میری پرورش قبائلی ثقافت میں ہوئی، لیکن مجھے مختلف طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بہت قریب سے جاننے کو ملا اور سائنس، سائیکالوجی، فلسفہ اور سائیکو تھراپی کو پڑھنے اور سمجھنے کا موقع بھی ملا۔ میرے اب تک کے متنوع (diverse) سفر نے مجھے اپنی ذات اور مختلف طبقوں کے رہن سہن اور جذبات کا اظہار کرنے کے متعلق کافی کچھ جاننے کا موقع دیا، حالانکہ مجھے علم ہے کہ میراتجربہ ابھی کم ہے(ویسے بھی جاننے کا یہ سفر ہمیشہ جاری رہے گا) لیکن اسے شیئر کرنے کا مقصد یہی ہے کہ شاید کسی کو میرے تجربہ کو جاننے کی ضرورت ہو اور اسکا بھلا ہو جائے، تجربہ بیشک میرا ذاتی ہے لیکن جذبات صرف میرے نہیں، جذبات سب انسانوں میں ہوتے ہیں اور میں آج انہی جذبات اور احساسات پر بات کروں گی۔
جذبات اور احساسات کو معمولی مت سمجھئے گا دوستوں!
جذبات کے اظہار کرنے کا بہت گہرا تعلق امیری اور غریبی سے بھی ہے۔ میں نے ابھی تک کی زندگی میں امیروں (سب نہیں لیکن زیادہ تر) کو جذباتی طور پر بہت میچور اور مڈل کلاس/غریبوں (سب نہیں بلکہ زیادہ تر) کو جذباتی لحاظ سے بہت کمزور اور نا پختہ پایا ہے (ضروری نہیں کہ میرا نظریہ درست ہو، میں غلط بھی ہوسکتی ہوں)۔ سارا کھیل جذبات اور احساسات کو سمجھنے، الفاظ دینے اور اسکا اظہار کرنے کا ہے۔
امیر بچوں کے اسکولوں میں بچوں کے جذبات اور احساسات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے، استاد بچوں کے جذبات اور احساسات کا خیال کرتا ہے، امیر والدین بچوں کے ساتھ “گفتگو” (communication) کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایسے بچوں کے پاس نہ صرف ذخیرہ الفاظ (vocabulary) زیادہ ہوتا ہے بلکہ وہ بہتر طور پر اپنی کیفیت کو سمجھ پاتے ہیں، انہیں الفاظ دے پاتے ہیں اور کئی کے پاس انکا اظہار کرنے کی جگہ بھی موجود ہوتی ہے۔ اور جو امیر بچے ٹروما سے گزرتے ہیں وہ آرٹ میوزک، سائیکو تھراپی، ورک شاپز (workshops)، کھیل کود، کمیونٹی کی شکل میں دوستوں کا اپنے جذبات کا اظہار کرنا وغیرہ کا سہارا لیتے ہیں، یہ سب آپ کو بچپن کے ٹروما کو پراسس (process) کرنے میں یا اپنے جذبات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں اور یہ سب بہت مہنگا ہے اور پاکستان جیسی معیشیت اور غریب ملک میں ایک بڑی تعداد کے لیے مالی طور پر برداشت کرنا ممکن نہیں۔
چونکہ ہمارے معاشرے اور ثقافت میں اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے کوئی “جگہ” (space) نہیں ملتی، یہاں والدین بچوں کے جذبات کو اہمیت نہیں دیتے، مجھے اپنے امیر (کچھ ثقافتی اعتبار سے امیر تو کچھ مالی اعتبار سے) دوستوں کی نسبت خود کے جذبات کو الفاظ دینے میں کافی دقّت ہوتی تھی۔ بھلا ہو کتابوں کا، قسمت سے ملنے والے مواقعوں کا کہ خود کو تھوڑا بہت سمجھنے کا موقع ملا۔
