اماوس میں خواب : حسین الحق کا شاہکار
ان دنوں اروندھتی راہے کے ناول کا ذکر سب کی زبان پر ہے .یہ ناول اردو میں بھی ترجمہ ہو کر شایع ہو چکا ہے . ان ناولوں کا ذکر ضرور ہونا چاہیے ، مگر افسوس یہ ہے کہ ہمارے تجزئے اور تبصرے ان دنوں اس طرز کے ہوتے ہیں گویا اس روش کے ناول اردو میں تخلیق ہو ہی نہیں سکتے . احساس کمتری کا یہ عالم ہے ہے کہ ہم انگریزی یا مغرب سے آیے ناولوں کے قصیدے بیان کرتے ہوئے آخر میں اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ صاحب ..اردو کا سفر تو ختم ہوا ..کہاں اردو والے کہاں ارندھتی رائے ..جبکہ ہماری ہی زبان میں عینی آپا بھی ہیں ، عصمت آپا ، عبد اللہ حسین اور ایک سے بڑھ کر ایک لکھنے والے مگر جب تنقید اور تجزیہ کا وقت ہو تو اردو والے کسی تاریک سیارے میں اچھال دئے جاتے ہیں ..جو سماجی و سیاسی بصیرت اور شعور ان کے یہاں ہے ، وہی ہمارے یہاں بھی ہے ..ان کے نظرئے اور ویژن سے ہم کسی بھی معاملے میں کم نہیں .اردو نقاد کا سب سے خوفناک کھیل تھا کہ اس نے ادب کو گروپ میں تقسیم کر دیا ..ایک مخصوص نظرئے کی پیروی کرنے والوں کو بغیر پڑھے بھی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا جبکہ ان سے الگ نظریات کے حامل ناول نگاروں کو نظر انداز کیا گیا .. یہ کھیل پاکستان سے ہندوستان تک جاری ہے ..اس کھیل نے اس صدی میں ہم کو سب سے زیادہ نقصان پہچایا ہے اور اس لئے جن ناولوں پر گفتگو ہونی چاہیے ، ان پر ہم خاموش رہتے ہیں ، جن پر نہیں ہونی چاہیے ، انکے نام ہزاروں صفحات پر مشتمل قصیدے بیان کے جاتے ہیں ..حیف ، بہار اور اتر پردیش کے لکھنے والوں کے درمیاں بھی ایک دیوار ہے .اور یہ دیوار کسی اور نے نہیں ، اردو کے نام نہاد نقاد نے بلند کی ہے ..اور اس حد تک بلند کی ہے کہ بیشتر تو بہاری ادیبوں پر لکھنا ہی نہیں چاہتے .
میں ابھی اماوس کی رات پڑھ کر اٹھا ہوں ، اور کہنا چاہیے ، سیاست کی بد ترین آگ میں جھلسنےوالی خوفناک دنیا کا چہرہ دیکھ رہا ہوں ..ہندوستان کے منظر نامہ سے شروع ہونے والا یہ خواب سیاہ رات کی صورت عالمی نقشے پر پھیل گیا ہے ..پہلی اور دوسری جنگ عظیم کےبطون سے لرزہ دینے والی موت کی سیاست نے جنم لیا ..صرف جاپان میں موت کا تانڈو نہیں رچا گیا ، اسکے خوفناک اثرات سے ایک دنیا کی سیاست متاثر ہوئی ..ہندوستان آزاد ہوا تو جمہوریہ اسلام پاکستان میں بھی مشرقی اور مغربی پاکستان کا زہر اسی وقت سے پھیلنا شروع ہو چکا تھا ..علما ، فوج ، آزاد حکومت ، انتہا پسندی جہاں پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی تھی ، وہیں ہندوستان میں آزادی کی صبح لہو لہو خواب لے کر آیی تھی ..جیسے جیسے وقت گزرا صبح نو کی بشارت کا خواب اماوس کی خوفناک شب میں تبدیل ہوتا گیا .. ہم طبقاتی تقسیم سے گزرے .گروہوں میں ، پھر ذات پات ، پھر اونچ نیچ میں تقسیم ہوئے ..پھر یہ تقسیم اپنی انتہا کو پھچ گیی– معاشرے میں تباہی و بربادی اور اخلاقی پستی کا دور شروع ہوا ..اسکے پس پردہ عالمی سیاست بھی تھی .. ہماری محرومیاں اور کمیاں انسانیت سوز واقعات کو جنم دے رہی تھیں .ناول کے پہلے باب میں مکمل صورت حال کو سمجھنے کے لئے بلیغ اشارے ملتے ہیں اور ان صفحات کو لکھنے کے لئے مغرب سے کویی فرشتہ نہیں اترا بلکہ یہ حسین الحق کا قلم ہے جس نے اردو ناول کو اپنے اسلوب اور اپنے ویژن سے انتہاے کمال تک پہچا دیا — آزادیِ فکر، آزادیِ اظہار، اور انسانی اقدار کی بحالی اور پاسداری کے جذبے نے حسین کے لہجے کو روشن فکر اور مضبوطی دی ہے . ۔انصاف و عمل کے تقاضے پورے ہوتے تو تقسیم کے بعد دونوں ممالک اس طرح لہولہان ، مسائل کی آغوش میں نہ ہوتے ..۔ا قربا پروری،کرپشن ،معاشی اور جرائم کے واقعات دونوں ملکوں میں اپنی انتہا کو پہنچ چکے ہیں –اماوس کا خواب تقسیم کے بطون سے جنما ایک ایسا خواب ہے ، جہاں بدبو دار گوشت کے لوتھڑوں میں سمایے معاشرے کی چیخ نہ صرف ہم سن سکتے ہیں بلکہ برصغیر میں ہونے والی سیاست اور سیاست سے پیدا ہونے والی ہر تبدیلی کو واضح طور پر محسوس بھی کر سکتے ہیں .. ناول میں حسین الحق نے کیی تجربے بھی کیے ، میرے نزدیک یہ تجربے کسی بھی ناول نگار کے لئے چیلنج سے کم نہیں تھے ، لیکن اماوس کی علامت کو بلیغ پیراہے میں بیان کرنے کے لئے یہ تجربے ضروری تھے ..سیاست اور معاشرے کے سیل بلا خیز سے گزرتے ہوئے ، ظلمت شب کی خبر لیتے ہوئے، مستقبل پر کمند ڈالنا کویی بچوں کا کارنامہ نہیں ..یہ وہی کر سکتا ہے ،جس کی عالمی سیاست پر گہری نظر ہو ، جو اپنے شعور و عقیدے کا افق اس حد تک روشن کر سکتا ہو کہ ایک دنیا اس میں سما جائے ..
کھول آنکھ ، زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ ..
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