محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی کتاب آمریت یا جمہوریت کے ایک مضمون جمہوریت کی بحالی ناگزیر ہے میں لکھتی ہیں کہ گزشتہ ماہ جنرل پرویز مشرف امریکہ کے دورے پر گئے تھے، تاکہ اس عزت افزائی سے لطف اندوز ہوسکیں، جو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے ایک اہم رکن ملک کے لیڈر نے انہیں بخشی ہے۔ اس مہینے انہوں نے ٹوکیو کا سفر بھی کیا، تاکہ 11 ستمبر کے واقعات کے بعد پاکستان نے جو کردار ادا کیا ہے، اس حوالے سے تحسین آمیز توجہ حاصل کرسکیں۔
واشنگٹن میں انہوں نے یہ کہہ کر لوگوں کو حیران کردیا "آپ لوگ جمہوریت کا لیبل چاہتے ہیں،ٹھیک ہے میں جمہوریت کا لیبل لگا دوں گا"، لیکن یہ بات بھی واضح کردی کہ از سر نو لیبل لگانے کے باوجود بھی آمریت باقی رہے گی۔ انہوں نے اگلی صبح کی میٹنگ میں پھر یہی بیان دیا۔انہوں نے کہا "میرے خارجہ سیکرٹری اگرچہ یہ نہیں چاہتے، لیکن آپ مجھ سے توقع رکھتے ہیں کہ میں جمہوریت کا لیبل لگاوں۔ ٹھیک ہے میں لیبل لگاوں گا۔اس کے بعد سے تسلسل کے ساتھ آمریت پر جمہوریت کا لگا رہے ہیں۔ نئی زبان میں انجینئرڈ انتخابات کو صاف وشفاف انتخاب کا اور فوج کی خواہش کو عوام کی خواہش کا نام دیا جارہا ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اسی مضمون میں آگے لکھتی ہیں کہ " شفاف، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان عدم استحکام سے بدستور دوچار رہے گا۔نیا وزیراعظم اپوزیشن کے ساتھ ملنے کی دھمکی دے کر صدر کو بلیک میل کرسکتا ہے۔ وزیراعظم جونیجو نے 1980 کے عشرے میں یہی کچھ تو کیا تھا، جب انہوں نے جرنیلوں سے مرسڈیز بینز لے کر انہیں چھوٹی سوزوکی کاروں میں لا بٹھایا تھا۔ افغانستان سے متعلقہ جنیوا عمل کے دوران بھی وہ جرنیلوں کو خاطر میں نہ لائے۔ اس اعلانیہ نافرمانی نے فوجی صدر کے ساتھ ان کے تعلقات کشیدہ کرڈالے۔ انہیں بظاہر کرپشن اور نااہلی کی بنیاد پر برطرف کردیا گیا۔ پاکستان مزید مشکلات کا شکار ہوگیا۔ ماورائے آئین اقدامات کی وجہ سے ماورائے آئین رد عمل پیدا ہوا۔ اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کی صورت میں انتہا پسند عناصر مقامی اپوزیشن کو ہائی جیک کرسکتے ہیں، اس لیئے پاکستان کے قومی مفاد کے لیے صاف اور شفاف انتخابات بہت ضروری ہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی مندرجہ بالا تحریر کے تناظر میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ملک میں پہلے فوجی راج پر جمہوریت کا لیبل لگانے کے لیے جس طرح بنیادی جمہوریت کا ڈرامہ رچا کر صدارتی انتخابات کےلیئے ان کونسلرز پر مشتمل جو الیکٹرول کالج بنایا گیا وہ کسی مذاق سے کم نہیں تھا۔اس کے بعد انتخابی مہم میں صدارتی امیدوار محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ جو رویہ برتا گیا وہ قابل مذمت ہی نہیں بلکہ قابل نفرت ہے۔صدارتی انتخابات ہوگئے اور بالآخر آمریت پر جمہوریت کا لیبل لگ گیا۔وطن عزیز میں یہ جموریت کی پہلی باقاعدہ شکست تھی ۔اس کے بعد طے ہوگیا کہ جب بھی موقع ملا اسی جمہوری لیبل کے ساتھ آمروں کو تخت نشین کیا جائے گا۔
