15 شعبان المعظم 1292ء بمطابق 16 ستمبر 1875 کو ادارہ اصلاح کی بنیاد پڑی جبکہ 22 برس بعد یعنی 15 شعبان المعظم 1315ء یکشنبہ 9 جنوری 1898ء کو جریدہ اصلاح کا اجرا عمل میں آیا۔آج، اردو ادب اور مذہبی دنیا کا مقبول ترین رسالہ ’اصلاح‘ ترقی کے سوا سو برس مکمل کرچکا ہے، ایک صدی سے زاید عرصہ دراز کا سفر طے کرنے والے اس ماہنامہ کو مختلف صبر آزما ادوار اور نشیب و فراز راہوں سے گذرنا پڑا ہے، لیکن اس کے پایہ استقامت میں کوئی واضح لغزش نہ آئی، البتہ چند وجوہات کی بنا پر کچھ عرصہ تلک اس کی اشاعت تعطل کا شکار رہی مگر بہت ہی سرعت سے اس کا ازالہ بھی ہوچلا۔ قوم و ملت کی بے پناہ خدمات انجام دینے والا یہ ادارہ تاحال چہاردہ مقبول ترین خاص شمارے کی اشاعت کرچکا ہے۔
چہاردہ صد سالہ شہادت امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے موقع پر خصوصی اشاعت ’امیر المومنین نمبر‘آپ کے ہاتھوں میں ہے۔شعبان المعظم و رمضان المبارک 1440 ھ کا مشترکہ 360 صفحات پر مشتمل یہ شمارہ منت کش تعریف نہیں، اس کی علمیت کا اندازہ اس کے مشمولات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔آیات عظام، علمائے کرام اور اہل علم حضرات کے قلمی کاوش نے رسالہ ک عظمت میں چار چاند لگادیئے ہیں۔
امام علی علیہ السلام کی مناسبت سے پچاس سے زائد موضوعات پرمحیط مضامین اپنے آپ میں ایک علمی سمندر ہیں جو موالیان حیدر کرار کی علمی عطش بجھانے کے واسطے کافی اہم کردار ادا کررہے ہیں۔آیات عظام میںروح اللہ موسوی خمینی، رہبر معظم سید علی خامنہ ای، وحید خراسانی، ناصر مکارم شیرازی، جوادی آملی، مصباح یزدی اور طیب جزائری سمیت دیگر قدر آور شخصیتوں کے مضامین، علمی و تحقیقی مواد سے مملو ہیں۔
بانی انقلاب اسلامی ایران روح اللہ موسوی خمینی امام المتقین کے متضاد کمالات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:’علی علیہ السلام کے اندر تمام اعلیٰ صفات پائے جاتے ہیں یعنی انسانیت کے تمام پہلو امیر المومنین علیہ السلام کے وجود مبارک میں موجود ہیں لہٰذا ہر فرقہ اپنے کو امیر المومنین کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔(ص 20 )
رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے’حضرت علی علیہ السلام کی متوازی شخصیت میں‘آپ کو رسول کی ہوبہو تصویر بتایا ہے اور اپنے بیان کو متعدد مثالوں سے ثابت بھی کیا ہے، ساتھ ہی اس بات کو بھی اجاگر کیا ہے کہ اتنی عظیم المرتبت شخصیت ہوتے ہوئے بھی آپ کو پیغمبر اسلام کی شاگردی پر فخر ہے۔(ص 21)
شیخ وحید خراسانی اپنے مضمون‘قرآن ناطق کی شہادت‘میں عظمت علیؑ کے حوالے سے ایک نہایت دلچسپ اور ایمان افزا پیرا تحریر فرماتے ہیں:’خدا کی قسم! اے علی! اگر مجھے اپنی امت سے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ وہ تمہارے لیے وہی کہنے لگے جو عیسائی جناب عیسیٰ کے لیے کہتے ہیں تو میں تمہارے بارے میں وہ بتاتا کہ لوگ تمہارے قدموں کے نیچے کی خاک تبرک کے لیے اٹھاتے۔‘اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں تمہارے مقام و مرتبہ کو بیان کردوں تو جس طرح عیسائی انجیل کے نازل ہونے کے بعد تثلیث کا شکار ہوگئے اور عیسیٰ کو خدا کا شریک قرار دے دیا۔اگر میں تمہارے تمام فضائل و مناقب بیان کروں تو لوگ تمہارے بارے میں بھی گمراہی کا شکار ہوجائیں گے۔(ص 26)
