تحریر : سنتھیا ملر- ادریس (امریکا)
مترجم : عقیلہ منصور جدون (راولپنڈی)
بہت سارے امریکیوں کے لئے چھ جنوری کے واقعات سے ملک کی اندرونی تشدد آمیز انتہا پسندی منظر عام پر آئی ہے انہوں نے حملہ آوروں کو زپ ٹائیوں ،ریچھ سپرے اور آگ بجھانے کے آلات سے لیس ،رکاوٹیں دھکیلتے ہوے ،کھڑکیاں توڑتے ہوے کانگرس کے ہالوں میں منتخب عہدے داران کی موت کا مطالبہ کرتے ہوے دیکھا ۔باہر پھانسیاں تیار کی جا رہی تھیں پائپ بمب، ڈیموکریٹک اور ریپبلکن نیشنل کمیٹیوں کے ہیڈ کوارٹرز کے نزدیک نصب کئے جا رہے تھے ۔کم سے کم سات لوگ مر گئے بڑی مشکل سے اس تباہ کن تشدد سے چھٹکارا پایا گیا ۔
اس سے قبل امریکہ کی طاقت ور علامتوں کو خطرہ ملکی سرحد سے باہر سمجھا جاتا رہا جیسے ستمبر 2011 .کے حملے ۔
تب امریکی لیڈران نے وعدہ کیا تھا ،کہ وہ آئندہ کبھی ایسا تشدد ملکی سرزمین پر پہنچنے نہیں دیں گے ۔ستمبر ۱۱کے حملوں کے چودہ مہینوں کے اندر کانگریس نے ایک بلکل نئی ایجنسی بنائی جسے ملکی سرزمین کے تحفظ کا ضامن قرار دیا گیا ۔ساتھ دہشت گردی کے خلاف اٹھنے والے اخراجات کے لئے کھربوں ڈالر کا وعدہ کیا ۔جس میں دہشت گردی کی روک تھام کے لئے ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ۔ انٹیلجنس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو لا محدود زرائع دیے گئے تاکہ وہ دہشت گرد گروہوں کی نگرانی اور انہیں بے آثر کرنے کی اپنی صلاحیتوں میں بہتری لائیں ۔
آئی ایس آئی اور القائدہ جیسے گروہوں کے لئے روائتی ہتھیار مؤثر رہے ۔کہ ستمبر گیارہ کے بعد کوئی دہشت گرد گروہ امریکہ کے اندر بڑا مہلک حملہ نہیں کر سکا ۔
ستمبر ۱۱میں تقریباً” تین ہزار لوگ مارے گئے تھے ۔لیکن اب ملکی تحفظ اور امن وسکون کو سب سے بڑا خطرہ غیر ملکی دہشت گرداں سے نہیں ہے ،بلکہ ملکی باشندوں سے ہے ۔اور سب سے بڑا خطرہ ملکی جمہوریت کو ہے ۔
جو چیز خطرے کو زیادہ نقصان دہ بناتی ہے وہ سرحدوں سے نہیں بلکہ مرکزی دھارے سے ہے ۔ایک مطالعے کے مطابق چھ جنوری کے حملہ آور وں کی اکثریت سرکاری ملازمین کی تھی ۔کچھ اساتذہ،کچھ انتظامیہ ،تجربہ کار فوجی ،ڈاکٹر اور وکلاء تھے ۔ریاست ہاۓمتحدہ کا انسداد دہشت گردی کا بنیادی ڈھانچہ جس کی توجہ سرحدوں سے ہونے والی دہشت گردی پر مرکوز تھی بے اثر ہو کر ٹوٹ رہا ہے ۔جس نے ملک کے اندر سے ہونے والے 2020 میں دہشتگردی کے کل ایک سو دس معلوم شدہ حملوں میں سے صرف اکیس حملوں کو ناکام بنایا ۔یہ رپورٹ عالمی اور حکمت عملی کے مطالعاتی مرکز نے جاری کی اور یہ کہ چھ جنوری کے تشدد کو بھی روکنے میں ناکامی ہوئی ۔
