امریکہ کے صدارتی انتخابات پر دنیا بھر کی نگاہیں ہوتی ہیں باوجود اس کے کہ سبھی جانتے ہیں امریکہ کا صدر امریکہ کی دو بڑی پارٹیوں ڈیموکریٹس اور ری پبلیکنز میں سے چاہے کسی کا بھی امیدوار کیوں نہ جیتے امریکہ کی خارجہ پالیسی کا تعین عشروں سے ہو چکا ہوتا ہے۔ ہاں البتہ اس ضمن میں معروضی حالات کے مطابق لائحہ عمل ضرور تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
ظاہر ہے کہ کسی ملک پر حملہ کرنا، کسی ملک میں فوج بھیجنا یا کسی ملک کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگانا حکمت عملی کا حصہ نہیں ہو سکتا بلکہ لائحہ عمل ہوتا ہے۔
امریکہ میں صدر کسی بھی پارٹی کا ہو وہ ملک کے اندر کار فرما پالیسیوں پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے تاہم داخلہ پالیسیوں میں کی جانے والی تبدیلیوں کے لیے دونوں قانون ساز ایوانوں سے منظوری لیا جانا ضروری ہوتا ہے۔ کبھی کوئی صدر اپنی اندرونی پالیسی کا کوئی انگ منظور نہیں کرا سکتا مگر بیشتر اوقات منظور کرا لیا کرتا ہے۔ ان پالیسیوں کی کامیابی اور ناکامی ہی اگلے صدارتی انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہوا کرتی ہے۔
مختلف ملکوں کے متنوع ٹی وی چینل صرف امریکہ کے انتخابات کو ہی کور نہیں کرتے بلکہ دوسرے بڑے ملکوں جیسے روس، برطانیہ، فرانس وغیرہ میں ہونے والے انتخابات اور ریفرنڈموں کی بھی بھرپور رپورٹنگ کرتے ہیں۔ روس کے لوگوں کی امریکی انتخابات میں دلچسپی اور امریکیوں کی روس کے انتخابات میں دلچسپی ایک پرانے مخاصمے، جسے سرد جنگ کہا جاتا تھا، کا ناستلجیا ہوتا ہے۔ اسی طرح ایران کے انتخابات میں امریکی عوام کی دلچسپی، ایران سے منسوب پھیلائے گئے خوف کے سلسلے میں امید اور ناامیدی کا پرتو ہوتا ہے۔ سوویت یونین کے انتخابات عام دنیا کے لیے ناقابل فہم اور ناقابل اعتبار ہوا کرتے تھے۔ اسی طرح چین کے انتخابات ہیں جن میں کسی کو دلچسپی نہیں ہوتی۔
پاکستان کے چینلوں کو اگر کسی ملک کے انتخابات کا عمل اور اس کے نتائج دکھانے میں دلچسپی ہونی چاہیے تو وہ ہندوستان کے انتخابات ہونے چاہییں۔ روس بھی کچھ دور کا ہمسایہ ہے۔ افغانستان اور وسط ایشیا کی ریاستیں بھی قریبی ہمسایہ ملک ہیں جہاں کے انتخاباتی عمل اور نتائج میں دلچسپی ہونی چاہیے۔ اسی طرح ہندوستان کو بھی پاکستان کے انتخابات میں جو خال خال ہی ہوئے ہیں دلچسپی لینی چاہیے۔
مگر دیکھا یہ جاتا ہے کہ سمندرپار دور دیس ریاستہائے متحدہ امریکہ کے انتخابات کو دکھایا جانا پاکستان کے چینلوں کی ترجیح ہوتی ہے۔ انتخابات سے پہلے ہمارے دوست مرتضٰی سولنگی نے امریکی انتخابات سے متعلق اپنے شو "عوام" کے ابتدائیہ میں اس کی توضیح ان الفاظ میں کی تھی کہ "امریکہ چونکہ دنیا کا چوہدری ہے۔ اگر وہاں کسی کو چھینک آ جائے تو یہاں بہت سوں کو نمونیا ہو جاتا ہے" اس لیے ہم یہ شو کر رہے ہیں۔ اگلے روز انتخابات کے نتائج برآمد ہونے پر انہوں نے جو ٹویٹ کیا اس کی شروعات یوں ہوتی تھیں " ویسے تو امریکہ میں تمہارے دس لاکھ سے زیادہ اعمال پر رشک کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ " یعنی امریکہ صرف چوہدری ہی نہیں قابل رشک اعمال کی آماجگاہ بھی ہے۔ یاد رہے سولنگی صاحب اپنے بے لاگ تبصروں کے لیے معروف ہیں۔
