از؛ کرنل میڈوز ٹیلر
مترجم؛ حسن عابد جعفری
(ایک دلچسپ اقتباس)
سونا دیکھ کر کوئی انتظار نہیں کر سکتا،
بادشاہ سے لیکر معمولی کسان تک کا ایک حال ھے، روپیہ سے آدمی اپنے ہمسائیہ کا ضمیر یا اس کی بیوی اور بیٹی جو چاھے خرید سکتا ھے،
اس سے آدمی قاضی القضاء کو بھی رشوت دے کر بری ھو سکتا ھے خواہ اس نے سو آدمیوں کی جان لی ھو، جعل سازی کی ھو، چوری کی ھو، یا دنیا کے پردے پر برے سے برا کام کیا ھو،
روپیہ سے نیک آدمی مزید سنور سکتا ھے، لیکن ایسا کم ھوتا ھے، اور برا آدمی اپنی بدبختی کو اور بڑھا لیتا ھے،
اس کے واسطے لوگ جھوٹ بولتے ہیں، دھوکہ دیتے ہیں، قتل وغارت کرتے ہیں اور پورے حیوان بن جاتے ہیں
جوان عورتیں اس کے لئے شوہروں کو کلنک لگاتی ہیں، اور بوڑھی عورتیں اسی کے لالچ سے ان کی اعانت کرتی ہیں،
جس کے پاس سونے کے ڈھیر لگے ہیں وہ ہر جا بے جا طریقہ سے ان کو مزید بڑھاتا ھے اور پھر بھی خوش نہیں رہتا، اور جن کے پاس نہیں ھے وہ ہر وقت اس کے طلب گار رھتے ھیں اور وہ بھی خوش نہیں رھتے،
بچے کو ایک اشرفی کھیلنے کو دیجیے تو وہ اسے سینہ سے لگائے گا، اور اگر چھین لیجیئے تو رونے لگے گا،
مختصر یہ کہ اس کی تاثیر مٹ نہیں سکتی، بوڑھے اور جوان، امیر اور غریب سب اس کے غلام ہیں
آدمی کی عقل کچھ نہیں، اس کی طاقت کچھ نہیں، اس کی پارسائی کچھ نہیں، اس کا رُتبہ کچھ نہیں،
لیکن
یہ حقیر دھات(سونا) جس میں نہ زبان ھے، نہ عقل، نہ پارسائی، اور نہ ھی رُتبہ زمین پر ایسے حکمرانی کرتی ھے، جیسا کہ آسمانوں پر "خدا" حکمرانی کرتا ھے!!!
★★★★★
نوٹ؛ اس اقتباس کی روشنی میں اگر پاکستانی معاشرے کا تجزیہ کیا جائے تو یوں لگتا ھے کہ
"خُلد آشیانی امیر علی ٹھگ"
اپنے فرمودات کی روشنی میں مختلف روپ دھارے آج بھی ھمارے چاروں اور موجود ھے،
وہ وردی میں بھی ملبوس ھے اور بغیر وردی بھی،
وہ عدالت، بار روم، ہسپتال، سکول، منڈی، بازار، تھانہ، دفتر، بنک، سٹاک ایکسچینج، مارکیٹ، مسجد، مندر،
دیر، و، حرم غرض ھر جا اپنی موجودگی کا احساس شدت سے دلاتا ھے،
"جنت مکانی امیر علی ٹھگ"
کو دنیا سے رخصت ھوئے سینکڑوں برس بیت چکے، لیکن وہ آج بھی ھمارے معاشرے میں پوری شان و شوکت سے زندہ، و، پائندہ ھے
اور شاید اس وقت تک زندہ رھے گا جب تک کہ کمزور طاقتور کی بندگی اور طاقتور غریب کی نمائندگی کرتا رھے گا…!!!
ترمیم و اضافہ………………….. ( اکرم خان)