امریکی استعمار کا طوفان، شام سے وینزویلا تک
شیکسپیئر کے شہکار The Tempest میں انتونیو، نیپلز کے بادشاہ الونسو کے قتل اور تخت پر قبضے کی تجویز دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وہ اور اس کا شریک سازش، الونسو کا بیٹا سیباستین تقدیر کی جانب سے اس کام پر مامور ہیں جبکہ ماضی اس سب کی تمہید ہے جو مجھے اور تمہیں آئندہ کرنا ہے۔ماضی، حال کی تمہید ہے، یہ کہنا ایسا ہی ہے جیسا کہ گزرنے والے واقعات وہ سٹیج تیار کرتے ہیں جس پر آئندہ واقعات رونما ہوتے ہیں۔ انتونیو اور اس کے ساتھی سازشیوں کا یہی خیال امپیریل سٹیٹ کا حیرت انگیز Analogue ہے جہاں انتخابی آپشن بھی سوائے سامراجیت کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ جہاں ری پبلیکن انتظامیہ کے بعد آنے والی ڈیموکریٹ انتظامیہ بھی گہرائی میں محض سرسری تبدیلی کے ساتھ امریکی ریاست کے سامراجی ایجنڈے پر ہی کام کرتی ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ بش ، اوباما کی صدارت کی محض تمہید ہی تھے اور اوباما ، ٹرمپ کی تمہید۔
مگر امریکی صدر ٹرمپ اپنے اس دورِ صدارت میں کبھی کبھار عقل و ہوش کا مظاہرہ بھی کرتے آرہے ہیں جیسا کہ انہوں نے اپنی شامی حکمت عملی میں حکومت کی تبدیلی کو مسترد کردیا۔ انہوں نے شام میں دہشت گردوں کی تربیت اور انہیں مسلح کرنے کا سی آئی اے کا پروگرام بھی کینسل کردیا۔ انہوں نے روسی صدر پوتن سے شام میں سیزفائر پر مذاکرات کیے۔ یہ وہ مثبت اقدامات ہیں جو ایک قسم کی تنازع مخالف ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں جس پر کچھ لوگ ان کی حمایت کررہے ہیں۔ تاہم، یوں لگتا ہے کہ انہوں نے فوج کو اپنا فوکس ایران، شمالی کوریا اور وینزویلا کی طرف مرکوز کرنے کی ہدایت کی ہے اور خطرناک طور پر ان ملکوں کے خلاف معاندانہ اقدامات بڑھا دئیے ہیں۔ پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ لنڈسے گراہم نے شمالی کوریا کی تباہی کا منصوبہ پیش کردیا ہے۔ جان مکین، یوکرائن کے فاشسٹوں کو مزید ہتھیار فراہم کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ سٹیو منچن ، وینزویلا کے ’’ڈکٹیٹر‘‘ نکولس مدورو پر Sanctionsلگانے کا کہہ رہے ہیں۔ کانگرس نئے Anti-BDS بل کے ساتھ یہودی مخالف اور صیہونی مخالف دکھائی دے رہی ہے۔ اسرائیل 40غیرقانونی آبادکاروں کی بستی کی جگہ دوہزار یونٹ کی بستی آباد کررہا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے اس کی بظاہر مذمت کی ہے۔ سیکیورٹی کونسل اس پر مگر خاموش ہے۔ دوسرے الفاظ میں، خارجہ پالیسی میں سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا ہے۔
شام میں بھی سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے۔شام کے شمالی علاقوں کی کانٹ چھانٹ کرکے ایک نیا کُردستان بنایا جا رہا ہے۔ اس پر ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کی جائے گی جو امریکہ کو فوجی چھائونیاں بنانے کی اجازت دیتی رہے۔ شام کے شمالی حصے میں پہلے ہی تقریباً آٹھ امریکی Bases موجود ہیں۔ ابتدا سے ہی یہی منصوبہ رہا ہے۔ 1982ء کے Yinon Plan میں اس کی سفارش کی گئی تھی، جو مشرقِ وسطیٰ پر کنٹرول کے لیے ایک صیہونی بلیو پرنٹ تھا اور جس کی توثیق واشنگٹن کی تقسیم کرو، تباہ کرو اور حکومت کرو کی حکمت عملی نے کی تھی۔ اوباما نے خصوصی افواج شام کے شمالی علاقوں میں بھیجی تھیں تاکہ سرین عرب آرمی (SAA) سے پہلے کُرد YPG اور نام نہاد فری سرین آرمی، رقا پر قبضہ جما سکے۔ انہی وجوہات کی بنا پر جان کیری نے ایک طرح سے ماسکو سے درخواست کی تھی کہ القاعدہ پر بمباری نہ کی جائے۔
