امریکی اسٹارز Kate Spade اور Anthony Bourdain کی خودکشیاں۔
پچھلے ایک سال میں celebrities کی خودکشیوں نے مادہ پرستی کی جعلی زندگیاں گزارنے والوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ ابھی تو ان میں سے جو زندہ ہیں بیشتر زندہ لاشیں ہیں ، اگر اُن کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو ایسی ایسی چیزیں پتہ لگیں گی کہ آپ پاگل ہو جائیں گے اور کہیں گے لعنت بھیجو ایسے پیسہ اور شہرت پر جس میں نہ سکون نہ چاہت ۔ جیسے ہلٹن ہوٹل chain کا جواں سال اکلوتا وارث , جس کو بار بار نشہ کے استمعال کی وجہ سے rehab بھیجا جاتا ہے ۔ پاکستان میں لوگ خودکشیاں غربت کی وجہ سے کرتے ہیں ، یا عاشقی میں ناکامی پر ۔ یہاں زیادہ تر جعلی زندگیاں گزارنے کی وجہ سے ۔
ہمیں اب اپنی زندگیوں کو بدلنا ہو گا ۔ ہم بلکل اپنے قدرتی طریقہ زندگی سے ۱۸۰ ڈگری مختلف زندگی گزار رہیں ہیں ۔ ہم manufactured ہی نہیں ان مصنوعی زندگیوں کے لیے ۔ ہمیں تو مستقل ارتقاء کے mode میں رہنا چاہیے تھا نہ کہ، ایک fixed material goal میں ۔ حواس خمسہ کی حدوں سے بہت باہر نکل کر دنیا کو دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی ۔
مجھے بہت خوشی ہے کہ امریکی نوجوان نسل میں روحانیت والی زندگیوں کا انقلاب آ رہا ہے ۔ آج صبح ہی پارک میں ہر عمر کے سینکڑوں ، ریس میں دوڑنے والے لوگوں سے ٹاکرا ہوا جو Middle Sex County pancreatic cancer awareness walk میں حصہ لے رہے تھے ۔ کیا موج اور مستی اور چمک تھی ان کے چہروں پر ، گو کہ آج نسبتا بہت گرم دن ہے یہاں ایڈیسن میں ۔
امریکی میڈیا ابھی بھی ان خودکشیوں کو ڈیپریشن کی مرض سے جوڑ رہا ہے اور مزید علاج اور دوائیوں کی فروخت کا بیانیہ گھڑ رہا ہے ۔ یہ درست ہے کہ جب کیمیکل بریک ڈاؤن ہوتا ہے تو serotonin اور dopamine کی کمی ہو جاتی ہے اور نیورو ٹرانسمٹرز کا بیلینس خراب ہو جاتا ہے ۔ اس کا فوری حل تو یقینا دوائیاں ہو سکتی ہیں لیکن دیر پا حل اپنی زندگی میں تبدیلیاں لانا ہوتا ہے ۔
آرٹسٹ اور creative لوگ بہت حساس ہوتے ہیں، اگر اُن کو مقابلہ ، status یا fame کی دوڑ میں ڈال دیا جائے تو وہ اکثر اس مرض کا شکار ہوتے ہیں ۔ اکثر Hollywood ، بلکہ Bollywood کے اسٹار بھی اس مرض کہ شکار ہیں ۔
دراصل جیسا کہ Spinoza نے کہا تھا کہ طاقت ، پیسہ اور شہرت نظروں کے دھوکہ کہ سوا کچھ نہیں اور Gary Zukav نے اپنی کتاب The seat of the soul میں اسے مصنوعی طاقت کہا اور رُوح کی توانائ اور پرورش کو authentic power کہا ۔ لیکن ہم ابھی بھی پیسہ ، شہرت اور طاقت کے چکر میں اپنی زندگیاں برباد کری جا رہے ہیں ۔
آج ساری دنیا اس دھوکہ کا شکار ہے ۔ ہر طرف جعل سازی ، فراڈ ، طاقت ، بے ایمانی اور پیسہ کا مقابلہ ۔ نتیجہ یہی ہونا تھا جو ہو رہا ہے ۔ مشہور فیشن ڈیزائنر
Gianni Versace
نے کہا تھا کہ مجھے اس چیز کی خوشی نہیں کہ میرا برانڈ بہت بِک رہا ہے بلکہ یہ کہ لوگوں نے میری تخلیق کو بہت سراہا اور پسند کیا ۔
اسی وجہ سے اُس نے قدیم یونان کی محبت کی علامت Medusa کو اپنے logo کے لیے چُنا تھا ۔ کیونکہ Medusa سے ایک دفعہ کوئ پیار کرتا تھا تو پھر ہٹتا نہیں تھا ۔ Versace چاہتا تھا کہ اُس کے برانڈ سے بھی لوگ ایسے ہی پیار کریں ۔ اب تو برانڈ گیم پیسے کی دوڑ ہو کہ رہ گئ ہے ۔ مرحوم تبلیغی ، سابقہ پاپ سنگر ، جنید جمشید بھی اس کا شکار رہا ۔ کیا ہی بات ہو اگر یہ چیزیں مقابلہ اور پیسہ کے بغیر ہوں ، کوئ بھی تخلیق ہو ، وہ تو ایک اپنا ہی مزہ دیتی ہے اُس کہ خالق کو ۔ جیسے مجھے ان مضامین سے جو میں پیسہ یا شہرت کے لیے نہیں لکھتا ، میرا شوق ہے ، لہٰزا بہت خوشی ہوتی ہے ۔
آئیں مل کر ان جعلی زندگیوں سے چھٹکارا حاصل کریں اور قدرتی زندگیوں کی طرف آئیں اور اپنا زندگی میں آنے کا مطلب تلاش کریں ۔ ہمارے موجودہ نفرتوں اور مقابلہ کہ رویہ نے تو کائنات کے محبت کے تقاضوں کو فنا کر دیا ہے ۔ اُس کے مرکز میں دراڑیں ڈال دیں ہیں ۔ اس رابطہ کو پھر جوڑیں ۔ ان زندگیوں کو پیار کا نغمہ بنائیں ۔
بہت خوش رہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