ڈاکٹر فاطمہ حسین دلی یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ ان کا تعلق بھارت ہی سے ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ان کی نئی تصنیف کی تقریب رونمائی حکومت پاکستان (وزارت تعلیم) کے ماتحت ادارے پاکستان اکادمی ادبیات نے منعقد کی ہے۔ پاکستان اکادمی ادبیات جب جولائی 1976ء میں قائم ہوئی تو حکومت پاکستان نے اسکے قیام کا مقصد پاکستانی ادب کی ترویج اور پاکستانی ادیبوں کی بہبود بیان کیا تھا۔ اکادمی کی سرکاری ویب سائٹ پر کم از کم یہی لکھا ہوا ہے۔ اگر آپ انٹرنیٹ پر (pal.gov.pk) ٹائپ کریں تو اکادمی ادبیات کے بیس اغراض و مقاصد پر نظر پڑیگی۔ اس میں کہیں بھی نہیں لکھا ہوا کہ بھارتی ادیبوں کی فلاح و بہبود بھی حکومت پاکستان کے اس ادارے کے فرائض میں شامل ہوگی جو پاکستانیوں کے ادا کردہ ٹیکسوں سے پرورش پا رہا ہے۔ ہمیں قطعاً یہ اعتراض نہیں کہ بھارتی ادیبوں کی پذیرائی حکومت پاکستان کیوں کر رہی ہے۔ ہم تو صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ حکومت پاکستان، وزارت تعلیم کے اس نیم خود مختار ادارے کے اغراض و مقاصد میں ترمیم کرکے اس میں ’’پاکستانی ادیبوں‘‘ کے ساتھ ’’بھارتی ادیبوں‘‘ کے الفاظ بھی شامل کردے تاکہ قانونی سقم دور ہو جائے۔ بھارت کا حجم اور آبادی دونوں پاکستان سے زیادہ ہیں اس لئے انصاف کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اگر اکادمی ادبیات پاکستان چار پاکستانی ادیبوں کی تصانیف کی تقاریب رونمائی برپا کرتی ہے تو بھارت کے آٹھ بلکہ دس بارہ ادیبوں کی کتابوں کی پذیرائی کی جائے۔ ہم تو یہاں تک تجویز کرینگے کہ ہماری وزارت خزانہ بھارت کی فلاح وبہبود کیلئے باقاعدہ بجٹ بنائے اور یہ رقم بھارت کو پیش کردی جائے تاکہ مستقبل میں ڈاکٹر فاطمہ حسین صاحبہ اور دیگر بھارتی ادیبوں کو یہاں تشریف لانے کی زحمت نہ فرمانا پڑے اور انکی تصانیف دل پذیر کی رونمائی کی تقاریب دہلی ہی میں منعقد ہو جائیں اور اخراجات حکومت پاکستان برداشت کرے۔ شنید ہے کہ محترمہ ڈاکٹر صاحبہ کا ازدواجی رشتہ ایک پاکستانی ادیب سے ہے۔ اگر وہ نجی طور پر پاکستان آتی ہیں تو سو بار نہیں ہزار بارتشریف لائیں ہم تو یہ بھی نہیں کہتے کہ اکادمی ادبیات اقربا پروری کا ارتکاب کر رہی ہے!!
اکادمی ادبیات پاکستان کی ’’پاکستانیت‘‘ کا تذکرہ تو یوں ہی درمیان میں آگیا، ہم تو قارئین کو ایک اور روح فرسا خبردینا چاہتے ہیں۔ ہمارے پڑھنے والوں کو اس حقیقت کا بخوبی علم ہے کہ ہم آج تک کسی امتحان میں فیل نہیں ہوئے۔ بلکہ اکثر امتحانات میں پوزیشن لیتے رہے ہیں۔ ہم جب پانچویں جماعت کے طالب علم تھے اور گورنمنٹ ہائی سکول پنڈی گھیپ میں پڑھتے تھے تو وظیفے کا امتحان دینے دو میل (بسال) کے قصبے میں گئے تھے اور کامیاب ہوئے تھے جسکے نتیجے میں چھٹی ساتویں اور آٹھویں جماعت میں چار روپے ماہانہ وظیفہ حاصل کرتے رہے۔ اول آنے اور وظیفہ حاصل کرنے کی یہ صورت حال ایم اے تک برقرار رہی۔ مرکزی حکومت کی اعلیٰ ملازمتوں کے مقابلے کے امتحان میں بھی ہم کامیاب ہوئے‘ مگر افسوس! صد افسوس! ہیہات! ہیہات! ان ساری کامیابیوں اور کامرانیوں پر پانی پھر گیا۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ جنرل نالج کے ایک مقابلے میں ہم فیل ہوگئے ہیں۔ یہ ناکامی، یہ رسوائی ہمیں اس بڑھاپے میں دیکھنا پڑی ہے۔ ہمارے صاحبزادے اور بہو جو ملک سے باہر ہیں، ہماری ناکامی کا سن کر دیار غیر میں اپنے سفید فام پڑوسیوں اور دوستوں سے منہ چھپاتے پھرر ہے ہیں۔ ہماری بیٹی یہ خبر اپنے شوہر سے چھپانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ بیچاری کی ’’پوزیشن‘‘ خراب نہ ہو۔ ہماری چار سالہ نواسی ہم سے پوچھتی ہے ’’نانا ابو! آپ اتنے نالائق کیوں نکلے؟‘‘
