جب اسے بنایا گیا، امریکا کا مجسمہ آزادی دنیا کا سب سے بڑا مجسمہ تھا۔ امریکا نے فرانسیسیوں کی مدد سے برطانیہ کے چنگل سے چار جولائی 1776ء کو آزادی حاصل کی تھی۔ فرانس نے نہ صرف امریکن کالونیوں کو جنگ آزادی کے لیے اسلحہ، جہاز اور رقم فراہم کی بلکہ خود فرانسیسی باشندوں اور فوجیوں نے اس جنگ میں عملاً حصہ لیا۔ کچھ فرانسیسی جن میں سب سے قابل ذکر جارج واشنگٹن کے قریبی دوست مارکوس ڈی لافیٹی شامل ہیں، امریکی فوج میں اعلیٰ عہدے پر پہنچے۔ ایسی ہی دوستی کے پیش نظر فرانسیسیوں نے امریکیوں کو مجسمہ آزادی تحفے کے طور پر پیش کیا۔ 1776ء میں امریکا کی آزادی کے بہت عرصے بعد ایک فرانسیسی دانشور، سکالر اور ماہر قانون ایڈورڈ ڈی لیبولائی نے امریکا اور فرانس کی دوستی کے لیے فرانس کی طرف سے امریکا کو ایک ایسا یادگار تحفہ دینے کا خیال پیش کیا جو دونوں ملکوں کی دوستی اور آزادی کی علامت کے طور پر ہمیشہ قائم رہے۔ یہی مجسمہ آزادی اس دانشور کے خواب کی عملی تعبیر ہے۔ مجسمہ آزادی کی تعمیر اور تخلیق کے لیے فرانسیسی عوام نے چندہ جمع کیا۔ اسے فرانس کے مشہور مجسمہ ساز اور ایفل ٹاور کے خالق گستاف ایفل نے بنایا۔ فرانسیسی عوام نے امریکی عوام کو آرٹ اور فن تعمیر کا یہ نادر نمونہ اپنے دوستی کی یاد اور ان کی آزادی کے احترام میں پیش کیا۔ مجسمہ آزادی ایک دیوہیکل مجسمہ ہے۔ کانسی کی پلیٹوں سے بنا ہوا یہ مجسمہ 151 فٹ ایک انچ بلند ہے، جو نیویارک میں لبرٹی آئی لینڈ پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اسے نئی دنیا یعنی امریکا میں داخلے کے لیے گیٹ وے کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہ مجسمہ چار جولائی 1884ء کو امریکی یوم آزادی کے موقع پر فرانسیسی عوام کی طرف سے امریکی عوام کو تحفے کے طور پر دیا گیا تھا۔ شہر کی بندرگاہ کے رخ پر ایستادہ لکڑی کے ڈھانچے کے اوپر تانبے سے بنا یہ مجسمہ ایک ایسی عورت کی شکل ہے جس نے روایتی لباس زیب تن کر رکھا ہے، جس کے سر پر سات پروں والا ایک تاج ہے۔ غلامی کی ٹوٹی زنجیریں اس کے قدموں میں پڑی ہیں۔ اس کے داہنے ہاتھ میں ایک شمع ہے جسے اس نے بلند کر رکھا ہے۔ اس کے بائیں ہاتھ میں ایک کتاب ہے جس پر اعلان آزادی کی تاریخ چار جولائی 1776ء درج ہے۔ اس کی بنیاد یا پلیٹ فارم کو شامل کر لیں تو اس کی اونچائی 305 فٹ ایک انچ بنتی ہے۔ یہ مجسمہ جسے دنیا کو روشن کرنے والی آزادی قرار دیا جاتا ہے، فرانسیسی مجسمہ ساز فریڈرک آگسٹ برتھولڈی کے فن کا نمونہ ہے۔ اس نے 1875ء میں اپنے سٹوڈیو میں اس پر کام کا آغاز کیا۔ پہلے اس نے مٹی سے ایک چھوٹے سائز کا ماڈل بنایا اور پھر نہایت باریک بینی سے پیمائش کرتے ہوئے اس کے تین بڑے نمونے کامیابی سے بنائے۔ آخرکار اس نے اسے مختلف حصوں میں تقسیم کر کے ہر حصہ کے ماڈل پورے اور بڑے سائز میں لکڑی سے تیار کیے اور ان پر پلاسٹر چڑھایا۔ پھر کار پینٹروں نے پلاسٹر سے بنی شکل کے مطابق لکڑی کی شکلیں بنائی۔ تانبے کی چادروں کو ان لکڑی کی شکلوں پر ہتھوڑے کے ذریعے مطلوبہ شکل و صورت میں لایا گیا۔ پھر اسے سٹوڈیو کے نزدیک ایک بڑے صحن میں جوڑا گیا۔ جب دارالحکومت پیرس میں اس مجسمے کو مکمل طور پر جوڑ لیا گیا تو پھر ا سکے تمام حصوں کو دوبارہ علیحدہ کر کے 214 لکڑی کے بڑے بڑے بکسوں میں پیک کیا گیا اور بحری جہاز کے ذریعے امریکا روانہ کر دیا گیا۔ مختلف حصوں میں بٹا یہ مجسمہ 17 جون 1885ء کو نیویارک پہنچا۔ اس دیوہیکل مجسمہ کی تعمیر کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے برتھولڈی نے ایفل ٹاور کے معمار انجینئر گستاف ایفل کی خدمات حاصل کیں تاکہ وہ اس کا اندرونی سپورٹنگ سسٹم ڈیزائن کرے۔ ایفل نے مجسمہ کے داخلی فریم میں چار افقی کالموں پر مشتمل ایک مرکزی ٹاور تیار کیا جسے عمودی بیم کے ذریعے آپس میں جوڑا گیا تھا۔ اسے زمین پر کنکریٹ اور گرینائٹ کے پیڈسٹل پر کھڑا کیا گیا۔ پیڈسٹل کی یہ فاؤنڈیشن اس وقت دنیا میں سب سے بڑی اور واحد کنکریٹ سٹرکچر تصور کی جاتی تھی جسے امریکی ماہر تعمیرات رچرڈ مورس ہنٹ نے تقریباً 80 سال پہلے نیویارک شہر کو بحری حملوں سے بچانے کے لیے ایک ستارہ کی شکل کے قلعے کی دیواروں کے درمیان تعمیر کیا تھا۔ وسائل کی فراہمی میں تاخیر کے سبب بالآخر 1886ء میں آٹھ لاکھ ڈالر کی لاگت سے اپنی بنیاد اور پلیٹ فارم سمیت مجسمہ آزادی مکمل ہو گیا۔ اس پر خرچ ہونے والی رقم میں سے آدھی فرانسیسیوں نے اور آدھی امریکیوں نے جمع کی تھی۔ اسے امریکی حکومت نے 112 ایکٹر رقبے پر پھیلے ہوئے جزیرہ بڈلوئی میں نصب کیا، جسے اب جزیرہ لبرٹی کہتے ہیں۔
اک ستارہ تھا میں
ایک تو سفر کی تھکاوٹ، پھر تقریب میں شرکت کا طویل وقت، اور پھر تقریب سے رہائش گاہ تک کا...