ایک جہاز ایک ایسے بدقسمت ملک سے اڑا ہے، جس میں لمبی سردی کا موسم آتا ہے۔ اس قدر زیادہ کہ کسان سال میں ایک ہی فصل اگا سکتے ہیں۔ اس ملک میں کوئی قیمتی معدنیات نہیں۔ فلیٹ اور نچلی سطح، جس کی وجہ سے کوئی ڈیم نہیں بنایا جا سکتا، پانی سے بجلی نہیں لی جا سکتی۔ توانائی کے لئے اس کو تیل اور کوئلہ درآمد کرنا پڑتا ہے۔ اس کی سرحد ایک بڑے ملک سے ملحق ہے، جس کی طاقتور فوج ہے۔ یہ فوج اس پر پہلے حملہ کر چکی ہے۔ چند دہائیاں پہلے حملہ کر کے بھاری جانی اور مالی نقصان پہنچایا تھا۔، اس کا ایک تہائی سمندر کی سطح سے نیچے ہے۔ سمندر کبھی بھی اس پر قابض ہو سکتا ہے۔ یہاں رہنے والوں کو اس کا بندوبست کرنا پڑتا ہے اور یہ سستا نہیں۔
یہ جہاز ایک ایسے خوش قسمت ملک کی طرف جا رہا ہے جس میں بہتے دریا سے اس قدر بجلی پیدا ہوتی ہے کہ اس کو تیل اور کوئلہ خریدنے کی ضرورت نہیں۔ یہ بڑے ڈیم بنا کر فاضل توانائی پڑوسی ممالک کو برآمد کرتا ہے۔ معدنی ذخائر سے بھرپور ہے۔ تانبے کے بڑے ذخائر ہیں۔ تمام سال دھوپ کی وجہ سے یہاں کے کسان پورا سال کئی فصلیں اگا سکتے ہیں۔ اپنے خطے کے دوسرے ممالک کے برعکس امن ہے، جمہوریت ہے اور سیاسی استحکام ہے۔ نہ کبھی خانہ جنگی ہوئی ہے اور نہ ہی کبھی پڑوسیوں سے جنگ۔ آزاد انتخابات ہوئے ہیں۔ محنت کرنے والے لوگ ہیں اور تعلیم کی قدر کرتے ہیں۔
یہ جہاز نیدرلینڈز سے اڑا ہے اور افریقہ کے ملک زیمبیا جا رہا ہے۔ دونوں میں سے امیر ملک کونسا ہے؟ نیدرلینڈ۔ کتنا؟ جہاں نیدرلینڈز میں فی کس آمدنی پچاس ہزار ڈالر کے قریب ہے، وہاں پر زیمبیا میں ڈیڑھ ہزار ڈالر۔ یہ فرق 33 گنا کا ہے۔ اس وجہ سے لوگوں کے زندگیوں کے معیار میں بہت فرق ہے۔ زیمبیا میں اوسط عمر 41 برس ہے جبکہ نیدرلینڈز میں 78 برس۔
یہ فرق کیوں؟ اتنا فرق کیوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ اکانومسٹ اس کا تعلق اداروں کے ساتھ بتاتے ہیں۔ قوانین، حکومتی اور معاشی سسٹم، سوسائٹی کے ان کہے اور ان لکھے اصول۔ یہ سب لوگوں میں پیداوار کی تحریک پیدا کرتے ہیں اور قومی دولت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جہاں پر ادارے ایسا نہ کریں بلکہ پیداوار کی حوصلہ شکنی ہو، وہاں پر وسیع پیمانے پر غربت ہوتی ہے۔ بارہ ریاستی اور معاشی ادارے اکانومک ماڈل میں گنوائے جاتے ہیں۔ افراطِ زر پر قابو، تعلیمی مواقع، حکومت کی رِٹ، معاہدوں پر عملدرآمد، تجارتی رکاوٹیں نہ ہونا، سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی، کرپشن کم ہونا، امن و امان، کرنسی کا آزاد تبادلہ، ملکیتی حقوق کا تحفظ، قانون کی حکمرانی، سرمائے کے بہاوٗ میں رکاوٹ نہ ہونا۔
یہ سب عوامل درست ہیں اور کسی ملک کے امیر ہونے میں بہت فرق ڈالتے ہیں۔ ناروے امیر کیوں ہے؟ اس کے ادارے اچھے ہیں۔ نائیجیریا غریب کیوں ہے؟ اس کے ادارے اچھے نہیں ہیں۔
کچھ اکانومسٹ پھر ایک قدم اور آگے چلے جاتے ہیں جو کہ کسی بھی پیچیدہ سسٹم کی وضاحت کرنے کے لئے سب سے بڑی اور سب سے عام کی جانے والی غلطی ہے۔ کوئی ایک فیکٹر پکڑ لینا کہ تمام فرق اسی وجہ سے ہے (دنیا میں کئی انتہائی غلط پالیسیاں اس غلطی کی وجہ سے بنتی رہی ہیں)۔
یہ اچھے جواب ہیں لیکن اب اگلا سوال: اچھے ادارے کہاں سے آتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیدرلینڈ میں ہی اچھے ادارے کیوں؟ زیمبیا میں کیوں نہیں؟ کیا نیدرلینڈ میں یا وہاں رہنے والوں، کچھ خاص ہے جو اس کے ادارے قومی ترقی کے لئے کام کر رہے ہیں؟ کیا یہ بس ایسے ہی آ جاتے ہیں؟ اور جہاں پر یہ نہیں ہیں، وہاں ان کے بننے میں اتنی مشکل کیوں ہوتی ہے؟ امیر اور غریب ملک دنیا کے خطوں میں اکٹھے کیوں ہیں؟ مغربی یورپ اور شمالی امریکہ میں امیر اکٹھے ہیں۔ افریقہ اور جنوبی امریکہ میں غریب اکٹھے ہیں؟ اگر ادارے ایسے ہی بن جاتے اور ملک کو امیر کر دیتے تو پورا خطہ ان سے محروم کیوں رہ جاتا ہے؟ اچھے ادارے آسمان سے نہیں ٹپکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک جوڑے میں طلاق کی نوبت آ رہی ہے۔ کوئی پوچھتا ہے کہ وجہ کیا بنی۔ شوہر کہتا ہے کہ بیوی نے مجھے تھپڑ مارا تھا۔ بیوی اثبات میں سر ہلاتی ہے۔ آپ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ معاملہ اس تھپر کی وجہ سے یہاں تک پہنچا۔ لیکن پھر بیوی سے سوال کرتے ہیں کہ تھپڑ کیوں مارا تھا؟ وہ بتاتی ہے کہ شوہر کے افئیر تھے جس کی وجہ سے بات یہاں تک پہنچی۔ شوہر اقرار کرتا ہے۔ اب آپ کی نظر میں طلاق کی وجہ بدل گئی۔ اب آپ سوال کرتے ہیں کہ شوہر نے افئیر کیوں رکھے اور وہ بتاتا ہے کہ بیوی کی سردمہری اور توجہ نہ دینے کی وجہ سے۔ اب آپ سمارٹ ہو چکے ہیں اور اب اس سردمہری کی وجہ جاننا چاہیں گے۔ جواب کبھی بھی سادہ نہیں ہوتے۔ سادہ جواب ٹھیک نہیں ہوتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح وجوہات تلاش کرنے کے لئے تاریخ اور جغرافیہ میں غوطہ لگانا پڑتا ہے۔ ہزاروں سال دور جانا ہوتا ہے۔ بادشاہ، پروفیسر، ادیب، بینکر، خواندگی، موجد، تاجر، اوزار، منڈیاں، یونیورسٹیاں۔ کچھ بھی بس ایسے ہی نہیں آ جاتا۔
نیدرلینڈز میں زراعت ساڑھے سات ہزار سال پرانی ہے، زیمبیا میں دو ہزار سال ہوئے ہیں۔ نیدرلینڈز میں لکھائی دو ہزار سال پہلے سے ہے، زیمبیا میں صرف ڈیڑھ سو سال پہلے سے۔ نیدرلینڈز پچھلے پانچ سو برس سے ریاست کے طور پر کام کر رہا ہے، زیمبیا صرف چالیس سال سے۔ نیدرلینڈز ساحلی علاقے میں ہے، زیمبیا کے ساتھ سمندر نہیں لگتا۔ نیدرلینڈز معتدل موسم میں ہے، زیمبیا ٹراپیکل علاقہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنوبی کوریا، فلپائن، اور گھانا 1960 کی دہائی میں غریب ممالک تھے۔ سفارتکاروں کی اس پر شرطیں لگیں تھیں کہ کونسا ملک امیر ہو گا اور کونسا غریب رہ جائے گا۔ زیادہ تر کا اس وقت خیال تھا کہ فلپائن اور گھانا کی اکانومی ٹیک آف کرنے لگی ہے۔ یہاں پر قدرتی وسائل زیادہ ہیں، زراعت کے لئے موسم اچھا ہے۔ جنوبی کوریا کے حق میں کچھ بھی نہیں۔ آج ساٹھ برس بعد جب ہم دیکھتے ہیں تو جنوبی کوریا پہلی دنیا کا معیارِ زندگی حاصل کر چکا ہے، گھانا اور فلپائن غریب ہیں۔ اس کی وضاحت کے لئے کوریا کی قدیم تاریخ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ چین کا یہ قدیم ہمسایہ ساتویں صدی میں ریاست کے طور پر یکجا ہو چکا تھا۔ پیچیدہ اداروں کی تشکیل کی اس کی تاریخ پرانی ہے۔ گھانا اور فلپائن اس حوالے سے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اگرچہ پچاس سال یہ جاپانی قبضے میں رہا لیکن اس کے پاس اداروں کے سٹرکچر کی تاریخ موجود تھی جس سے قومی دولت اور ترقی میں بدلا جا سکتا تھا۔ فلپائن اور گھانا کے پاس وہ کلچر اور پیچیدہ اداروں کی تاریخ نہیں رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کوئی تمام جواب محض تاریخ اور جغرافیہ سے ہی دینا چاہے تو اس کے لئے جنوبی کوریا کے ساتھ ہی ایک اور مثال شمالی کوریا کی ہے۔ یہ اپنی تاریخ سے حاصل شدہ ایڈوانٹیج کو کھو بیٹھا ہے۔ اپنی جابر حکومت کی وجہ سے اپنے ہمسائے سے بہت ہی پیچھے رہ گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اگر آپ کے ذہن میں سوال آیا ہے کہ آخر ایسا کیا تھا کہ تاریخی طور پر فائدہ نیدرلینڈ اور کوریا میں رہا جبکہ گھانا، فلپائن یا زیمبیا میں نہیں۔ آخر ہزاروں سال تک زیمبیا میں زراعت کیوں نہں رہی؟ لکھائی اس قدر دیر بعد یہاں تک کیوں پہنچی؟
یہ اچھے سوال ہیں کیونکہ اب آپ سمارٹ ہو چکے ہیں اور جان لیا ہے کہ ہر سوال کے پیچھے اگلا سوال ہوتا ہے۔ پیچیدہ سوالات کے جواب سادہ نہیں ہوتے اور سادہ جواب ٹھیک نہیں ہوتے۔
ان کے لئے پھر انسانی تاریخ کو سمجھنے کے لئے پڑھنا پڑتا ہے۔