اصل مقصد، عراق اور شام کی سرحد پر ایک ایسے ملک کا قیام ہے جو سلفی نہ ہو، اور جو شام کی سیکولر ریاست کو کمزور کرسکے، حزب اللہ اور ایران کے درمیان دخل اندازی کرسکے اور عدم استحکام کی کاروائیاں کرسکے اور پھر آخرکار ایران اور اس سے آگے روس میں انقلاب لا سکے۔
کُرد یقینا مشرقِ وسطیٰ کے تنازع میں مستقل طور پر ایک مظلوم اقلیت سمجھے جاتے ہیں۔ اب سنی شیعہ تنازع کے گرداب میں واشنگٹن بھی ان کُردوں کی الگ ریاست کی خواہش میں شریک ہوچکا ہے۔ YPG کُرو PKK کی مسلح ورژن ہے، PKK ترکی کی کُرد تنظیم ہے،ترک حکومت جس کے خلاف اقدامات کرتی آ رہی ہے۔امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ پی کے کے کو ایک دہشت گرد تنظیم گردانتا ہے اورYPG شمالی شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہی ہے، نرم الفاظ میں کہا جائے تو عیسائیوں کو دہشت زدہ کرنے اور عرب سرزمین ہتھیا کر اسے اپنے کُردستان میں شامل کرنے کے ارادوں کے باعث۔ اگرچہ یہ وہی طریق کار ہے جس سے صیہونیوں نے فلسطین پر قبضہ کیا۔
یہ سب بارک اوباما کا کام تھا جنہوں نے سی آئی اے اور پینٹاگون کے ان منصوبوں کو گرین سگنل دیا جن کے مطابق دہشت گردوں (جنہیں ’’اعتدال پسند باغی‘‘ کہا جاتا ہے) مسلح کیا جانا تھا تاکہ دمشق میں حکومت تبدیل کی جاسکے، شام میں لگی آگ میں اسلام پسندوں کی مدد کے لیے سپیشل فورسز جھونکی جائیں ، شام اور عراق پر بمباری کی جائے، اور سعودی عرب، ترکی، برطانیہ اور دوسرے اتحادیوں کی عدم استحکام کی کارروائیوں کی پشت پناہی کی جائے۔
جہاں تک بات ہے وینزویلاکی، وہاں اقتصادی انتشار اور عام گلیوں میں تشدد کا سبب صدر نکولس مدورو نہیں ہیں۔ واشنگٹن نے مدوروحکومت کا تختہ الٹنے کی متشدد بغاوت کے لیے اُن نام نہاد اپوزیشن گروپوں میں لاکھوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے جو الیکشنز سے مایوس اور جمہوریت کے مخالف رہے ہیں( ان کی 2002ء اور 2015ء کی حکومت الٹنے کی کوششیں ناکام رہیں)۔ اپوزیشن نے ایک حکومتی عمارت نذرِ آتش کردی، دوسری کو بم سے اڑا دیا۔دو مرتبہ انہوں نے فیڈرل پولیس یونٹوں کو بمباری کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے Chavistasکو قتل کیا اور نذرِآتش کیا۔ انہوں نے حکومت کو آمرانہ اقدامات پر اکسانے کے لے جو ہوسکا ، کیا ہے۔ کچھ بھی جس پر حکومت اپنا جواز کھو دے اور ان کو مداخلت کا بہانہ مل سکے۔ سفاکانہ سامراجی مداخلت کے لیے میکسیکو اور کولمبیا کی مدد لی گئی۔ اس کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کے سیکریٹری آف سٹیٹ ریکس ٹلرسن نے اس آگ کو مزید احمقانہ طور پر ہوا دی ہے، یہ کہہ کر صدر مدورو یا تو رخصت ہو جائیں یا پھر ’’آئین کے مطابق اقدامات کریں‘‘۔ ایک نائب نے اعلان کیا کہ آرگنائزیشن آف امریکن سٹیٹسOAS ’’اتحادی پارٹنر‘‘ ہے، اگرچہ تنظیم کا چارٹر ایسی کسی بھی مداخلت سے منع کرتا ہے جو مغرب کرنے کے لیے بے چین ہے۔ سی آئی چیف کا کہنا ہے کہ وہ ’’پُرامید ہیں کہ وینزیلا میں حکومت میں تبدیلی آسکتی ہے‘‘ اور ان کی میکسیکو سٹی اور بوگوٹا میں ان ملکوں کو وینزویلا میں حکومت کی تبدیلی میں مدد دینے پر قائل کرنے کی کوششیں۔
