امریکہ کے قدامت پسند سفید فاموں کی جانب سے ، CRT پر پابندی رینگتی ہوئی آمریت کو تقویت بخشنا ہے
By Jennifer Schuessler
مترجم : عقیلہ منصور جدون
مترجم کا نوٹ :
ایک ہی موضوع پر کافی سارے آرٹیکلز جمع ہو چکے ہیں ،ترجمہ صرف تین آرٹیکلز کے چیدہ چیدہ پیراگراف کا کر رہی ہوں ۔تاکہ طوالت سے بچ سکیں ۔ لیکن ترجمہ پیش کرنے سے پہلے یہ جو بحث مباحثہ امریکہ میں چل رہا ہے یہ ایک نظریہ CRT / Critical Race Theory .کے حوالے سے ہے ۔اس لیے بہتر یہی ہے کہ اس کچھ وضاحت کردوں ۔تا کہ آپ اس بحث کو جو اس وقت امریکہ میں زورو شور سے جاری ہے سمجھ سکیں ۔
سی ۔آر ۔ٹی 1970 کی دہائی میں سرگرم کارکنوں اور قانونی ماہرین کی کوششوں سے تیار کی گئی تا کہ یہ سمجھا جا سکے کہ امریکی شہری حقوق کی تحا ریک کی رفتار سست کیوں ہو رہی ہے ۔
یہ شہری حقوق کے علمبرداروں کی فکری اور سماجی تحریک ہے جو امریکہ میں نسل پرستی اور قانون کے امتزاج کا جائزہ لینا چاہتے ہیں ۔
سی آر ٹی کے مفکرین رنگ کی بنیاد پر امتیاز نہ کرنے کے فلسفے کو مکمل طور پر رد کرتے ہوے سخت نسلی تفاوت کو تسلیم کرتے ہیں ۔جو امریکہ میں کئی دہائیوں کی اصلاحات کے باوجود موجود ہے ۔اکثریت کا یہ کہنا ہے کہ ان آوازوں کو اور ان لوگوں کی کہانیوں کو جنہیں نسل پرستی کا شکار ہونا پڑا ،بلند کیا جاۓتاکہ نسلی عدم مساوات کے حوالے سے عوام میں شعور پیدا ہو ۔
جس طریقے سے نسلی عدم مساوات کو سہولت فراہم کی جاتی ہے اور جن طریقوں سے امریکہ کی تاریخ نے اس عدم مساوات کو پیدا کیا اگر ہم نے ان عدم مساوات کے وجود پر توجہ نہ دی تو انہیں دوبارہ بھی پیدا کیا جا سکتا ہے ۔
سی آر ٹی ایک ایسا طریقہ ہے جو نسل پرستی کے تجربے کو سنجیدگی سے لیتا ہے تاریخ اور سماجی حقیقت کا استعمال کرتے ہوے یہ بتاتا ہے کہ امریکی قانون اور ثقافت میں نسل پرستی کس طرح کام کرتی ہے ۔تا کہ نسل پرستی کے نقصان دہ اثرات کو ختم کرکے اور اس کی جگہ ایک منصفانہ اور صحت مند دنیا وجود میں لائی جا سکے ۔
سال 2002 تک بیس سے زیادہ امریکی قانون کے سکولوں اور تین غیر امریکی قانون کے سکولوں میں سی آر ٹی پڑھانے کے کورس اور کلاسیں شروع ہو چکی تھیں ۔ایسا ہی سیاسی سائنس ، وومن سٹڈیز ۔ مواصلات ،عمرانیات اور امریکہ کا مطالعہ کے شعبہ جات میں بھی ہو چکا تھا ۔
سال 2021 کے اوائل میں قدامت پسندوں نے سی آر ٹی کے خلاف آواز اٹھانی شروع کر دی ۔ Idaho/ ایڈاہو ، Lowa/ لووا ، Oklahoma / اوکلاہوما ، Tennessee / ٹینی سی ، اور Texas / ٹیکساس کی ریاستوں میں قانون ساز اسمبلیوں میں بل پیش کئے گئے کہ سکولوں میں سی آر ٹی پڑھانا ممنوع کیا جاۓ۔اس پس منظر میں یہ آرٹیکل پڑھیں ۔
پہلا کالم
دی نیو یارک ٹائمز انٹرنیشنل ( پاکستان ایڈیشن )
عنوان : پی ای این/ PEN امریکہ کا کہنا ہے کہ آزادئ اظہار خطرے میں ہے
مصنفہ جینیفر شوسلر/ Jennifer Schuessler
مورخہ 12 نومبر 2021
مترجم : عقیلہ منصور جدون
