امریکہ کو جنگیں لڑنے کےلیےاپنے مُلک سے نکلے ہوئے (دوسال کم) ایک صدی ہوگئی ہے۔ آج سے سوسال پہلے امریکی افواج پہلی جنگِ عظیم میں شرکت کے لیے اپنے گھر سے نکلی تھیں۔ اعدادوشمار کے مطابق پہلی جنگ ِ عظیم کے دوران امریکہ نے چالیس لاکھ سپاہی روانہ کیے۔ ایک لاکھ دس ہزار مارے گئے جن میں سے 43,000 صرف انفلوئنزا سے ہلاک ہوئے۔ اس جنگ کے نتیجہ میں خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ عمل میں آیا اور یورپ میں نئے ملک بسائے گئے۔
ایک صدی سے امریکی فوجی گھر واپس نہیں گئے۔ کشورکشائی کی ہوس نے اِس نئے اور تروتازہ براعظم کو گزشتہ ایک سو سال سے دوسروں کی زمینیں چھیننے کے لیے دیوانہ بنا رکھا ہے۔ اس دوران دوسری جنگِ عظیم میں امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر آن ِ واحد میں لاکھوں بے گناہ شہریوں کے قتل کا سہرا بھی اپنے سر باندھا۔ پہلی جنگِ عظیم میں کُل ڈیڑھ کروڑ اور دوسری جنگِ عظیم صرف کُل چھ کروڑ انسانوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔
ویتنام سے لے کر عراق تک اور تاحال۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امریکی فوج اپنے وطن سے دور دوسروں کی سرزمینوں پر کھارہی ہے، پی رہی ہے، وہاں کے لوگوں کو قتل کررہی ہے، وہاں کی زمینوں سے معدنیات نکال رہی ہے اوروہاں کے لوگوں کی عزتِ نفس، اقدار، ثقافتوں اور فنون کے سرمایہ جات کو پامال کررہی ہے۔
امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے جو اتنے طویل عرصہ سے دوسروں کی سرزمینوں پر صرف قابض ہی نہیں مسلسل جنگ کررہا ہے۔ اس ایک صدی کی ماراماری نے دنیا بھر کے بیشتر ملکوں کو امریکی کالونیوں میں بدل دیا ہے۔ ان کالونیوں میں زیادہ تر مسلم ممالک شامل ہیں۔ گزشتہ صدی کے اول نصف بلکہ اول ثلث تک امریکی عوام کو یہ بتایا گیا کہ چونکہ اُنہیں دہریوں (کمیونسٹوں) سے خطرہ لاحق ہے اِس لیے یہ جنگیں جائز قرار دی جائیں اور گزشتہ صدی کے آخری ربع سے لے کر اب تک امریکی شہریوں کو یہ یقین دلایا گیا ہے کہ چونکہ مسلمانوں کی وجہ سے ان کی زندگیاں خطرے میں ہیں اِس لیے امریکی جنگوں کو جائز قرار دیا جائے۔
انسانی تاریخ میں کوئی ملک اتنی طویل مدت کے لیے دوسرے ممالک پر حملہ آور نہیں رہا۔ ماضی میں جن طاقتوں نے دنیا کو روندنے کی کوشش کی ہے اُن میں سائرس اور سکندر سے لے کر مسلمان سلطانوں اور پھر برطانیہ تک ۔۔۔۔۔۔۔ کسی بھی قوم کی فوج اتنا طویل عرصہ وطن بدر نہیں رہی۔ دور حاضر میں روس افغانستان میں گھُس آیا تھا لیکن جلد واپس چلا گیا۔ عراق نے کویت پر قبضہ کرلیا تھا لیکن فوراً واپس چلا گیا۔ پاکستان کبھی کسی ملک پر قابض نہیں ہوا۔
ہمیں کسی کی زمیں چھیننے کا شوق نہیں
ہمیں تو اپنی زمیں پر ہلوں کی حاجت ہے
ساحر لدھیانوی
لیکن پاکستان کو اپنے ہی ملک میں کئی بیرونی جنگیں لڑنا پڑیں جن میں سب سے بڑی امریکی جنگ ہے جسے چارلی ولسن وار بھی کہتے ہیں جو پاکستان نے روس کے خلاف لڑی۔ انڈیا کے ساتھ پاکستانی جنگیں زیادہ تر ’’ڈرامہ وارز‘‘ تھیں۔ دونوں ممالک کی فوجوں کو زندہ و پائندہ رکھنے کے لیے وقفے وقفے سے چند جنگیں ہوئی جن میں زیادہ ترجنگوں میں امریکی مفادات یعنی اسلحہ کی فروخت ہی ان جنگوں کے بنیادی اسباب تھے۔ اکہتر میں بنگال کی علحیدگی ایک بڑی ڈرامہ جنگ تھی جو کسی بڑے ہدایت کار نے کئی سال پہلے لکھی اور بہت محنت سے فلمائی گئی تھی۔ اس موضوع پر مزید معلومات کےلیے ارشاداحمد حقانی مرحوم کے بعض کالم بہت کارآمد ہے۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ جب اسلام آیا تو یہود نے اسے ناپسند کیا۔ پھر جب مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو یہود نے مسلمانوں کے لیے اپنے دل میں بڑی شدید دشمنی اور ضِد پال لی۔ لیکن یہ بھی تاریخ سے ثابت ہے کہ یہودیوں کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات، فلسطین میں ان کی دوبارہ آباد کاری سے پہلے کبھی خراب نہیں رہے۔ بوعلی سینا جیسے لبرل فلسفی کے مدرسہ میں یہودی طالب علم تو پڑھ سکتے تھے لیکن عیسائیوں کے لیے داخلہ ممنوع تھا۔ پاکستان بننے سے پہلے ’’مسلمان یہود دشمنی‘‘ کے عنصر سے امت ِ مسلمہ واقف نہیں تھی۔ روسی آزاد ریاستوں میں اب بھی مسلمان یہودی بھائی بھائی بن کر رہتے ہیں۔ اور ہمیشہ سے عیسائیوں کو مشرک لیکن یہود کو مسلمانوں کی طرح توحید پرست سمجھا جاتارہاہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں بھی عیسائیوں کے ساتھ جنگوں کا طویل سلسلہ ہے لیکن یہود کے ساتھ دشمنی کی بجائے اچھے تعلقات کی بے شمار داستانیں موجود ہیں۔ ’’یہود سازشی ہیں‘‘۔۔۔ یہ الزام مسلمانوں کا نہیں بلکہ عیسائیوں کا لگایا ہوا ہے اور فی زمانہ بھی پوری عیسائی دنیا بلکہ امریکہ تک میں، یہودیوں کو پسند نہیں کیا جاتا۔
عام شواہد سے ثابت کیا جاتا ہے کہ ’’فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے‘‘ اور ایسا کہتے وقت ، امریکہ کو بھی فرنگ سمجھ لیا جاتاہے۔ میری دانست میں ایسا سمجھنا کچھ زیادہ غلط بھی نہیں کیونکہ بقول مارکس انسان کا بنیادی مسئلہ معیشت ہے اور یہود نے بقول اقبال ’’ہمیشہ اپنی معاشی حالت کو دِگرگوں ہونے سے بچائے رکھا اور دنیا کی بڑی طاقتوں کو اپنا مقروض بنا کر سرمائے پر ہمیشہ قابض رہے۔ اِس لیے صدیوں تک بے گھر رہنے کے باوجود بھی بچ گئے جبکہ کسی قوم کا بے گھری کی حالت میں باقی رہ جانا ناممکنات میں سے ہے‘‘۔
گزشتہ دنوں ’’پٹروڈالر‘‘ کے عنوان سے ایک ویڈیو بہت مشہور ہوئی جس میں یہ بتایا گیا کہ قذافی اور صدام کو مروانے کا اصل مقصد ہی یہی تھا کہ انہوں نے اَب آکر تیل کے پیسے ڈالر میں لینے کی بجائے ’’یورو‘‘ یا سونے کی صورت میں وصول کرنے کی تحریک چلا رکھی تھی۔ سعودیہ کو تو ڈالرز سے کوئی انکار نہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ محض کاغذ کے ٹکڑے ہیں اور ڈالر واحد ایسی کرنسی ہے جس کا کوئی زر مبادلہ نہیں۔ اسی ویڈیو میں بتایا گیا کہ ڈالر امریکی حکومت نہیں چھاپتی بلکہ کوئی پرائیویٹ کمپنی چھاپتی ہے اور خود امریکی حکومت بھی اس کمپنی کی محتاج رہتی ہے۔
اگر وہ پرائیویٹ کمپنی جو ڈالر چھاپتی ہے یہودی ہے اور یہ ساری بات سچ ہے تو پھر اس تمام تر گفتگو سے یہ ثابت ہوتاہے کہ امریکہ جو ایک سو سال سے جنگ پر نکلا ہوا ہے یہود کی جنگ لڑ رہا ہے اور ہر اس قوم کے خلاف لڑ رہا ہے جس نے یہود کو ماضی میں نقصان پہنچایا یا اُن کے لیے مستقبل میں خطرہ ہوسکتی ہے۔ یوں گویا یہ ایک انتقامی جنگ ہے جو صدیوں کے دُکھوں کا بدلہ لینے کے لیے لڑی جارہی ہے اِس لیے اتنی طویل ہوگئی۔