بروکنگز انسٹی ٹیوٹ جیسے تھنک ٹینکس نے پُرفریب دلائل شائع کیے ہیں جن میں OASکو صدر مدورو کو نکالنے کے لیے دبائو ڈالنے کا کہا گیا ہے، جس کے بعد نیولبرل لون پیکج دیا جائے جس میں سامراجی فنانس کی تمام معاشی شرائط شامل ہوں گی بشمول غیرملکی براہِ راست سرمایہ کاری، غیرملکی سرمائے، انتہائی کم قیمتوں پر قومی اثاثوں کی نجکاری، بغیر عوام سے کسی مشاورت کے۔ بروکنگز کا کہنا ہے کہ تمام تر انتشار صدر مدورو اور ان کے ’’لامحدود طاقت و اختیار کے اندھے وہم‘‘ کے باعث ہے۔
کیا کوئی بات واشنگٹن کی اس دلیل کی حمایت کرتی ہے کہ صدر مدورو ایک طاقت کے بھوکے آمر ہیں؟ اس کا انحصار اس پر ہے کہ درج ذیل اقدامات پر آپ کیا سوچتے ہیں:2015 ء میں پارلیمنٹ پر اپوزیشن کے قبضے کے بعد صدر مدورو کی جانب جھکائو رکھنے والے سپریم ٹرابیونل آف جسٹس نے ووٹنگ میں بے قاعدگی پر تین قانون سازوں کو نکال دیا، اپوزیشن کو اکثریت لینے سے روکنے کی خاطر۔ 2016ء میں نیشنل الیکٹورل کونسل نے صدر مدورو کے خلاف ریفرنڈم کینسل کردیا جب CNEنے ریفرنڈم کا مطالبہ کرنے والے ہزاروں دستخطوں کو غیرقانونی قرار دے دیا۔ 2017ء میں TSJجب نیشنل اسمبلی نے جب تین اراکین کو فراڈ سے منتخب ہونے کے الزام پر نکالنے سے انکار کردیا تو TSJ نے نیشنل اسمبلی سے قانون سازی کے اختیارات واپس لے لیے۔
تاہم ان اراکین کو پارلیمانی استثنیٰ دے کر ان کی توثیق CNE نے کردی۔ صدر مدورو نے پھر ریفرنڈم کی بجائے سرکاری حکم نامے سےConstituent اسمبلی ووٹ کا اعلان کیا، بالکل اپنے پیش رو ہوگو شاویز کی طرح۔ اپوزیشن نے Constituentاسمبلی ووٹ کا بائیکاٹ کردیاکہ یہ بیشتر منتخب شدہ اراکین حکومت کے حمایتی تھے۔ اسمبلی کا پہلا کام اس اٹارنی جنرل کو جلاوطن کرنا تھا جس نے کھلے عام صدر مدورو کو چیلنج کیا تھا۔
صدر مدورو جو کچھ بھی کریں، ان پر ایک ڈکٹیٹر کا لیبل لگ چکا ہے۔ مغرب صدر مدورو کو ہٹانا چاہتا ہے، اس سے پہلے کہ وینزویلا کی قانون ساز اسمبلی آئین میں سماجی تبدیلیاں کرسکے۔ مدورو، بولیویرین انقلاب کے وارث ہیں جس نے ہوگو شاویز کی قیادت میں قوم کو تبدیل کرڈالا۔ معاشی ترقی ہوئی۔ غربت میں ڈرامائی کمی آئی۔ غذائی سہولیات بہتر ہوئیں۔ بچوں کی غذا میں بہتری آئی۔ ناخواندگی کا خاتمہ ہوا۔ اعلیٰ تعلیم کی شرح میں اضافہ ہوا۔ آمدنیوں کی شرح بڑھی۔ حتیٰ کہ ورلڈ بینک نے اس کو تسلیم کیا۔ اس پر بدمزاج کٹھ پتلی آقا ناراض ہیں کیوںکہ وہ خائف ہیں کہ کہیں یہ سوشل ماڈل پورے خطے میں نہ پھیل جائے۔ اس لیے مدوروکو چلے جانا چاہیے۔وینزویلا کی مخالفت کی پیش گوئی بارک اوباما کے 2015ء کے بیان سے ہوتی ہے جب انہوں نے وینزویلا کو امریکہ کی قومی سلامتی کے خلاف خطرہ قرار دیا تھا۔اوباما کے اس نقطہ نظر کی بنیاد اس صدی کے آغاز میں ہوگو شاویز کو ہٹانے کی جارج بش کی کوششیں تھیں۔
