برصغیر کے عظیم انقلابی رہنما دادا امیر حیدر خان 1900ء میں کلر سیداں ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ کم عمری میں ہی یتیم ہو گئے اور سوتیلے باپ نے سکول بھیجنے کی بجائے مدرسے میں ڈال دیا۔ ایک سخت گیر مولوی کی مار پیٹ سے انہوں نے مدرسہ پڑھنا چھوڑ دیا اور نہایت کم عمری میں تلاش معاش کی فکر میں گھر سے نکل کر بمبئی پہنچے اور وہاں گودی میں مزدوری کرنے لگے اور پھر 1914ء میں برٹش مرچنٹ نیوی ممبئی میں ملازم ہوگئے بحری کمپنی میں شامل ہونے کیوجہ سے انہوں نے ملاح کے طور پر سمندری سفر کیا۔
19188ء میں وہ امریکا پہنچے اور امریکہ کے شہر بفلو میں ریلوے انجن مکینک کے طور پر کام کرنے لگے۔ انہوں نے فوجی تربیت کے ساتھ ساتھ ہوا بازی اور میرین انجینئرنگ میں بھی مہارت حاصل کی۔ وہ پائلٹ تھے، بحری جہازوں اور ریلوے کے انجینئر بھی تھے اور انتھک انقلابی بھی۔ امریکہ میں ہی ان کی ملاقات مشہور مصنف اور صحافی ایگنس سملڈی سے ہوئی جو عمر بھر کی یاد بن گئی۔ امریکا میں ان کی ملاقات غدر پارٹی کے کئی جلاوطن رہنمائوں سے بھی ہوئی، جنہوں نے دادا امیر حیدر خان کی ذہنی کیفیت بدل دی اور وہ کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے۔ بعدازاں وہ کسی طرح سوویت یونین پہنچے جہاں وہ اپنی نظریاتی تعلیم مکمل کرکے ہندوستان واپس آگئے۔ اور واپسی پر میرٹ سازش کیس میں ان کے وارنٹ نکل گئے۔ انڈر گراؤنڈ کام کرتے ہوئے مدراس میں کمیونسٹ پارٹی کا نوجوان ونگ بنایا۔ فیکٹریوں میں سٹڈی سرکل چلایا کرتے تھے۔ سامراجی جبر شدید تر ہوجانے کے بعد وہ ماسکو چلے گئے۔ 1932ء میں واپس آئے تو گرفتار ہو گئے۔ دادا امیر حیدر ان جرات مند کمیونسٹوں میں سے تھے جنہوں نے سٹالن اسٹ سوویت یونین کی برطانوی سامراج سے مصالحت کے تحت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی سامراج مخالف تحریک سے دستبرداری کی پالیسی کو مسترد کر دیا تھا۔1941ء میں سامراج سے سٹالن کے سمجھوتے کو دنیا بھر کی طرح ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی پر بھی تھونپ دیا گیا جس سے پورے خطے میں چلنے والی قومی آزادی کی تحریک اور طبقاتی جدوجہد کو شدید دھچکا لگا۔ دادا امیر حیدر کو انقلابی سرگرمیوں کی وجہ سے کئی مرتبہ گرفتار کیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کو منظم کرنے میں مصروف ہوگئے۔ یہاں بھی ان کی زندگی کا بیشتر حصہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے گزرا۔ عمر بھر ریاستی جبر، قیدو بند اور جلاوطنی کی صعوبتیں کاٹنے کے باوجود مرتے دم تک ایک بالشویک رہے۔ ان کی سوانح عمری Chains to Lose کے نام سے انگریزی میں اور دادا کے نام سے اردو میں شائع ہوچکی ہے۔ 26 دسمبر، 1989ء کو یہ عظیم انقلابی رہنما دادا امیر حیدر خان راولپنڈی میں وفات پاگئے۔ وہ سموٹ یونین کونسل کے گاؤں سہالیاں تحصیل کلر سیداں، ضلع راولپنڈی میں آسودۂ خاک ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“