یہ تصور کہ ایک اور چھ جنوری وقوع پزیر ہو سکتی ہے ،محض بات کو بلاوجہ طول دینا نہیں ہے ۔روز بروز بڑھتی ہوئی انتخابی غلط معلومات کے دوران اکثریت سیاسی تشدد کی حامی ہے ۔آبادی کی اکثریت قومی الیکشن تسلیم کرنے سے انکاری ہے ۔ریپبلکن کے صرف ایک تہائی 2024 کے الیکشن میں اپنے نمائندوں کی ہار کو تسلیم کرنے کو تیار ہیں . امریک جمہوری اقدار بگڑتی نظر آ رہی ہیں. اسی وجہ سے نومبر میں امریکہ کو منحرف جمہوریتوں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ۔
امریکی حکومت کو سیاسی تشدد اور انتہاپسندی کو محض سیکیورٹی کا مسلۂ سمجھنے سے باز آنا پڑے گا وگرنہ اس کی تشدد آمیز انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں بہت ساری قابل توجہ باتیں نظرانداز ہو جائیں گی ۔
ان دو دہائیوں سے میں انتہاپسندی کا مطالعہ کرتی چلی آ رہی ہوں ۔میں نے بنیاد پرستی کے راستے تیزی سے بدلتے دیکھے ہیں پوری بیسویں صدی کے دوران مستقبل کے انتہا پسندوں کے لئے انتہاپسندی کے مواد تک رسائی کے لئے ان کا کسی مخصوص نظریاتی گروہ ،ابتدائی رسومات اور اختیارات کے واضح تسلسل میں شامل ہو نا ضروری تھا ۔
آجکل یہ مواد مینی فیسٹوز ،میمو ز ویڈیوز اور آ ڈیوز کی شکل میں آن لائین موجود ہے ۔جو ہر کوئی شئیر کر سکتا ہے ۔اس وقت ہر کوئی ہر دم پھیلتی ریبٹ ہول سیریز ( ایسی چیز جو کسی کو بھی دریاۓ حیرت یا مصیبت کی غیر حقیقی دنیا میں پہنچا دیتی ہے ) سے چند کلکس کی دوری پر ہے جو غلط اطلاعات اور نفرت کو پوری دنیا میں متعارف کرا دیتا ہے ۔
انسداد دہشت گردی کے طریقے جنکا مقصد ان خطروں سے نمٹنا ہے جو سرحدوں سے آتے ہیں ،وہ ان خطرات سے مؤثر مقابلہ نہیں کر پارہے جو ملک کے اندر مرکزی دھارے سے آ رہے ہیں ۔اب تشدد کو ،کم منظم اور آن لائین بنیاد پرستی سے جڑے ہونے کی وجہ سے ان طریقوں سے جن کا انحصار مربوط منصوبوں اور رسمی درجہ بندی پر ہے روکنا مشکل تر ہو رہا ہے ۔
اس لئے کہ اب انتہا پسند خیالات کسی تنہا بھیڑیے تک محدود نہیں ۔ریاست ہاۓمتحدہ کو چھوٹے موٹے گروہوں کو روکنے کی بجاۓاس زرخیز زمین کو کم کرنے پر توجہ دینی ہو گی جہاں جمہوریت مخالف اور متشدد انتہاپسندی پروان چڑھتی ہے ۔اس کے لئے انہیں صحت عامہ کے تحفظ والی حکمت عملی اپنانی ہو گی ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ فیڈرل سٹیٹ اور لوکل گورنمنٹ دونوں سرمایہ کاری کریں ۔اس کے لئے ڈیجیٹل میڈیا ، خواندگی پروگرام اور شہریوں کی تعلیم پر توجہ دیں تا کہ جمہوری اقدار اور اصول مضبوط ہوں ۔اس کی راہنمائی امریکی لیڈر کریں ۔مثلا” غلط اطلاعات، منفی پروپیگنڈہ ،آن لائین جوڑ توڑ ،اور سازشی کہانیوں کو رد کریں ۔یہ کوئی آسان کام نہیں ہے ۔اور اس زہنیت کو راتوں رات تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔صرف سب کی شمولیت اور انصاف پر مبنی جمہوریتیں ہی انتہا پسند سوچ کو جڑ پکڑنے اور پھیلنے سے روکتی ہیں ۔