عہد ایوبی کے بعد حالات کی ڈوری ہاتھ سے پھسلی مگر جلد ہی سنبھال لی گئی اور ایک بار پھر جمہوریت سر بازار رسوا کرکے آمریت مسلط کردی گئی ۔آمریت پر جمہوری لیبل کی ضرورت پڑی تو غیر جماعتی انتخابات کرا کے اس لیبل کو بھی مرد مومن مرد حق کے راج سنگھاسن پر چسپاں کردیا گیا۔اس کی سب سے بڑی دلیل موجودہ وزیرداخلہ شیخ رشید کی وہ میڈیا ٹاک ہے جس میں وہ نوازشریف کو طعنہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر چار کی پیداوار ہے اور جنرل جیلانی نے اس کو وزیراعلیٰ بنوایا تھا۔اور میاں نوازشریف نے تاحال اس کی تردید نہیں کی اور تردید آنے تک اس بیان کو ہی ٹھیک سمجھا جائے ۔اس کے بعد مشرف دور کے دو انتخابات تو ماضی قریب کی سیاسی تاریخ ہے اور اس تاریخ کا ایک سیاسی بیان بھی اپنی نوعیت کا تاریخی بیان ہے کہ مشرف کو وردی میں دس بار منتخب کرائیں گے
باامر مجبوری جیسے تیسے کرکے 2008 تا 2018 تک کے دو دور بھگتائے گئے۔ 2018 میں طریقہ کار تھوڑا سا تبدیل ہوا۔ ماضی میں پہلے آمریت آتی تھی پھر جمہوریت کا لیبل لگتا تھا اس بار لیبل پہلے لگایا گیا۔ایک غبارے میں ہوا بھر کر اس پر جمہوریت کی ملمع کاری کی گئی۔اس غبارے کو اونچا اڑانے کے لیے دھونس، جبر کی ہوائیں چلائی گئیں۔ سیاسی جماعتوں کی ٹکٹیں واپس ہوئیں راتوں رات وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو والی بات کہ فوج کی خواہش کو عوام کی خواہش کا نام دیا گیا ۔تاہم اس بار 1997 والی دو تہائی اکثریت دینے والی غلطی نہیں دہرائی گئی بلکہ اس بار حکومت دی گئی تو بہت تھوڑی برتری کے ساتھ کہ جب چاہیں آرام سے بازی پلٹ دیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا 2023 کے عام انتخابات میں یہی کچھ ہوگا۔تو اس کا جواب میری نظرمیں یہی ہے کہ ہاں یہ انتخابات 2018 کا ری پلے ہوں گے اس کی دلیل حالیہ کشمیر کے انتخابات ہیں۔تو دوسرا سوال یہ کہ یہ مسلئہ کب حل ہوگا حقیقی جمہوریت کب آئے گی تو سادہ سا جواب ہے کہ سیاسی لیڈر شپ جمہوریت کی بحالی کے لیئے عملی طورپر نیک نیتی سے جدوجہد کرئے اور باری لینے کے لیے لائن مت لگے۔آمریت کو بھلے ہزاروں الزام دیں مگر حقیقت یہی ہے کہ آمریت کو جمہوریت کا لیبل بھی سیاسی اشرافیہ کے سبب لگتا ہے۔یہ سیاست دان ہی ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ وردی میں بھی منتخب کرائیں گے اور یہ آمر ہی ہوتے ہیں جو اس پر خوش ہوکر کہتے ہیں کہ میری عمر بھی ان کو لگ جائے۔پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کو عوام کا سوچتے ہوئے تاریخ کی ٹھیک سمت میں کھڑا ہونا پڑے گا۔جدوجہد کرنی ہوگی قربانیاں دینی ہوں گی تب جا کے حقیقی جمہوریت حاصل ہوگی۔وگرنہ جمہوریت کا لیبل لگنے کے باوجود آمریت قائم رہتی ہے ۔او راس بات کا بخوبی اندازہ موجودہ جلاوطن ، پابند سلاسل اور عدالتوں میں پیشیاں بھگتاتی سیاسی اشرافیہ کو ضرور ہوچکا ہوگا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...