یہ یقینا طبقاتی جنگیں ہیں۔ اشرافیہ، عوام کے خلاف اپنے کٹھ پتلی حکمران اور ان کی نمائندہ حکومتیں کھڑی کرتی ہے۔ اور یہ طبقاتی جنگیں کلونائزیشن سے کچھ بڑھ کر نہیں۔ ہم کسی پوسٹ کلونیل دور میں نہیں جی رہے، کلونائزیشن کی صرف شکل بدل گئی ہے۔ امریکہ نے برطانوی سامراجیت سے سبق سیکھا اور اہدافی ملکوں کی سرزمینوں، رہنمائوں اور وسائل کو فتح کرنے کے لیے اپنے طریق کار رائج کیے ہیں۔ اس میں ایک تسلسل اور تحرک ہے۔ اگرچہ براہِ راست جارحانہ جنگیں بھی جاری رہی ہیں لیکن فتوحات اور کنٹرول کی خاطر امریکہ قرض، اقتصادی پابندیاں، این جی اوز کا نفوذ، اپوزیشن کو فنڈنگ، انتخابی مداخلت، قتل، مسلح تربیت اور اسلحہ کی فراہمی، پراکسی افواج اور فضائی مدد جیسی ترکیبیں بھی استعمال کرتا چلا آرہا ہے۔ کلونائزیشن کے جاری رہنے کی دو بڑی وجوہات ہیں، پہلا سبب دوفریقی اتفاقِ رائے ہے، دونوں پارٹیاں اشرافیائی دولت کی ترجمانی کرتی ہیں۔ واشنگٹن میں بھی رائے عامہ کی ترجمانی نہیں ہوتی۔ جارج بش نے 9/11سے حاصل ہونے والی سیاسی حمایت کو مشرقِ وسطیٰ کی تباہی میں استعمال کیا اور بارک اوباما نے یقین دہانی حاصل کی امریکہ، عراق اور افغانستان میں جما رہے۔ اوباما ہی نے امریکی افواج کو شام اور لیبیا بھیجا۔ ان میں سے ایک دہشت گردی کی دلدل بن چکا ہے جبکہ دوسرا ملک ٹکڑے ٹکرے ہونے کو ہے۔ اسی طرح وینزویلا کے خلاف ری پبلیکن جارحانہ اقدام کا بھی خیرمقدم ہوا ہے۔ ڈیموکریٹس اور ری پبلیکنز کے عزائم ایک سے ہیں، محض ان کے لائحہ عمل میں فرق ہے۔ ری پبلیکن کھل کر اقدام کرتے ہیں جبکہ ڈیموکریٹس چوری چھپے، برزنسکی جیسے اقدامات کہ پراکسی کے ذریعے عدم استحکام لایا جائے۔
کلونائزیشن کے جاری رہنے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ کارپوریٹ میڈیا اسے غیر واضح اور مبہم بنا دیتا ہے۔ کلونائزیشن کے جاری رہنے کی وجہ عام امریکی دماغ کی کلونائزیشن ہے۔ عوام سامراجی پراجیکٹ کی حمایت پر قائل ہو جاتی ہے۔ ہمیں گویا یقین دلا دیا جاتا ہے کہ جو نقطہ نظر دکھائے اور سنوائے جا رہے ہیں، وہ عام لوگوں کی رائے ہیں۔ جبکہ درحقیقت ایسا ہے نہیں۔ مین سٹریم میڈیا میں کچھ بھی ’’مین سٹریم‘‘ نہیں ہے۔ یہ نام نہاد مین سٹریم آراء محض ایک فیصد کی رائے ہے جس کو عوام پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔ پراپیگنڈا اسی طرح کام کرتا ہے اور میڈیا چینلز کے ذریعے پھیلا یا جاتا ہے۔
ماضی، تمہید ہے۔ جو کچھ ماضی میں کیا جا چکا، وہ اس کا سٹیج ہے جو مستقبل میں کیا جائے گا۔ کارٹر اور برززنسکی کے Templatesپر اوباما نے کام کیا۔ کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ کل کا افغانستان، آج کا شام۔ کل کا پولینڈ، آج کا وینزویلا۔ لیکن ذومعنی بات یہ ہے کہ استحصال کی آمرانہ دنیائوں میں مستقبل، ماضی جیسا نہیں ہوگا۔ شام اور وینزویلا، عراق اور لیبیا میں بہت سے لوگ، جنگ سے تباہ حال حمص کی ایک دیوار پر لکھی تحریر کو ہی دہرا رہے ہیں، ’’ہم مستقبل کا خواب دیکھتے تھے، اب ہم ماضی کے خواب دیکھتے ہیں۔‘‘
“