امریکہ میں پچھلے سال ( 2020 ) سے سی آر ٹی پیچیدہ قانونی نظرے سے طاقتور سیاسی احتجاجی نعرے میں تبدیل ہو گئی ہے ۔ریپبلکن قانون سازوں نے سرکاری سکولوں میں سی آر ٹی اور دوسرے تفرقہ انگیز نظریات پڑھانے پر پابندی لگانے کے لئے بل پیش کر دیے ۔
اس موضوع پر لوکل سکول بورڈز کی میٹنگ میں غم و غصہ احتجاج اور افرا تفری دیکھنے کو ملی ۔ اس کا سہرا ریپبلکن گلین یانگکن کے سر ہے جس نے الیکشن مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ ورجینیا کا گورنر بن جانے کے بعد دفتر میں اپنے کام کے پہلے دن ہی وہ سی آر ٹی پر پابندی لگواۓگا ۔
اس ہفتے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں آزادئی اظہار گروپPEN امریکہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ،آزادئی اظہار جس کی ضمانت آئین کی پہلی ترمیم میں دی گئی ، اس کے لئے وہ خطرہ بن گئے ہیں ۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ بلز تعلیمی بحث مباحثہ کو ٹھنڈا کرنے اور تعلیم اور سیکھنے کے عمل پر حکومتی احکامات نافذ کرنے کے لئے بناۓجا رہے ہیں ۔انہیں تعلیمی گیگ آرڈر( ایسا عدالتی حکم جس کے زریعے کسی بھی معاملے کی معلومات عوام کو مہیا کرنے سے روک دیا جاۓ) کہا جا سکتا ہے
ان بلز کے پیچھے متحرک قوت ستمبر 2020 کا ڈونلڈ ٹرمپ کا صدارت انتظامی حکم ہے ۔ جس کے تحت فیڈرل ایجنسی اور کنٹریکٹرز کو ایسی تربیت کے انعقاد سے ،جو نسل پرستی ، جنسی یا تفرقہ انگیز نظریات کو فروغ دے سے روک دیا گیا ۔
یہ حکم صدر بائیڈن ایڈمنسٹریشن نے منسوخ کر دیا ۔لیکن سی آر ٹی کے خلاف مہم اس وقت شدت اختیار کر گئی جب یہ ریاستی مقننہ اور سکول بورڈز میں منتقل ہوئی ۔
جون میں فلوریڈا کے تعلیمی بورڈ نے سی آر ٹی پر پابندی لگانے کے لئے نئےقوائد بناۓ۔
پی ای این / PEN نے ان حکومتی بلز کے بارے میں دلیل دیتے ہو ۓاپنا موقف بیان کیا ہے کہ ان کی زبان اتنی مبہم ہے کہ یہ اظہار کی وسیع رینج کو متاثر کریں گے ۔ حالانکہ جب کبھی حکومت اظہار کو اعتدال مین رکھنا چاہتی ہے تو وضاحت سے بتایا جاتا ہے کہ کیا ممنوع ہے اور کس کی اجازت ہے ۔ اسی وجہ سے یہ خطرناک ہیں ۔ پی ای این کے مطابق نو بلز کے زریعے سی آر ٹی کو ٹارگٹ بنایا گیا اور گیار بلز “ 1619 “ کےپرجیکٹ کے تحت پڑھاۓجانے والے اسباق کو بند کروانا ہے جن کا موضوع غلامی کی تاریخ اور غلامی کی باقیات پر وضاحت کرنا تھا ۔
دوسراکالم : دی نیویارک ٹائمز انٹرنیشنل ( پاکستان ایڈیشن )
عنوان : ورجینیا سکول ڈسٹرکٹ کی نسلی تعصب پر توجہ نے غصے کو بھڑکا دیا ۔
مصنفہ : سٹیفنی ساؤل
مورخہ 16 نومبر 2021
مترجم : عقیلہ منصور جدون
