امریکہ کی دریافت کے بعد جب یورپی لوگ امریکہ گئے تو وہاں صدیوں سے بسنے والے مقامی قبائل جدید دنیا کی بیماریوں کے خلاف مدافعت نہیں رکھتے تھے جس سے ہوتا یہ کہ وہ لوگ یورپی لوگوں سے ملنے کے بعد “پُر اسرار” بیماریوں مبتلا ہو جاتے اور ان میں سے کئی افراد مر جاتے۔ یہ بالکل ویسے ہی تھا جیسے 2019 میں کورونا وائرس آیا جو ایک نیا وائرس تھا جسکے خلاف دنیا کی بیشتر آبادی کی قوتِ مدافعت نہیں تھی اور یہ دنیا بھر کے لیے وبا بن گئی۔
چونکہ یورپی افراد ایک ایسی دنیا میں رہتے جہاں تجارتی راستے اور انسانی آبادی کی نقل و حرکت چین سے لیکر افریقہ تک تھی، لہذا صدیوں سے ان میں آپس کے میل جول سے پھیلنے والی مخلتف بیماریوں کے خلاف مدافعت آ چکی تھی۔ کئی جگہوں پر وبائیں ضرور پھیلیں مگر آبادیوں کا بہت سا حصہ انکے خلاف صدیوں کے میل جول کے نتیجے میں مدافعت پیدا کر چکا تھا۔ تاہم بر اعظم امریکہ جو باقی دنیا سے کٹ کر تھا وہاں کے مقامی قبائل اور آبادیوں میں جدید دنیا کی بیماریوں کے خلاف مدافعت پیدا نہیں ہوئی تھی۔ سو یہ بیماریاں انکے لیے نئی تھیں جیسے کہ خسرہ، تشنج، ٹائفائیڈ یا نمونیہ وغیرہ جس سے وہ مر جاتے۔
یورپ سے شروع میں کشتیوں میں عیسائی مشنریز بھی آئے جو مقامی آبادی کو عیسائیت کی تبلیغ کرتے۔
جب مقامی آبادیاں مرنے لگیں تو یورپی لوگوں میں یہ تصور قائم ہوا کہ چونکہ عیسائی حق پر ہیں لہذا مقامی آبادی پر یہ بیماریاں خدا کا عذاب ہیں اور خدا چاہتا ہے کہ ان آبادیوں کو ختم کر کے یہاں یورپی لوگ آباد ہوں۔ مقامی آبادیوں کی نسل کشی میں اس سوچ کا بھی بڑا ہاتھ رہا کہ وہ یورپی لوگ سمجھنے لگے کہ وہ ان سے برتر اور حق پر ہیں۔ ایسے ہی مقامی آبادیوں میں یہ تصور قائم ہوا کہ یورپی افراد جادو کرتے ہیں یا انکے پاس کوئی غیر مرئی قوتیں ہیں جسکے باعث مقامی افراد پر بلائیں اور غیر مرئی مخلوقات آتی ہیں جو انہیں بیمار کرتی ہیں۔ کم و بیش یہی تصور یورپ اور ایشیا میں ماضی میں بھی رہا جہاں وہ جراثیموں، بیکٹریا اور دیگر آنکھ سے نہ دِکھنے والی خوردبینی جانداروں سے پھیلنے والی پراسرار بیماریوں کو جنوں بھوتوں اور عذابوں سے جوڑتے۔ مگر آج ہم جانتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے یا ماضی میں ایسا کیوں ہوتا تھا۔اور اس علم کی بنیاد پر ہم جدید ادوایات بنا رہے ہیں۔ دنیا سے کئی وبائی بیماریوں کا خاتمہ کر رہے ہیں اور کروڑوں انسانوں کی جانیں بچا چکے ہیں۔
دنیا میں اب بھی ایسے چند قبائل موجود ہیں جنکا جدید انسانوں سے کوئی رابطہ نہیں۔ یہ قبائل ایمازون کے جنگلات میں، افریقہ میں یا بھارت کے قریب جزائر میں پائے جاتے ہیں جہاں مقامی آبادیاں جدید دنیا سے صدیوں سے کٹی ہوئی ہے۔
ایسے ممالک جہاں ایسی آبادیاں موجود ہیں وہاں سخت قوانین ہیں کہ ان لوگوں سے رابطہ نہ رکھا جائے نہ ہی انہی کسی طرح کی تبلیغ کی جائے کیونکہ رابطہ کرنے کی صورت یہ آبادیاں بیماریاں پھیلنے کے باعث صفحہ ہستی سے مٹ سکتی ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...