پاکستان کے صرف ایک چینل جیو نے امریکہ کے انتخابات کی رپورٹنگ کے لیے جو انتظامات کیے تھے اس کے بارے میں جنگ گروپ کے ہی ایک اہلکار اور معروف صحافی اور مختصر کہانی نویس مبشر علی زیدی نے یوں لکھا تھا،" فون پر جیونیوز کے اینکر محمد جنید سے بات ہوئی ہے۔ جیونیوز نے امریکا کے انتخابات کی کوریج کے لیے بڑا انتظام کیا ہے۔ محمد جنید نیویارک میں ہیں، آصف علی بھٹی ہیوسٹن میں ہیں، واجد علی سید واشنگٹن میں ہیں، عظیم ایم میاں بھی ہیں، ان کے علاوہ محمود جان بابر ہیں، ذیشان بخش ہیں، ہدیٰ اکرام ہیں۔ نیوز کے علاوہ پروگرامنگ کی پروڈکشن ٹیم ہے، ان کے ساتھ سینئر تجزیہ کار ہیں، دونوں بڑی جماعتوں کے کارکن ہیں، امریکا میں مقیم پاکستانی ہیں۔ یعنی جیو کی الیکشن کوریج مثالی اور دوسروں سے بڑھ کر ہوگی۔"
میرے ہاں 9 نومبر کی صبح وائی فائی بیکار تھا، میں نے بھی مضطرب ہو کر موبائل فون انٹرنیٹ سے امریکہ کے انتخابی نتائج کے بارے میں جاننے کی سعی کی۔ ٹرمپ کی جیت کا سن کر سکون آ گیا کیونکہ تمام تبصرے اور اندازے غلط ہوئے تھے۔ ویسے تو سات نومبر کی رات کو ہی امریکہ سے حال ہی میں لوٹے، ڈیموکریٹس کے ایک فعال ورکر طلعت چوہدری نے بتا دیا تھا کہ ہیلیری کلنٹن ہار جائیں گی۔ میری امریکی صدارتی انتخابات میں دلچسپی کی وجہ میرا ربع صدی سے روس میں قیام، میری روسی شہریت اور روس کے صدر ولادی میر پوتن کی ذات والا صفات میں دلچسپی ہے۔
کیا پاکستان کے عوام کو امریکی صدارتی انتخابات میں دلچسپی ہے؟ لامحالہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔ انہیں تو اپنے ملک کے انتخابات میں بھی اگر وہ امید پر نہ جیتے ہوں تو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ پھر چینل ایسا کیوں کرتے ہیں کہ امریکی صدارتی انتخابات دکھاتے ہیں۔ امریکی انتخابات میں ان سب طبقوں کی دلچسپی ہوتی ہے جن کا براہ راست تعلق نظام سرمایہ داری یا امریکہ کے ساتھ ہوتا ہے جیسے این جی اوز سے وابستہ لوگ، فوج کی قیادت، سیاستدان بالخصوص قیادت اور حزب اختلاف کے رہنما، بذات خود میڈیا چینل جس کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہ سب جانتے ہیں کہ اگر ان کا حامی یا جس کی وہ حمایت نہ کر رہے ہوں صدر امریکہ بن گیا تو ممکن ہے کہ ان کو ملنے والی امداد، قرضہ جات، گرانٹس وغیرہ میں کمی آ سکتی ہے، پابندی لگ سکتی ہے، محدود کیے جا سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ لوگ بہت ہی کم تعداد میں ہیں مگر یہی وہ ہیں جنہوں نے سب کی آواز پر اپنی آواز بھاری کرنا ہوتی ہے۔
جب میں ریڈیو وائس آف رشیا اور بعد میں بین الاقوامی ایجنسی سپتنک سے وابستہ تھا تو روس کے صدر ولادیمیر پوتن کا کوئی بیان آ جانے یا ان سے متعلق کوئی خبر موصول ہونے کے بعد میڈیا کے ان اداروں کی قیادت کی سانسیں پھول جایا کرتی تھیں، سبھی ادھر ادھر بھاگ رہے ہوتے تھے کہ اس بیان یا خبر کے آنے میں کوئی تاخیر نہ ہو۔ لامحالہ پوتن کو اس بارے میں خیال تک نہیں ہوگا لیکن نمبر تو سب نے بنانے ہوتے ہیں۔ جب ایک بار میں نے اپنے شعبے کی سربراہ سے پوچھا کہ چاپلوسی کرنے والے کو وہ شخص کیوں پسند کرتا ہے جس کی چاپلوسی کی جا رہی ہوتی ہے اور وہ جانتا ہے کہ چاپلوسی کی جا رہی ہے تو ان کا جواب تھا،"وہ یہ سمجھتا ہے کہ چاپلوسی کرنے والا اصل میں اس کے موقف سے متفق ہے"۔ چینل نمبر بنا رہے تھے، لامحالہ ڈونلڈ ٹرمپ یہ خیال کریں گے کہ سب ان سے متفق ہیں۔ انہوں نے پہلی تقریر میں کہا ہی ہے" میں سب امریکیوں کا (امریکہ نواز افراد کا بھی، مضمون نگار) صدر ہوں"۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1596518060374298
“