کتاب کے عنوان نے مجھے کتاب خریدنے پر اکسایا سو میں نے خرید لی اور پڑھ بھی لی۔ اس سے پہلے محترمہ آمنہ مفتی کی کوئی تحریر، کوئی افسانہ میری نظر سے نہیں گزرا۔
ناول پڑھنے کے بعد بھی میری سمجھ میں نہیں آیا کہ مصنفہ نے یہ ناول کیوں اور کس کے لیے لکھا ہے۔ اس ناول کی کوئی سمت نہیں، کوئی قبلہ نہیں۔ ناول کی کہانی میاں اللہ یار کے بیٹے کی گاوں آمد سے شروع ہوتی ہے جو وکیل بننے شہر گیا لیکن کسی اور ہی ہیئت میں گاوں واپس آیا۔ اور گھر آتے ہی سانپ اسے ڈس لیتا ہے۔ گویا سانپ اس انتظار میں تھا کہ وکیل صاحب ایئں اور اسکے زہر کا نشانہ بنیں۔علاقے کے سرکاری اسپتال سے مایوس ہو کر اسے کسی جوگی کی جھگی میں لے جایا جاتا ہے۔اور پھر اس کا ذکر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پڑھنے والا سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ اسکا کیا بنا، کیا وہ جوگی کی کٹیا میں زندہ پہنچا بھی کہ نہیں اور اسکے کوئی 60، 70 صفحات کے بعد اسکا ذکر ملتا ہے تب تک قاری کہانی کے کسی اور موڑ پر پہنچا ہوتا ہے۔ عجیب بات ہے۔
اسرار نامی اس کردار کے چھ سوتیلے بھائی بھی ہیں اور ان میں ایک یامین نامی بھائی بھی ہے جو کانا ہے اور مصنفہ کے مطابق کانا بڑا سیانا ہے۔ 188 صفحے کی اس کتاب میں حرام ہے جو اس کانے کی سیانف کا کہیں کوئی ہلکا سا شبہ بھی نظر آیا ہو۔ اسکے فورا بعد کہانی کو فلیش بیک میں لے جایا جاتا ہے۔ یہاں سے ایسے حیران کن واقعات، جو عقل کی کسی کسوٹی پر پورے نہیں اترتے، کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے جو قاری کا وقت ناول کے اخیر تک ضائع کرتا ہے۔ پھر بکری کے میمنوں کا ذکر آتا ہے جو جنگل میں پہنچ کر گھریلو جانور نہیں رہتے بلکہ درندے بن جاتے ہیں۔ یہاں کچھ مزید محیر العقول وارداتیں ہوتی ہیں اور پھر جوگی کی جوش بھری للکار سنائی دیتی ہے جس سے آس پاس کا علاقہ نہ صرف لرز اٹھتا ہے بلکہ باقاعدہ زلزلے میں تبدیل ہو کر زمین پھٹ جاتی ہے اور اس میں کیکر، منارے حتی کہ پکی عمارتوں کے لینٹر بھی گر جاتے ہیں۔ مصنفہ کے مطابق اللہ یار اس زمین پر ٹاپتا پھدکتا نظر آتا ہے جسے وہ بھٹی میں ببنے جانے والے دانوں سے تشبیہہ دیتی ہیں۔ بہرحال اس زلزلے سے زمین پھٹ جاتی ہے اور بیتل بکری، الیل من اور بلیل من اور غفورے سمیت تین انسانوں کی لاشیں اس درز میں گر جاتی ہیں اور اگلے ہی جھٹکے میں زمین برابر ہو جاتی ہے۔
اسکے فورا بعد ناول کی کہانی قاری کو شہر لے جاتی ہے جہاں خوبصورت ، وجیہ ، علی گڑھ کا پڑھا عرفان جو واپڈا میں ایک اعلی عہدے پر فائز ہے کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ وہ شاہدہ نامی ایک خوبرو، امیر عورت سے ازدواجی بندھن میں بندھا ہے۔ عرفان پانی کی تقسیم کے معاہدے کے نتیجے میں سوکھتے بیاس پر پریشان ہے۔ ساتھ ہی ہمسائے میں ایک ہندو خاندان آباد ہے۔ اس بترا خاندان کے سبھی افراد مشرف بہ اسلام ہو چکے ہیں سوائے دادی کے جو اب تک ہندو ہی ہے۔ ۔ کیا عجیب واقعات ہیں، بترا خوکشی کر لیتا ہے۔ اسکی بیوی پاگل ہو جاتی ہے۔ عرفان کے گھر پر اسرار آگ۔ مدھو کی گمشدگی۔ گھروں میں جنگل اگ آنا۔ گاڑیوں پر درخت گرنے سے انسانوں کی گردنوں کے منکے ٹوٹنا۔ 60 صفحات کے بعد اسرار کا کٹیا پہنچنا، دادی کے منتر سے صحت یاب ہونا۔ عرفان کا پاگل ہونا۔
یہاں پھر ناول نگار ہمیں ماضی میں لے جاتی ہیں۔ ماضی قریب۔ اسرار کے کالج کا زمانہ۔ نازنیں پر عاشق ہونا۔ آسیب زدہ گھر۔ چوہوں۔ سانپوں۔ نیولوں۔ گوہوں اور مگر مچھوں کا بسیرا لیکن کیا کہنے کہ یہ مخلوق کسی انسان کو تنگ نہیں کرتی۔ البتہ عورتوں کا اپنے شوہروں کے کندھوں پر دانت گاڑنا۔ اتنے عجیب قسم کے واقعات ہیں کہ اس تجزیے میں نہیں سما سکتے۔
“پانی مر رہا ہے” ساری کی ساری کہانی، شروع سے آخر تک جعلی، نا قابل یقین اور اوٹ پٹانگ واقعات پر مبنی ہے۔ کہیں کوئی ایسا ماحول نظر نہیں آتا کہ ان واقعات کا اعتبار بنے ۔ معلوم نہیں مصنفہ نے اسے کونسی ذہنی کیفیت میں تحریر کیا۔ ایک شبہ ہو تا ہے کہ خاتون نے میجیکل ریئلزم لکھنے کی شعوری کوشش کی ہو لیکن اسکے لیے جو لوازمات، فن ، ٹریٹمنٹ اور تخلیقی مہارت درکار ہوتی ہے وہ تو یہاں صفر کے برابر ہے۔ سارے واقعات کا نہ کوئی سبب نظر آتا ہے نہ وجوہ۔
پانی مر رہا ہے، ایک بے تکی کہانی ہے۔ اسکے کردار بھی واضح نہیں ہیں۔ جو تجربات ان کرداروں سے وابستہ کئے گئے ہیں وہ بھی درست طریقے سے قاری تک نہیں پہنچ پائے۔ کرداروں کے افعال، عادات ، حرکات یا جذباتی کیفیات انکی بیان کردہ شخصیت سے با لکل الگ ہی دکھائی دیتی ہیں۔ اسلوب و اظہار میں سلیقے کی کمی، قاری کو کوفت میں مبتلا کر دیتی ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ یہ کہانی آخر کہاں جا کے رکے گی۔
لکھنے والے اپنی تحریروں میں مختلف تجربات کرتے اور قاری کے سامنے رکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے محترمہ آمنہ مفتی نےبھی کوئی تخلیقی تجربہ کرنے کی کوشش کی ہو لیکن وہ تجربہ اور اسکا اظہار دونوں ہی مصنفہ کی تخلیقی گرفت سے ازاد نظر آتے ہیں۔ یہاں پانی کی بجائے پوری کہانی مری ہوئی نظر آتی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...