کوئی بھی نہیں چاہتا کہ حکومتیں لوگوں کے عقیدوں کی چوکیداری کریں ۔انہیں زبردستی بدلیں ۔لیکن ریاست ہاۓ متحدہ روایتی طریقوں سے انسداد دہشت گردی میں ناکام ہو چکی ہے ۔غلط اطلاعات کے بغیر روک ٹوک پھیلاؤ ،سازشی ںظریات ، نسلی اور مزہبی اقلیتوں کے خلاف پروپیگنڈا اور مخالفین کے ساتھ غیر انسانی روے ہی تشدد کے اہم پیش رو ہیں ۔
اگر پالیسی سازوں نے انہیں مد نظر رکھا ہوتا تو چھ جنوری کو ایسا نہ ہوتا ۔جنہوں نے کیپیٹل پر حملہ کیا ان کی اکثریت عالمی غلط اطلاعات سے گمراہ ہوئی تھی ۔جنہوں نے انہیں یقین دلایا کہ وہ جمہوریت کو بچانے والے ہیرو ہیں ۔ ان میں سے کچھ نے بعد میں تاسف کا اظہار بھی کیا ۔اپنے عمل پر شرمندہ بھی ہوۓکہ انہیں دھوکے سے استعمال کیا گیا ۔ چوری شدہ انتخاب کے بارے میں ایک وکیل مسمی ڈومینک پیزولو جو “ پراؤڈ بوائز “ کا ممبر تھا نے وضاحت کی ،” وہ اب محسوس کرتا ہے کہ اسے غلط عقیدوں سے الو بنایا گیا ۔
انتہا پسندی کو روکنے کا کام سیکیورٹی اور انٹیلیجنس ماہرین سے صحت عامہ کے تحفظ والی حکمت عمل کو منتقل کرنا پڑے گا ۔وائر ٹیپس اور مخبروں سے ہٹا کر سماجی کارکنوں ،سکول کونسلرز ،اساتذہ ،ذہنی صحت کے ماہرین اور مزہبی لیڈران کو سونپنا پڑے گا ،تا کہ سماجی حمایت اور جمہوری لچکدار روے پر توجہ دی جاۓ۔
اس دنیا میں جب امریکہ یہ حکمت عملی آپنآۓگا تو مسٹر پیزولو کی زندگی بہت مختلف نظر آۓگی ۔کیوں کہ پہلی بات تو یہ کہ اسے سکول میں سکھایا گیا ہو گایا سکول کے کھیلوں کے کلب کے پروگراموں کے زریعے یا مذہبی برادریوں نے غلط اطلاعات کی شناخت سکھائی ہو گی . چوری شدہ انتخاب کا دعوی کرنے والوں کا اثر کم قبول کرے گا ۔اس کے رشتہ داروں کو اسی طرح جس طرح کسی خودکشی کی سوچ رکھنے یا نشہ کرنے والوں کی طرح معلوم ہوگا کہ مدد کہاں سے لینی ہے ۔ٹول فری ہیلپ لائین ہو سکتی ہے یا پھر” الکوحلکس انونیمس(Alcoholic anonymous “ ) کے اجتماعات کی طرح کے اجتماعات ہو سکتے ہیں جو بنیاد پرستی کو روکنے کے لئے مشاورت اور مداخلت سے مدد فراہم کرتے ہیں ۔
اس دنیا میں بہترین تو یہی لگتا ہے کہ مسٹر پیزولا اور اس جیسے ہزاروں کیپیٹل میں آۓہی نہ ہوتے ۔لیکن کوئی بھی حکمت عملی انفرادی طور پر بنیاد پرستی کا مکمل خاتمہ نہیں کر سکتی اس لئے ایک جامع حکمت عملی مرکزی دھارے کی انتہا پسندی کے خلاف مؤثر دفاع ہو سکتی ہے ۔