ورجینیا کے کنارے پر واقع کاؤنٹی واشنگٹن کے باہر تک پھیلی ہوئی تیزی سے مخلوط النوع ہو گئی ہے ۔سفید فام طالبعلم اب اکثریت میں نہیں رہے ۔معلمین زیادہ باخبر رہنے کی کوشش میں تھے کہ کیسے نسل پرستی ان کے طلبا ہر اثر انداز ہو سکتی ہے ۔ضلع نے نے مشاورتی فرم سے رابطہ کیا تا کہ معلمین کو تعصب کے حوالے سے تربیت دی جاۓ۔ زیادہ رنگدار اساتذہ بھرتی کیے گئے ۔ ہائی سکول نے اپنا لوگو “ حملہ آور “ جو کنفیڈریشن بٹالین پر رکھا گیا تھا کو بدل کر کیپٹن کر دیا ۔لیکن سفید والدین نے ضلع کی نسل پرستی مخالف کوششوں کو مارکسزم سے تعبیر کیا ۔ایک سال کے اندر لاؤڈاون/ Loudoun County تعلیم کے معاملے میں قدامت پسندوں کے غصے کا نشانہ بن گئی ۔ اس سلسلے میں انہیں ریپبلکن نے مدد دی ۔ انہوں نے رقم جمع کی اور ضلع کی کوششوں کا مہارت سے مقابلہ کیا ۔ قدامت پسند میڈیا نے بھی اپنا کردار ادا کیا ۔ انہوں نے Loudoun سکولوں کے لئے مارچ سے جون تک اٹھتّر پروگرام میڈیا پر چلاۓ۔نومبر تک یہ جھڑپیں باقاعدہ سیاسی تحریک کی شکل اختیار کر گئیں ۔
لاؤڈاون کاؤنٹی نے ایک مشاورتی فرم سے ایک مطالعہ کروایا ،جس نے یہ نتیجہ آخذ کیا کہ سیاہ ، ہسپانوی اور مسلم طلبا سب سے زیادہ نسلی تعصب کا نشانہ بنے رہے ۔اور سیاہ طلبا کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کثرت سے نظم و ضبط پر مجبور کیا جاتا رہا ۔ کاؤنٹی نے ایک اور پرگرام پر عمل کیا ،اپنا لوگو بدلنے کے ساتھ انہوں نے ایک ویڈیو چلائی جس میں سیاہ فام طلبا سے ماضی کے نسلی امتیاز پر معافی مانگی ۔ ان تمام اقدامات کی قدامت پسند سفید لوگوں نے مخالفت کی ۔اور ایک سیاسی کمیٹی بنا لی ۔اس کمیٹی نے مئی 2021 میں ایک اشتہار بنایا کہ لاؤڈاون سکول کی جانب سے نئے اقدامات میں سفید عیسائیوں کو ظالم اور مراعات یافتہ طبقہ کہا جا رہا ہے ۔
تیسرا کالم : دی نیویارک ٹائمز انٹرنیشنل ( پاکستان ایڈیشن )
عنوان: امریکہ میں “آزادی “ کا استحصال
مصنفہ ایلزبتھ انکر
مورخہ 12-13 فروری 2022
مترجم عقیلہ منصور جدون
ایسا لگتا ہے کہ ان دنوں ریاستی عہدیداروں کی طرف سے بہت زیادہ “ آزادی “کا نعرہ لگایا جا رہا ہے ۔
ورجینیا کا گورنر بننے کے کچھ گھنٹوں کے اندر ہی یانگکن نے ایک انتظامی حکم پر دستخط کئے ۔جس کے تحت سی آر ٹی پڑھانے پر پابندی عائد کر دی ۔وجہ یہ بتائی کہ ریاست کو آزادئ خیال کو فروغ دینا چاہیے ۔ اس کے بعد اس نے سرکاری سکولوں سے ماسک پہننے کی پابندی ختم کر دی ۔ اس کی وجہ بھی افراد کی آزادی بتائی ۔ جنوری کے درمیان میں فلوریڈا کے قانون سازوں نے افراد کی آزادی کے بل ہر بحث کی ۔ اس بل کے مطابق سکولوں اور کاروبار میں نسل پرستی اور نسلی امتیاز پر گفتگو کو کم کیا جاۓ گا ۔
اس وقت جارجیا کے قدامت پسند سیاستدانوں نے آزادی کمیٹی بنائی ۔جس کا مقصد دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ خطرناک نظریات کو سکولوں سے باہر رکھنا تھا ۔Lowa / لووا میں ایجوکیشن ایکٹ کے تحت والدین کو اپنے بچوں کو ایسی چیز سیکھنے سے روکنے کی جو ان کے نزدیک قابل اعتراض ہو ، کا اختیار دیا گیا ۔مزید والدین کو ٹیچر ز کے تیار کردہ نصاب ، تیار کردا اسباق کا کسی بھی وقت معائنہ کرنے کا حق دیا گیا ۔ اور ماسک کی پابندی کو بھی چیلنج کر سکتے ہیں ( یہ بل لووا سینٹ نے مسترد کر دیا ) ۔
ان اقدامات میں جو جمہوری سیاست کے خلاف تھے لفظ آزادی صرف انہیں جائز بنانے کے لئیے شامل کیا گیا ۔اسے میں بد صورت آزادی کہتا ہوں ۔
