بھارت کے بزرگ اور نامور شاعر امیر الدین امیر صاحب اپنے تخلص " امیر " کی طرح شاعری میں بھی امیر ، دوست و احباب کے حلقوں میں بھی امیر اور دل کی دنیا کے بھی امیر ہیں ۔ ان کی شاعری میں وہ سب لوازمات پائے جاتے ہیں جو کسی بھی اچھی اور بہترین شاعری کےلئے لازمی ہونے چاہیئے ۔ امیر الدین امیر صاحب 19 جولائی 1946 کو بیدر کرناٹک میں رکن الدین رکن کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد صاحب بھی شاعر تھے اور وہ ایک نعت گو شاعر کے طور پر معروف رہے ۔ وہ 2 بہن اور 5 بھائیوں میں چھٹے نمبر پر ہیں ۔ ان کا اصل نام امیر الدین اور قلمی نام و تخلص " امیر" ہے۔ انہوں نے میٹرک تک عالم فاضل کی تعلیم حاصل کی جس کے بعد محکمہ موسمیات میں ملازمت اختیار کر لی اور بی گروپ کے آفیسر کی حیثیت سے رٹائر ہوئے ۔ امیر صاحب کو زمانہ طالب علمی کے دوران شاعری کا شوق پیدا ہوا ۔ ان کو شاعر بنانے میں ان کے اسکول ٹیچرز کا خصوصی کردار رہا ہے جس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ ان کے اساتذہ درس و تدریس کے کے دوران غزلیات کی تشریح اور مفہوم کچھ اس انداز میں سمجھاتے تھے کہ ان کے لب و لہجہےسے وہ متاثر ہو کر شاعری کی طرف راغب ہو گئے ۔ انہوں نے شاعری کی ابتدا 1964 میں 18 سال کی عمر میں پہلی غزل لکھنے سے کر دی ۔ شاعری میں انہوں نے 2 اساتذہ کی رہنمائی حاصل کی ۔ شور عابدی گلبرگہ صاحب اور رشید احمد رشید صاحب ان کے استاد ٹھہرے ۔ رشید احمد رشید صاحب فانی بدایونی صاحب کے شاگرد تھے ۔ امیر صاحب نے 5 جولائی 1967 کو 21 سال کی عمر میں شادی کی ۔ ان کی شاعری محبت، رومانس ،معاشرتی اور سماجی مسائل پر مبنی ہے ۔ ان کی شاعری ملک بھر کے بڑے بڑے اخبارات، رسائل اور جرائد میں شائع ہوتی رہتی ہے ۔ وہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں بڑے بڑے مشاعروں میں بھی شریک ہوتے ریے ہیں ۔ ہندوستان کی صف اول کے ممتاز شعراء اور شاعرات ،منور رانا صاحب، راحت اندوروی صاحب، شبینہ ادیب صاحبہ اور لتا حیاء صاحبہ و دیگر کے ساتھ مشاعرے کر چکے ہیں اور ان کے ساتھ ایک اہم شاعر کی حیثیت سے دوستانہ مراسم بھی ہیں ۔
اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی اور فروغ کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں اردو کو ماضی میں بھی اہمیت رہی ہے موجودہ دور میں بھی اردو کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اور اس کا مستقبل بھی تابناک لگتا ہے۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی ہے کہ بھارت میں بہت سی تنظیمیں اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی اور فروغ کی غرض سے سرگرم عمل ہیں اور فعال کردار ادا کر رہی ہیں ۔ امیر صاحب کہتے ہیں کہ اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی اور فروغ کے لئے مشاعرے بھی بہت ضروری ہیں اور اس حوالے سے مشاعروں کی بہت بڑی اہمیت ہے ۔ امیر صاحب خود بھی مختلف اردو تنظیموں سے وابستہ رہے ہیں اور اب بھی ان کی " تحریک توازن اردو ادب" سمیت مختلف اردو تنظیموں سے وابستگی ہے ۔ امیر الدین امیر صاحب کے 3 شعری مجموعے شایع ہو چکے ہیں جن میں سے پہلا شعری مجموعہ "ثری" 2010 میں دوسرا شعری مجموعہ " نشرح " دسمبر 2013 اور تیسرا مجموعہ " سعد" مارچ 2014 میں شائع ہوا ہے جبکہ مزید 5 شعری مجموعے زیر طباعت ہیں ۔ امیر الدین امیر صاحب صاحب کو بہترین شاعری اور ادبی خدمات کے اعتراف میں مختلف اداروں اور تنظیموں کی جانب سے متعدد ایوارڈز اور اعزازت بھی مل چکے ہیں ۔ امیر الدین امیر صاحب کی شاعری سے نمونے کے طور پر ایک نظم اور ایک غزل قارئین کی نذر
۔نظم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تاج محل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دفن ہیں جس میں "دلِ شاہِ جہاں "کی دھڑکنیں
لے رہی ہے ذرّے ذرّے میں محبت کروٹیں
سنگِ مرمر کی عمارت ہے محبت کا جمال
جیسے تصویرِ مصور جیسے شاعر کا خیال
اک مہکتی چاندنی میں دو دلوں کا پیار ہے
اک سہانی آرزو کا منظرِ انوار ہے
اک رفیقِ زندگی اک زندگی کی آرزو
رہ چکی ہے "دلِ شاہِ جہاں"کی جستجو
اُس محبت کو زمیں میں دفن کرڈالا ہےآج
اور ایسے مقبرے کا رکھ دیا ہے نام تاج
حُسنِ تعمیرِ عمارت خوبرو نقش ونگار
دے نہیں سکتی کسی کو زندگی کا وقار
پھر بھی شاہِ وقت نے حقِّ محبت جان کر
اپنی محبوبہ کی دائم یاد کو پہچان کر
اپنے اُن بےتاب ارماں کوسہارا دے دیا
اپنی محبوبہ کو جمنا کا کنارا دے دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظر و دل میں رہا وہ کینہ بھروں میں کب تھا
کوئی وحشی رہے صحرا میں، گھروں میں کب تھا
حوصلہ مند رہا بن کے دلیروں کی طرح
پست و کم فہم کوئی فتنہ گروں میں کب تھا
حال دل کر دیا ہے واسطہ ظاہر اس نے
چاہنے والا ترا نامہ بروں میں کب تھا
ہر حقیقت مری نظروں کے مقابل آئی
ایسے ظاہر میں کوئی دیدہ وروں میں کب تھا
قتل و غرت گری فطرت ہو تو اس کا کیا علاج
ایسا انسان کبھی راہ بروں میں کب تھا
یونہی اڑتا ہوا آیا تری چاہت کی قسم
اتنا دم خم تو مگر میرے پروں میں کب تھا
ایک شاعر تھا امیر اپنے تخیل کا اسیر
آئینہ گر تھا کوئی فتنہ گروں میں کب تھا
امیر الدین امیر