امریکی تھنک ٹینک اور پاکستانی افسانہ نگار!
امریکہ کے ایک مشہور تھنک ٹینک، یو۔ ایس۔ نیشنل انٹیلی جنس کونسل نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں دنیا کا ایک نقشہ پیش کیا ہے جس کے مطابق 2028 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ممکنہ طور پر ایک ایٹمی جنگ ہو گی اس ایٹمی جنگ کی وجہ سے تمام دنیا میں تباہی آئے گی، فصلیں تباہ ہو جائیں گی اور تمام دنیا میں قحط پڑے گا جس سے آگے چل کر ممکنہ طور پر کروڑوں انسانوں کی موت واقع ہو گی۔
یاد رہے کہ US-National Intelligence Council امریکی حکومت کی سرپرستی میں چلنے والا ایک بہت بڑا ادارہ ہے۔ کروڑوں ڈالر کی گرانٹ حاصل کرنے والے اس ادارے میں 12 کے قریب مختلف ذیلی ادارے یا ”چئیرز“ قائم ہیں جو مختلف خطوں اور مسائل کے بارے میں ہر چار برس کے بعد ایک رپورٹ پیش کرتے ہیں جو امریکہ کے ماہرین کے مطابق آنے والی دنیا کا ممکنہ نقشہ ہوتی ہے۔ موجودہ رپورٹ جسکا ہم ذکر کر رہے ہیں 2017 میں پیش کی گئی ہے جو کہ 2035 تک کی دنیا کا نقشہ کھینچتی ہے۔
اسی ادارے کی ایک پرانی رپورٹ (Global Trends-2015) جو 2000 میں شائع کی گئی تھی اور جو 2015-16 ( یعنی موجودہ دور) کا نقشہ کھینچتی ہے کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چین کی ترقی رک جائےگی یہاں تک کہ اندرونی مسائل کا شکار ایک ” کمزور چین‘ ‘ سامنے آئیگا جس کی وجہ سے خطہ غیر مستحکم ہو گا اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار غلط ہاتھوں میں پہنچنے کا امکان پیدا ہو جائےگا (صفحہ نمبر 50) اسکے برعکس ہمیں آج ایک مضبوط اور ترقی کی راہ پر گامزن چین نظر آتا ہے ۔ اس رپورٹ میں آگے چل کر کہا گیا تھا کہ روس مزید کمزور ہوتے ہوتے 2015 تک اتنا کمزور ہو جائیگا کہ اسکی موجودہ شکل قائم رہنا مشکل ہوگی۔ اسکے بر عکس ہمیں آج ایک مضبوط روس ہر محاذ پر امریکہ کو چیلنج کرتا نظر آتا ہے۔ بھارت کے بارے میں کہا گیا تھا کہ بھارت 2015 تک دنیا کی بڑی فوجی اور معاشی طاقت بن چکا ہو گا ۔ اسی رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں پیش گوئی کی گئی تھی ( صفحہ22) 2015 تک لاقانونیت اور لسانی فسادات کے شکار پاکستان کی حکومت کا عملی کنٹرول صرف پنجاب کے کچھ حصوں تک رہ جائےگا۔ اسی طرح عالمی معاہدوں کے بارے میں اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکہ اور یورپی یونین کا اثر رسوخ پڑھے گا ۔ اسکے بر عکس شنگھائی تعاون تنظیم اور CPEC جیسے معاہدے آنے والی دنیا کی ترقی کے ضامن اور رہنما بنتے نظر آ رہے ہیں۔
ان رپورٹوں کا مقصد دنیا کے رائے عامہ ڈرانے اور اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک کیلئے یہ رپورٹیں فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں وہ اس طرح سے کہ ان سے ہم امریکی پالیسی سازوں کے ارادوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور انکا بر وقت توڑ کرنے کیلئے اقدامات کر سکتے ہیں اور اگر یہ رپورٹیں میڈیا وار نہیں ہیں اور امریکی حکومت انکو سنجیدگی سے لیتی ہے تو مجھے حیرت ہے۔ ان پر کروڑوں ڈالر خرچ کرنے کی بجائے امریکی حکومت پاکستان کے کسی کہانی نویس کو چند لاکھ روپے دے دے تو وہ ہر سال ایسا ایک خیالی افسانہ تحریر کر کے امریکی حکومت کو بھیج دیا کرےگا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