نبردند از آنکہ هستند
از عنایت ناز خود مرادہ
امیر
وہ کچھ ایسے واقع ہوئے ہیں کہ کسی کی بات نہیں مانتے اپنی ہی مستی میں رہتے ہیں.
جائی کہ بدہ کنند گلگشت
در کوچہ دمد گل پیادہ
جس دیہات میں وہ سیر کرتے ہیں ان گلی کوچوں میں مہندی کے پھول اگتے ہیں ۔
خورشید پرست شد مسلمان
زین ہندو گان شوخ و سادہ
امیر خسرو
ان شوخ و سادہ لوگوں کے چہرے سورج جیسے ہیں اور مسلمان ان سادہ ہندوؤں سے محبت کرتے ہیں اس لئے مسلمانوں کو خورشید پرست کہا ہے۔
بتی و آفت تقوی و آخر این نمی دانی
کہ در شہر مسلمانان نباید این چنیں آمد
امیر خسرو
یعنی دشمن دین اس صنم کو اتنا پتہ نہیں کہ مسلمانوں کے شہر میں اسطرح کھلم کھلا نہیں آتے
ہنوز ایمان و دین بسیار غارت داری
مسلمانی میاور زآن دوچشم نا مسلمان را
امیر خسرو
ابھی تو دین و ایمان غارت کرنے کے اور بھی سامان تیرے ہاس موجود ہیں تو اپنی دو غیر مسلم آنکھوں کو مسلمانی یعنی حیا پروری نہ سکھا۔
ایسے اور بھی بہت سے اشعار ہیں جن امیر خسرو نے ہندو محبوب کو آزاد مشرب بتایا ہے ۔ امیر خسرو کہتے ہیں کہ میں نے محراب مسجد کے سامنے نماز پڑھتے ہوئے تیرے ابروؤں کا بارہا تصور کرکے بہت بت پرستی کی ہے ۔ یہ ایک شاعرانہ خیال ہے اس میں شک نہیں کہ امیر خسرو صلح کل ہیں انہوں نے اپنے اوپر کوئی مذہبی قدغن روک نہیں لگائی بلکہ ہندوستانی مزاج کا شعر و سخن میں خوبصورتی سے اور آزادی کے ساتھ اظہار کیا ہے اور یہی رنگ سخن امیر خسرو کی پہچان ہے
بیشک امیر خسرو صوفی منش تھے عاشق کامل بھی اور بہترین انسان بھی ۔ ان کی تصانیف کے اوراق سے مہر و وفا کی تازہ خوشبوئیں کے جھونکے آتے ہیں ۔