مارچ ۲۰۱۵ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کیا جسے کسی نے بھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ انتہائی تجربہ کار سیاسی حریفوں کو ایک نو آموز کے ہاتھوں پر مرحلے پر غیرمتوقع شکست اور آخری دن تک تمام سیاسی پنڈتوں کے اندازے غلط ثابت کرتے ہوئے انتخاب کا نتیجہ ہر ایک کے لئے حیران کن تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں اور مخالفین کی جذباتیت کی وجہ سے ان کی انتخابی مہم کے معروضی تجزیات بہت کم ہیں لیکن سیاست کی تاریخ میں اس سے مؤثر مہم کوئی اور نہیں رہی۔ نفسیات کے حوالے سے اس میں بہت سی چیزیں سیکھنے کو ہیں لیکن ابھی بات صرف ایک اینگل سے۔ ٹرمپ کی ایک مہارت اپنی حریفوں پر لیبل چسپاں کرنے کی رہی۔ تھکا ہوا جیب بش، چھوٹا مارکو، جھوٹا ٹیڈ، ٹیڑھی ہلیری جیسے لیبل بروقت اور مسلسل لگانا کسی بھی دلیل سے زیادہ مؤثر رہا۔ ایسا کیوں؟
ہم اس دنیا کو کچھ خانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ان کو دئے گئے ناموں کے ساتھ ہم غیرشعوری طور پر کچھ خصوصیات چسپاں کر لیتے ہیں اور یہ خصوصیات ہماری زندگی کے ماحول اور تجربات سے آتی ہیں۔ ہم دور میز پر پڑا سرخ پھل دیکھ کر ذہن میں سیب کا نام دیتے ہیں اور ذہن خود ہی اس کا رسیلا پن، ذائقہ، اس کو کھا کر ملنے والا احساس نتھی کر دیتا ہے اور شاید منہ میں پانی بھی آنا شروع ہو جائے حالانکہ ابھی اسے چکھا بھی نہیں کہ کہیں یہ خراب تو نہیں یا پلاسٹک کا بنا ڈیکوریشن پیس تو نہیں۔ اسی طرح متلی یا قے کے الفاظ سن کر جی متلانا شروع کر دیتا ہے۔ جہاں دماغ کی اس طاقت سے ہم دنیا کو بہت جلد اور آسانی سے سمجھ لیتے ہیں، وہیں یہ ہمارے تعصبات کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ یہ نام کس قدر اہم ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے کہ نیلے رنگ کے لئے روسی زبان میں ہلکے اور گہرے شیڈ کے لئے بالکل الگ الفاظ ہیں۔ روسی اور انگریزی زبان کے بولنے والوں پر کئے گئے ٹیسٹ نے بتایا کہ روسی ان رنگوں میں بہت آسانی سے تمیز کر لیتے ہیں۔
جب یہ ناموں کے خانے ہم لوگوں اور خیالات کے ساتھ چسپاں کر دیتے ہیں تو پھر ان کو ہم ان کو غیرشعوری طور پر لیبل کی عینک کے فلٹر سے سب سے پہلے گزارتے ہیں۔ یہ لیبل خود ہر قسم کے ہیں۔ گورا، کالا، سردار، پٹھان، پنجابی، لبرل، قدامت پسند، امیر، غریب، ذہین، سادہ، بوڑھا، یہودی، مولوی، موٹا، پروفیسر اس طرح کے لگے لیبل کی مثالیں ہیں۔ ان الفاظ کے ساتھ ہمارے ذہنی تصورات جڑے ہیں اور ایک طرح کا لفظ اپنا پورا ساز و سامان ساتھ لے کر آتا ہے۔
کوئی آئیڈیا یا کوئی شخص کیسا ہی ہو، اس کو کسی دوسرے کے دل سے اتارنے کا آسان شارٹ کٹ یہ کہ دوسرے کے لئے جو لیبل ناپسندیدہ ہو، وہ اس پر چسپاں کر دیا جائے۔ نفسیات سے ہمیں یہ پتا لگتا ہے کہ بہت کم لوگ اس کے الفاظ کو معروضی طور پر پرکھنے کی کوشش بھی کریں گے۔
کیا آپ کسی کے بارے میں خیال اس پر لگے اس قسم کے لیبلز کے بغیر کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ کیا آپ میں یہ صلاحیت ہے کہ اہمیت اس کو دیں کہ بات کیا کہی گئی، نہ کہ یہ کہ کس نے کہی؟ نفسیات سے پتہ لگتا ہے کہ بہت زیادہ امکان ہے کہ آپ کہیں گے کہ ہاں، آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ نفسیات سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ آپ کا جواب غلط ہے۔ نفسیات سے پھر یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ جو اپنے جواب کی غلطی ڈھونڈ سکے، صرف وہ اسے واقعی اس تعصب کو کم کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
ہمارا ذہن دنیا کی تصویر کیسے بناتا ہے، اس کے لئے ساتھ لگی تصویر ذرا غور سے۔
نام دینے سے تعصب تک پر سائیکولوجی ٹوڈے کا آرٹیکل
https://www.psychologytoday.com/…/why-its-dangerous-label-p…
زبان کا اثر
https://sites.fas.harvard.edu/~mrbworks/…/2004_Walton_SC.pdf
ڈونلڈ ٹرمپ کیناس کامیاب تکنیک پر
https://www.washingtonpost.com/…/little-marco-lying-ted-c…/…
ٹرمپ کی مہم کے نفسیات کے حوالے سے دوسرے کئی زاویوں تجزیے پر سکاٹ ایڈمز کی کئی ویڈیوز یوٹیوب پر مل جائیں گی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