آپ روز خود سے پوچھیں کہ آپ کیسا محسوس کررہے ہیں۔ اپنے ہمسفر سے پوچھیں اس کے احساسات کے متعلق، یا جو قریبی ہیں انہیں موقع دیں کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار کرسکیں آپ کے سامنے۔
اگر آپ استاد ہیں، والدین ہیں یا بچوں سے منسلک کسی بھی فیلڈ میں ہیں، میری آپ سے ایک ہی گزارش ہے کہ اپنے بچوں سے پڑھائی کے علاوہ روز یہ بھی پوچھیں کہ “وہ آج کیسا محسوس کررہے ہیں”؟
اگر وہ غصہ ہیں، بور ہیں، طیش میں ہیں، پرمسرت ہیں، پرجوش ہیں، انزائٹی میں ہیں یا خوف میں۔۔۔۔۔۔۔ انہیں موقع دیں اپنے جذبات کا اظہار کرنے کا، الفاظ کے ذریعے، انہیں موقع دیں چیخنے چلانے کا۔۔۔۔۔ انہیں موقع دیں کھل کر ہنسنے یا زور زور سے رونے کا۔۔۔۔ جوش میں اچھلنے اور کودنے کا۔۔۔۔
ہم انسان اور کچھ بھی نہیں بلکہ “جذبات اور احساسات” کا ملاپ ہیں۔ جذبات اور احساسات کو اہمیت دیں، انہیں “نام” دیں۔ انہیں محسوس کریں، ان سے بھاگیں نہیں، انہیں دبائیں نہیں، انکا مناسب اظہار کرنا سیکھیں کبھی گفتگو تو کبھی پینٹنگ کے ذریعے، یا پھر کبھی رنگوں کا سہارا لے کر، یا پھر مراقبہ (meditation ) کی مدد سے انکا مشاہدہ کریں، انہیں معمولی نہ سمجھیں، جس نے جذبات کو سمجھ لیا تو یوں سمجھیں کہ اس نے زندگی کی حقیقت کو سمجھ لیا، جس نے اپنے اندر کی دنیا (inner world) کو سمجھ لیا تو سمجھیں دنیا کو سمجھ لیا۔
ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جہاں انفارمیشن حاصل کرنا بہت آسان ہے اس لیے اس انفارمیشن پر عمل کرکے اسکا فائدہ اٹھائیں۔
عموماً امیر (پڑھے لکھے طاقتور لوگ) لوگ چونکہ جذباتی طور پر میچور اور تجربہ کار ہوتے ہیں تبھی وہ ان لوگوں کا فائدہ بہت آسانی سے اٹھاتے ہیں جو ذرا سی جھوٹی ہمدردی سے ایموشنل ہوجاتے ہوں یا کوئی بڑا آدمی اچھے سے بات کرے تو فوراً سے متاثر ہوجاتے ہوں یا وہ لوگ جو اپنے تنگ نظر نظریات کے غلام ہوں یا شدت پسند ہوں تو ایسے لوگوں کا عموماً پڑھے لکھے اور جذباتی طور پر میچور لوگ بہت فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایموشنل انٹیلجنس کا مطلب ہی یہی ہے کہ آپ جذبات کو سمجھ کر اس سے بالاتر ہوکر ان لوگوں کا اصلی چہرہ دیکھ سکیں جو آپ کے جذبات کا فائدہ اٹھا کر اپنے مفادات کو حاصل کرتے ہیں (خواہ وہ آپ کے خونی رشتے ہوں یا باہر کا کوئی فرد)۔
ایک بار پھر دہراتی چلوں کہ اپنے بچوں کے جذبات اور احساسات کو اہمیت دیں، ان سے بات کریں، ان کے جذبات کی تصدیق کریں، انہیں ایموشنل انٹیلیجنس (emotional intelligence ) سے نوازیں، تاکہ وہ جذبات کو حقیقت سے الگ کرنا سیکھیں۔ ہر بات پر انہیں درست نہ کریں، کوشش کریں کہ اخلاقیات والی سوچ کو جذبات سے دور رکھیں، فوراً سے ہر بات کا حل نہیں دیں، صرف سنیں، ایک تھراپسٹ یہی کرتا ہے، آپ سب ایک دوسرے سے تھراپسٹ بن سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے شرط جذباتی طور پر میچور ہونا ہے اور سننا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...