یہ محض تعصب پر مبنی پالیسیاں بنانے کے لئے لفظ “ آزادی “ کا گھٹیا استعمال ہے ۔اس ملک میں بدصورت آزادی کی لمبی تاریخ ہے ۔ یہ لفظ کچھ مخصوص مراعات یافتہ طبقوں کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے ۔ فلاڈیلفیا میں آئینی کنوینشن کے وقت صرف دو فیصد شہری آبادی کو ووٹ ڈالنے کا حق تھا ۔ غلامی کے قانون کے مطابق صاحب جائیداد سفید فاموں کو سیاہ رنگ انسانو ں پر ملکیتی حقوق حاصل تھے ۔اسی طرح مؤرخ Tyler Stovall اسے سفید آزادی کا نام دیتا ہے ۔ یہ عقیدہ کہ آزادی سفید نسل کی پہچان ہے ۔اور صرف سفید فام ہی آزاد رہ سکتے ہیں ۔ سفید آقا کو اس آزادی نے ازیت دینے ، زنا کرنے ،اور سیاہ فام انسانوں پر زندگی بھر کا اختیار دے دیا تھا ۔ ۔
بیسویں صدی میں نسلوں کو الگ الگ رکھنا سفید لوگوں کی عوامی جگہ پر اختیار اور کاروبار کے انتخاب کی آزادی کے لئے جائز قرار دیا گیا تھا ۔۔
یہ کچھ مثالیں ہیں جن میں آزادی کے مدعیوں نے لمبے عرصے تک غیر سفید انسانوں ، عورتوں اور ملازمین کو دباۓ رکھا ۔آج پھر زیادہ سے زیادہ قانون بنا کر جلسے جلوس نکال کر جمہوری حکومتوں اور شہری حقوق کو مٹانے کے لئے لفظ آزادی کو استعمال کیا جا رہا ہے ۔ یہ قوانین رینگتی ہوئی آمریت کو پھیلانے کے لئے ہیں۔ چھ جنوری کے کیپیٹل پر حملے میں شامل باغیوں میں سے ایک اپنی شرکت کی وضاحت کرتے ہوے کہتا ہے ۔ “ میں یہاں آزادی کے لئے آیا ہوں ۔ماسک پہننے پر پابندی کے مخالفین صحت کی آزادی کا حوالہ دیتے ہیں ۔چاہے ان کے ماسک نہ پہننے سے مدافعتی طور پر کمزور لوگوں کی حرکات و سکنات کی آزادی متاثر ہوتی ہو ۔
جمہوریت مخالف سیاست میں آزادی کو صرف اور صرف اخراج ،استحقاق اور نقصان کے منصوبوں کے لئے استعمال کرنا ہے ۔قدامت پسندوں کی ان سب کوششوں کے باوجود ہم آج بھی متحرک سیاسی تحریکیں اور قانون سازی دیکھ رہے ہیں ۔آزادی ہر کسی کا حق ہے ۔ آزادی خوشحال زندگی اور عوامی مسائل میں شمولیت کی امریکی صلاحیتوں کو وسیع کرتی ہے ۔
آج امریکی سیاست میں بدصورت آزادی ،اقلیتوں کی حکمرانی ،تعصب اور جمہوریت مخالف حکمرانی کا تیزی سے جواز پیدا کر رہی ہے ۔ اگر ہم ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو پیچھے نہیں دھکیلیں گے تو ہم ان لوگوں کے لئے راستہ صاف کر دیں گے جو آزادی کے نام پر اجارہ داری کی حمایت اور ملک کو آمریت کی طرف بڑھانا چاہتے ہیں ۔
1= Free speech is at risk , PEN America says
writer : Jennifer Schuessler
The New York Times International Edition
Dared 12,November 2021 (Pakistan edition )
2= Virginia school district’s focus on racial bias ignited fury
Writer : Stephanie Saul
The New York Times International Edition
Dated : 16 ,November 2021 ( Pakistan edition )
3= The exploitation of ‘ freedom’ in America
Writer : Elizabeth Ankara
The New York Times International Edition
Dared: 12-13 February 2022 ( Pakistan edition )