جن لوگوں نے ہالی ووڈ کی مشہور فلم میٹرکس دیکھ رکھی ہے وہ جانتے ہیں کہ میٹرکس ایک ایسا قید خانہ ہے جہاں سب لوگ سوئے ہوئے ہیں اور خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس خواب میں وہ دیکھ رہے ہیں کہ وہ سب اپنی اپنی جگہ خوب دنیاداری کی زندگی جی رہے ہیں۔ میٹرکس سے آزاد ہوجانے والے انسانوں کو جس شہر میں جمع کیا جارہا ہے اس کا نام زایان ہے۔ زایان وہی نام ہے جو یہود اپنے اُس شہر کے لیے استعمال کرتے ہیں جہاں مسیحا نمودار ہوگا جس کا انتظار مذہبی یہودیوں کو اُس سے کہیں زیادہ ہے جتنا ہمیں مہدی کا ہے۔ میٹرکس میں دیگر اصطلاحات بھی تمام کی تمام عہدنامہ قدیم سے لی گئی ہیں اور عبرانی خیالات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ اس فلم میں پوری دنیا کے انسانوں کو سوئے ہوئے اور بے خبر لوگوں کے طور پر دکھایا گیا ہے اور زایان کے شہریوں کو جاگے ہوئے اوربیدار لوگوں کے طور پر۔ ان جاگے ہوئے اور بیدار لوگوں نے ہی فیصلہ کرنا ہوتاہے کہ سوئے ہوئے اور اور بے خبر لوگوں میں سے کون کون اس قابل ہے کہ اُسے جگا دیا جائے اور اپنے ساتھ ملا لیا جائے۔ زایان کی انتظامیہ وقت کے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں کو میٹرکس سے نکالتی رہتی ہے جو صلاحیتوں اور ذہانتوں میں بے مثال ہوں۔ فلم کا ہیرو ’’نی او‘‘ بھی انہی سوئے ہوئے اور بے خبر لوگوں میں سے ایک ہے جسے زایان کا ایک فوجی جرنیل مارفیَس جگا دیتاہے اور میٹرکس سے باہر نکال لاتاہے۔ وہی بالآخر مسیحا ثابت ہوتاہے۔
عظیم تراسرائیل کا ایک منصوبہ ہم بھی بچپن سے سنتے آرہے ہیں۔ تاریخ میں بھی اِس تصور کے واضح ثبوت اور شواہد موجود ہیں کہ یہود نے پوری دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھا۔ قران نے بھی ہمیں کئی بار بتایا کہ یہود کبھی تمام جہانوں پر افضل و برتر رہے ہیں۔ کسی آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ برتری اب اُن سے چھین لی گئی ہے اور انہیں ماضی میں تباہ ہوجانے والی قوموں کی طرح تباہ و برباد اور رسوا کردیا گیا ہے۔ ہر آیت فقط اس طرح کہ ہے کہ ’’یاد کرو اے بنی اسرائیل! ہم نے تمہیں عالمین(تمام دنیاؤں) پر فضیلت دی‘‘۔ چونکہ یہوود ایک قبیلہ اور ایک خاندان ہیں اس لیے یہ فضیلت ان کی اگلی نسلوں کو بھی یقیناً منتقل ہوتی رہی اور شاید اسی لیے مارکس اور آئن سٹائن جیسے ذہن بھی اسی قوم میں پیدا ہوئے۔
ایک بات تو طے ہے کہ دنیا پر حکمرانی ہمیشہ وہی کرتاہے جو طاقت میں سب سے زیادہ ہو۔ اور یہ بھی لگ بھگ طے ہی ہے کہ طاقت کسے کہتے ہیں؟
غرض امریکہ جو ایک صدی سے دوسروں کی زمینوں پر قابض ہو کر وہاں کی پرامن مملکتوں کو تاراج کرتا پھر رہا ہے اِس سلسلے کو کب تک جاری رکھ سکتاہے۔ اس بات کا تعین کرنا بہت مشکل ہے۔ یقیناً کچھ لوگ تو ضرور جانتے ہونگے کہ یہ سلسلہ کب تک جاری رہیگااور دنیا نے ابھی مزید کتنی جنگیں دیکھنی ہیں۔ کیا یہ سلسلہ اسلام کے خاتمے تک باقی رہیگا؟ کیا اسلام کو ختم کرلیا جاسکے گا؟ کیا مسلمان جو یہود کی طرح ایک قبیلہ اور ایک خاندان نہیں ہیں، اس قابل ہیں کہ سراوئیول آف دی فٹسٹ کی رُو سے خود کو بچا سکیں؟
میرا خیال ہے کہ بطور مذہب مسلمان خود کو نہ بچا پائینگے۔ میرا خیال ہے اسلام کی بنیادی تعلیمات اپنے طور پر دنیا کے رگ و پئے میں باقی رہ جائینگی لیکن مذہبی، اسلامی ریاست کا خواب دیکھنے والے مسلمان باقی نہیں رہینگے۔ میرے اِس خیال کی وجہ صرف جنگوں کی صورتحال اور مسلمانوں کی معاشی بدحالی اور قوت کی کمی ہی نہیں بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی وہ بے پناہ اوربہت تیز رفتار ترقی بھی ہے جو انسان کو بہت جلد سیارۂ زمین سے باہر جاکر آباد ہونے کے قابل بنا دے گی اور یوں انسانوں میں تفریق و امتیاز کا سلسلہ مذاہب سے ہٹ کر اپنے اپنے سیاروں کی بنیاد پر قائم ہونا شروع ہوجائے گا۔ جو جہدِ للبقأ کی ایک نئی کہانی ہوگی اور معلوم نہیں اس وقت ہونے والی سازشوں کا الزام کس کے سر دھرا جاسکیگا۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“