کسی عمارت کی بنیاد ہی فیصلہ کر دیتی ہے کہ عمارت کیسی بنے گے، کتنی پائدار ہو گی۔ ۔۔۔۔۔ راستے کی سمت ہی تعین کر دیتی ہے کہ قافلہ کہاں جا کر رکے گا۔ ۔۔۔۔ پاکستان کی عمارت کی پائیداری اور اس قافلے کی منزل کا تعین اسی وقت ہو گیا تھا جب برِّصغیر کے مسلمان رہنماوں نے انگریز کی لڑاو اور حکومت کرو کی پالیسی اور اس خطے کی اکثریت کے تعصب کو دیکھ کر "ردِّ عمل" کا راستہ چنا تھا۔ ردِعمل کا راستہ کبھی مثبت نتائج تک نہیں پہنچاتا۔ تاریخی حوالاجات یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہندو اکثریت مسلمانوں سے نفرت کرنے لگی تھی۔ لیکن ردِ عمل میں علیحدگی کا راستہ جن مسلمان رہنماوں نے چنا وہ اس بصیرت کا ثبوت نہیں دے سکے جو ابوالکلام آزاد جیسے رہنماوں میں تھی۔ برِّصغیر کی تمام قوموں کی پرامن بقا فیڈریشن میں تھی۔ قائداعظم بھی یہی چاہتے تھے لیکن ایسا ممکن نہ ہوا۔ اس کے کئی اسباب ہیں لیکن مذہبی شناخت کی بنا پر علیحدہ مملکت کا قیام بالآخر ایسا ہی ملک بنا سکا جو آج ہمارے سامنے ہے۔ مذہبی انتہا پسندوں کا یرغمال، مفاد پرست لٹیروں، سرداروں، جاگیرداروں، سیاستدانوں، فوجی و سول افسر شاہی کی بےپناہ لوٹ مار کا ہدف۔ ۔۔۔۔ اگر تقسیم سے قبل کا ہندوستان اور اس کے رہنماوں کی اکثریت دور اندیشی کا ثبوت دیتی تو برِ صغیر تقسیمِ ہند کے انتہائی خونی فسادات، بنگلہ دیش کے قیام، تین جنگوں، ہتھیاروں کی دوڑ، کشمیر کے رستے ہوئے ناسور اور مسلکی انتہا پسندی کی غارت گری سے محفوظ رہ کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا تھا۔
یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آج بھی پاکستان اگر شہری آزادیوں، انسانی حقوق، اور فلاحی ریاست کے راستے پر گامزن ہونے کا فیصلہ کر لے، مذہبی انتہا پسندی سے نجات کے لیے، آئین میں مناسب تبدیلیاں کرے اور کمال اتاترک کے ترکی کی طرح مذہبی طاقتوں کو کنٹرول میں کرے تو آئیندہ کے بارے میں کچھ مثبت کی توقع کی جا سکتی ہے ۔۔۔۔۔ اگر ۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“