عامر حسنی صاحب کا شمار ان شعراء میں ہوتا ہے جو وطن سے ہزاروں میل دور رہ کر بھی اپنے وطن سے جڑے رہتے ہیں اور اپنی قومی زبان کی ترویج و ترقی اور فروغ کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں عامر حسنی صاحب کا دل بھی ہمیشہ پاکستان ،پاکستانی قوم اور اردو زبان و ادب کے ساتھ دھڑکتا رہتا ہے ۔ وہ 1971 کو لاہور میں عبدالحمید صاحب کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے جرنلزم میں بی اے کر رکھا ہے پیشے کے لحاظ سے وہ فوٹو گرافر اور ڈیزائنر ہیں اور روزگار کے سلسلے میں گزشتہ 5 سال سے ملائیشیا میں مقیم ہیں ۔ عام طور پر لوگ بچپن سے ہی شاعری کا شوق رکھتے ہیں لیکن عامر صاحب نے 28 سال کی عمر میں 1999 سے شاعری کا آغاز کیا ان کو شاعری کا خیال بھی بڑے دلچسپ انداز میں آیا ۔ وہ جب کالج میں زیر تعلیم تھے تو اس دوران ممتاز شاعر عبیداللہ علیم صاحب ان کے کالج میں آئے ۔ اس موقع پر عبیداللہ علیم سے طلبہ نے بڑی تعداد میں آٹو گراف لیا تو عامر حسنی صاحب حیران ہوئے کہ آخر عبیداللہ علیم صاحب میں ایسی کیا خوبی ہے کہ لوگ ان سے بہت متاثر ہیں جب ان کی شاعری کا مطالعہ کیا تو وہ بھی ان کی شاعری سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور یہاں سے ان کے اندر کا شاعر بیدار ہوا ۔ ان کا کہنا ہے کہ ملائشیا میں اردو کے نامور شعراء نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود ہم پاکستانی لوگ آپس میں مل کر سال میں ایک دو بار مشاعرہ کرتے رہتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ زبان و ادب کے فروغ کے لئے مشاعروں کی بہت بڑی اہمیت ہے ۔ اردو زبان سے ان کی محبت کا یہ عالم ہے کہ ان کی مادری زبان پنجابی ہونے کے باوجود انہوں نے شادی کے بعد اپنی بیوی اور بچوں سے اردو میں بولنا لازمی کر دیا ہے تاکہ اردو زبان کا تحفظ ہو سکے انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے پاکستانیوں کے بچے بیرون ممالک میں اپنی مادری زبان خواہ قومی زبان اردو یکسر بھول چکے ہیں اس لیئے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنی مادری اور قومی زبان سے رشتہ مضبوط رکھنے کے لیے ان کو مادری اور قومی زبان بولنے کا پابند بنائیں ۔
عامر حسنی صاحب اللہ تبارک و تعالیٰ، حضرت خاتم الانبیا محمد رسول اللہ ﷺ اور وطن کی محبت کو وہ اپنے ایمان کا خاصہ قرار دیتے ہیں جبکہ ان کے دل کے تار مخلوق کی ہمدردی اور محبت سے جڑے رہتے ہیں ۔ معاشرے میں ظلم جہاں بھی ہو وہ اس کے خلاف آواز بلند کرتے رہتے ہیں اس لیئے ان کی شاعری میں یہ موضوعات باربار ملتے ہیں ۔ غزل اور نظم ان کی پسندیدہ صنف سخن ہیں جبکہ نثر کے میدان میں بھی طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں ۔ وہ اس حوالے سے مختلف پروگرامزمیں معاشرے کی چند کمزریوں کو دور کرنے کے لیے کچھ کاوشیں بھی کر چکے ہیں ۔
شاعری میں استاد کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ
میرے اساتذہ کرام میں احمد منیب صاحب، شفاعت فہیم صاحب، مسعود حساس صاحب اور شہزاد نیر صاحب خاص طور پر قابل احترام و قابل ذکر ہیں۔ عامر حسنی صاحب دیار غیر میں سخت مصروفیات کے باوجود اخبارات اور رسائل و جرائد وغیرہ میں اپنی تخلیقات کبھی کبھی ارسال کرتے رہتے ہیں ان کی تخلیقات، قرطاس، قندیل، یو کے ٹائمز برطانیہ اور لاہور انٹرنیشنل وغیرہ میں شایع ہوتی رہتی ہیں ۔ حسب دستور تعارف کے آخر میں عامر حسنی صاحب کی شاعری سے چند نمونہ کلام قائین کی نذر کیے جا رہے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہدیہ نعت پاک