’نہج البلاغہ اتنی پر کشش کیوں؟‘میں ناصر مکارم شیرازی نے اس عظیم کتاب کی شان میں بہت عمدہ بحث کی ہے اور اس کی ہمہ جہتی و جامعیت کو مضبوط براہین کے ذریعے ثابت کیا ہے۔(ص 28)
مفتی طیب جزائری نے امام علی علیہ السلام کے سلسلے میں چالیس ممتاز فضائل کا ذکر کیا ہے، آپ نے مختلف ذی علم اور مقبول زمانہ شخصیات کے کلام سے جمع مناقب مولائے کائنات کو بیان کرکے واضح کردیا ہے کہ امیر المومنین، انسانیت کے پیشوا ہیں اور آپ کی منزلت کا اعتراف تمام دنیائے بشر کو ہے۔(ص 33)
عبد اللہ جوادی آملی نے حضرت علی علیہ السلام کو الٰہی اسماء حسنیٰ کے مظہر ہونے کو واضح کیا ہے، جیسا کہ قرآن مجید کی متعدد آیات بھی اس پر گواہ ہیں۔(ص 37)
رئیس مؤسسہ امام خمینی، قم مصباح یزدی نے’ لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کا ساتھ کیوں نہیں دیا؟‘ میں لکھتے ہیں کہ مولا ئےکائنات کی مخالفت کی تین اہم عناصر تھے؛ذاتی کینہ اوربغض
علی علیہ السلام کی عدالت
اور ذہنی پسماندگی یا جہالت(ص 73)
مذکورہ بالا عظیم علمی شخصیات کے ماسوا آیۃ اللہ محسن قرائتی، شہید مرتضیٰ مطہری، علامہ محمد تقی جعفری، آیۃ اللہ جعفر سیدان، علامہ علی اظہر، علامہ علی حیدر نقوی، علامہ تیجانی سماوی، علامہ سعید اختر رضوی، آیۃ اللہ حمید الحسن تقوی، آیۃ اللہ شمیم الحسن رضوی، علامہ ذیشان حیدر جوادی، علامہ محمد علی فاضل، علامہ حسن عباس فطرت، علامہ رضی جعفر نقوی، علامہ عقیل الغروی، علامہ مقبول احمد نوگانوی،مولانا ناظم علی خیرآبادی،پروفیسر نیر مسعود اور پروفیسر شاہ محمد وسیم کے علاوہ دیگر اہل قلم کے بھی مضامین بھی قابل مطالعہ ہیں، مجلہ میں شائع تمام مضامین خوب سے خوب تر اور استدلالی ہیں۔ادادہ کی جانب سے اختصار کا حکم تھا، اس لیے نہایت ہی مختص تبصرہ حاضر خدمت ہے۔
نثری سلسلہ کے ساتھ ساتھ اصناف نظم بھی بہت دلچسپ اور پر کشش ہے، اس میں موجود گلہائے رنگارنگ نے مجلہ کی علمی فضا کو چار سو معطر کر رکھا ہے اور قارئین کو تیزی سے اپنی جانب کھینچ لیا ہے۔آج سے ایک ماہ قبل منظر عام پر آنے والا ’امیر المومنین نمبر‘آج قارئین کی آنکھوں کا سرمہ بنا ہوا ہے اور اس کی طلب میں روزانہ اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔امام المتین کی حیات اور شخصیات پر مرکوز یہ تحقیقی دستاویز قوم و ملت کے لیے گراں قدر علمی سرمایہ ہے۔
امام اول کے حوالہ سے اتنا عظیم علمی ذخیرہ جمع کرنا بہت مشکل کام ہے، لیکن محنت شاقہ کے سامنے کب کسی مشکل کا بس چلا ہے۔ مدیر محترم، جناب حسنین باقری اور اصلاح ٹیم کی انتھک کوشش کے سبب ہی یہ علمی سمندر مجلہ کی شکل میں سماسکا ہے۔لائق مبارک باد ہیں ایسے خدمتگار قوم۔ہم ایسے خادم و قوم ملت کی مزید توفیق کے لیے دعا گو ہیں۔
“