تفصیل اس دردناک اجمال کی یہ ہے کہ واشنگٹن میں چند دن پہلے جنرل نالج کا ایک مقابلہ منعقد ہوا۔ مواصلاتی ترقی کے اس زمانے میں ہم بھی یہاں بیٹھے بیٹھے سات سمندر پار ہونیوالے اس مقابلے میں شریک ہوئے۔ ہم نے تقریباً سارے سوالوں کے جوابات صحیح دیئے لیکن مقطع میں سخن گسترانہ بات آپڑی۔ آخری سوال لازمی تھا اور اسی میں ہمیں واشنگٹن نے ناکام قرار دیا۔ سوال یہ تھا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی (عرفِ عام میں امریکہ اسے ہی کہتے ہیں) کل کتنی ریاستیں ہیں؟ ہم نے اپنی دانست میں درست جواب دیا کہ پچاس (نصف جن کی پچیس ہوتی ہیں) ہم نے اس ضمن میں تفصیل بھی بیان کی کہ جب امریکہ نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی تو اس وقت تیرہ ریاستیں تھیں جو دراصل تیرہ نو آبادیاں تھیں۔جب غلامی کے مسئلے پر خانہ جنگی ہوئی(1861-1865ئ) تو مغربی ورجینیا، ورجینیا سے الگ ہوگیا۔ دارالحکومت کا علاقہ واشنگٹن ڈی۔سی (ڈسٹرکٹ آف کولمبیا) ان ریاستوں میں شامل نہیں۔ سب سے کم عمر ریاست ہوائی ہے جو دراصل بحرالکاہل میں ایک سے زیادہ جزیروں پر مشتمل ہے اور 1959ء میں امریکہ کا حصہ بنی۔ الاسکا کی ریاست بھی جغرافیائی لحاظ سے امریکہ سے کٹی ہوئی ہے اور درمیان میں کینیڈا پڑتا ہے۔ الاسکا کا علاقہ امریکہ نے 1867ء میں روس سے ستر لاکھ ڈالر میں خریدا تھا۔ یعنی دو سینٹ فی ایکڑ، سائز کے لحاظ سے الاسکا امریکہ کی سب سے بڑی ریاست ہے۔
قصہ مختصر ہم نے تفصیل سے جواب دیا۔ ایک ایک ریاست کے بارے میں بتایا اور کل تعداد تو جغرافیے اور تاریخ کی ساری کتابوں میں پچاس دی ہوئی ہے۔ امریکی انتخابات بھی انہی پچاس ریاستوں میں ہوتے ہیں۔ ہر پڑھا لکھا بلکہ نیم خواندہ شخص بھی بتا سکتا ہے کہ امریکہ کی ریاستوں کی تعداد پچاس ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں فیل کردیا گیا۔ ہم نے احتجاج کیا تو ہمیں عجیب و غریب منطق سے پالا پڑا۔ فیل کرنے والوں کی دلیل یہ تھی کہ یہ پچاس ریاستیں اسی لئے امریکہ کا حصہ سمجھی جاتی ہیں کہ ان میں امریکی بغیر کسی روک ٹوک کے جاسکتے ہیں۔ ان ریاستوں کے درمیان نقل و حرکت اور آمد و رفت کیلئے امریکیوں کو پاسپورٹ کی ضرورت ہے نہ ویزہ کی۔ ان ریاستوں میں امریکی سامان سے بھرے ہوئے بڑے بڑے کنٹینر لاسکتے ہیں۔ ان ریاستوں کے ہوائی اڈے امریکی جہازوں کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ امریکہ کی خفیہ ایجنسیاں جب چاہیں ان امریکی ریاستوں میں کسی کو بھی پکڑ سکتی ہیں۔ اب اگر یہ ساری شرطیں ایک اور ملک بھی پوری کرتا ہے اس ملک میں بھی امریکی جب چاہیں جاسکتے ہیں، انہیں پاسپورٹ کی ضرورت ہے نہ ویزے کی۔ وہ سامان سے بھرے ہوئے بڑے بڑے کنٹینر لاسکتے ہیں۔ اس ملک کے ہوائی اڈے امریکی جہازوں کیلئے اپنی آغوش میں لے رکھے ہیں۔ امریکی بلیک واٹر ہوں یا وائٹ واٹر، آزادی سے اس پورے ملک میں دندنا رہے ہیں، جس کو چاہیں پکڑ لیں، جس کو چاہیں، سرعام پیٹنا شروع کردیں۔ پولیس انہیں روک بھی لے تو صرف ایک ٹیلی فون کی مار ہے۔ فوراً چھوڑنا پڑتا ہے تو پھر امریکی ریاستوں اور اس ملک میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟
ہم تو جنرل نالج کے مقابلے میں ناکام ہوگئے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا (میرے منہ میں خاک) امریکی ایک آزاد ملک کو اپنی ریاست سمجھ رہے ہیں؟ اور ذرا ادھر دیکھئے۔ جنرل پرویز مشرف کیوں مسکرا رہا ہے؟ تو کیا وہ امریکیوں کا محسن ہے؟