بحضورحضرت محمد مصطفٰی خاتم الانبیاﷺ
امن عالم کا اور آشتی آپﷺ ہیں
خاتم الانبیاءﷺ راستی آپﷺ ہیں
نور بخشا ہے عالم کو جس فیض نے
میرے مولا کی وہ روشنی آپ ﷺ ہیں
آپﷺ نور" علیٰ نور شمس و قمر
صبح روشن بھی ہیں چاندنی آپﷺ ہیں
آپ فخرِ رسلﷺ آپﷺ مولائے کل
آپﷺ ابرِکرم ، زندگی آپﷺ ہیں
آج عامرؔ کا دل جس میں ڈوبا ہوا
اس کا مقصود بھی ہر خوشی آپﷺ ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
دن جب بھی گھیر لیں تمہیں رنج و ملال کے
رکھیو نہ دوستو کہیں آنسو سنبھال کے
اب وقت ہے کہ سجدہ گہیں تر کرو تمام
سجدوں میں گِر کے پیش کرو، دل نکال کے
ہر آن ایک رنگِ قیامت ہے الامان
مولا دن آئیں زخموں کے پھر اندمال کے
اک سانس تو نہ لے سکے اذنِ خدا کے بن
انبار بھی ہوں گر ترے مال و منال کے
معمولی وائی رس نے کیا سب جہاں کو قید
باندھے ہوں پاؤں جیسے کسی نونہال کے
جھک جاؤ عاجزی سے سمجھ لو کہ ہیچ ہے
کبر و غرور سامنے اک ذوالجلال کے
پیشانیاں ہوں خاک میں خوفِ خدا کے ساتھ
کینوں سے پاک، خوب ہوں سجدے کمال کے
وہ رنگ ہوں اَحَد کے، اَحَد کی ہی تان ہو
جیسے بلند بانگ تھے نعرے بلال کے
اشکوں سے اب وضو کیے عامر ہے ملتجی
آئیں نہ اس کے بعد کبھی دن وبال کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
تعلق کیوں بڑھانا چاہتا ہے؟
ارے پھنسنا پھنسانا چاہتا ہے
نظر مجھ سے ملانا چاہتا ہے؟
مجھے الّو بنانا چاہتا ہے؟
ارے شیطاں نکل بھی دور ہوجا
مرے دل میں ٹھکانہ چاہتا ہے؟
خباثت کا شجر اے دشمنِ جاں
مرے گھر میں لگانا چاہتا ہے؟
شرارت اور بدی کی سارے تمغے
مجھی پر کیوں سجانا چاہتا ہے
ترے حملوں سے خود کو ایک مومن
ہر اک لمحہ بچانا چاہتا ہے
مرا محبوب میرے تارِ دل کو
مکمل شاعرانہ چاہتا ہے
وہ کوسوں دور سے پیغام بھیجے
مرے دل کا نشانہ چاہتا ہے
ترا میں نے جہاں میں کیا بگاڑا
مجھے کیونکر ستانا چاہتا ہے
پڑا ہے ہاتھ دھو کر پیٹھ پیچھے
بھلا، کس کا زمانہ چاہتا ہے؟
ق
مرے شملے پہ اپنا پاؤں رکھ کر
مری عزّت گھٹانا چاہتا ہے
مگر عامرؔ برا چاہے نہ اس کا
تبھی دل مسکرانا چاہتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزادنظم
محبت مر نہیں سکتی
کسی نے یہ کہا اک دن
’’ محبت مر ہی جاتی ہے‘‘
نہیں۔۔۔۔۔ ایسا نہیں ہوتا
محبت مر نہیں سکتی
جو مرجائے حقیقت میں
محبت ہی نہیں ہوتی
دکھاوا ایک دنیا کا
ہوس انسان کی ہوگی
تبھی تو مر گئی ہوگی
محبت یہ نہیں صاحب
محبت زندگی اور موت سے
آزاد رشتہ ہے
سدا آباد رشتہ ہے
کوئی مرجائے بھی تو
یہ سدا آباد رہتا ہے
ہمیشہ زندگی و موت سے
آزاد رہتا ہے
محبت خود غرض لوگوں مٰیں
شاید مرچکی ہوگی
مرے پیارو کھرے یارو
کبھی دنیا و مافیھا سے آگے بھی قدم رکھو
کبھی اس سے محبت کرکے دیکھو
جو نہیں مرتا
جو مرتا ہی نہیں
اس کی محبت کیسے مرجائے
تمہیں ہرگام اپنے پیار میں
کرتا امر جائے
محبت اس سے کرلو نا
ازل سے جو ابد تک ہے
تو پھر ابدی محبت
زندہ و جاوید ہوجائے
جہاں سے کوچ بھی کرجاؤ تو
وہ ساتھ چلتی ہے
محبت مر نہیں جاتی
خدا کے پاس پھلتی ہے
تبھی عامرؔ کے ہونٹوں پر بھی
اس کی بات چلتی ہے
عامرؔحسنی ملائیشیا