یہ ماڈل بلکل جنگ عظیم دوئم کے بعد جرمنی کی اپنائی گئی حکمت عملی ، جسے دفاعی جمہوریت کا نا دیا گیا تھا جیسا ہو گا ۔ جس کی بنیاد اس خیال پر تھی کہ انتہا پسندی کے اندرونی خطرات کم کرنے کے لئے معاشرے کے مرکزی دھارے کو ان کے خلاف مضبوط کیا جاۓ۔سال 2020 میں گلوبل اور اندرونی انتہا پسندی کے خطرات کے دوران انٹیلیجنس اور سیکیورٹی سروسز میں انتہائی دائیں بازو کی دراندوزی کے سکینڈل منظرعام پر آنے کے بعد جرمنی نے انتہا پسندی سے نمٹنے کے لئے ایک اہم اعلان کیا کہ اسے محض سیکیورٹی کے لئے ہی خطرہ نہ سمجھا جاۓبلکہ اسے سماجی مسلے کے طور پر سمجھتے ہو ۓاس کا حل تلاش کیا جاۓاور اس کے لئےایک بلین یورو سے زیادہ رقم مختص کر دی ۔
امریکہ نے اس محاز ہر کچھ حوصلہ افزا اقدامات کئے ہیں لیکن مزید کی ضرورت ہے ۔داخلی سلامتی کے ادارے ان پروگراموں کے لئے جن کا مقصد بنیاد پرستی کو تشدد کی راہ پر جانے سے روکنا ہے کے لئے اپنا بجٹ دو گنا کر دیا ہے ۔دفاعی محکمہ نے ہر ایک کو انتہا پسندی کے خطرے کے خلاف تربیت دینے کے لئے ایک وسیع “Stand-down “ ( تیار رہو) کا انعقاد کیا ۔اور جون میں بائیڈن انتظامیہ نے پہلی قومی حکمت عملی ،داخلی دہشت گردی سے لڑنے کے لئے جاری کی ۔یہ تسلیم کر لینا کہ صحت عامہ کے تحفظ کے انداز پر ،گن کنٹرول اور نسل پرستی کے خاتمے کے لئے جدوجہد اس حکمت عملی کا حصہ ہوں گے ۔اس سلسلے میں یہ بہت بڑی چھلانگ ہے ۔
ہمیں ہمیشہ عوام کے خلاف انتہا پسندوں کے منصوبوں اور تشدد کی ممکنہ استعداد کو کم کرنے کے لئے حکمت عملی کی ضرورت رہے گی ۔لیکن اس تشدد کو روکنے کے لئے روایتی طریقے ان مقابلوں کے لئے جن کا آج امریکہ سامنا کر رہا ہے عارضی اور سطحی حل ہیں ۔
دو دھائی قبل 9/11 کمیشن کی رپورٹ لکھنے والوں نے امریکیوں کو بتایا تھا انسداد دہشت گردی کی ناکامی کہ اہم وجہ “ سوچ “ کی ناکامی تھی ۔ہم اس وقت بھی اسی وجہ سے ناکام ہو رہے ہیں ۔ایسا نہیں ہے کہ پر تشدد انتہا پسندی کو روکنے کے لئے ہم میں عزم کی یا زرائع کی کمی ہے بلکہ اس کی بجاۓہماری ناکامی یہ تصور نہ کر سکنے میں ہے کہ یہ تشدد جو کناروں ( سرحدوں) سے مرکزی دھارے میں آ گیا ہے اسے روکنے کی کوشش کیسے نظر آنی چاہیے ۔
Original Title: America’s Most Urgent Threat Now Comes From Within
تعارف مصنفہ :
سنتھیا ملر ادریس (Cynthia Miller-Idriss) امریکی یونیورسٹی میں پروفیسر ہے ۔جہاں وہ پولرائزیشن ( تقطیب) اور انتہا پسندی ہر تحقیق کی رہنمائی کر رہی ہے ۔وہ ایک کتاب “Hate in homeland:The new global far right “ / اپنے ملک میں نفرت : نئی گلوبل رجعت پسندی “ کی مصنفہ ہے ۔
For Original Text:
Link:
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...