بہت سال پہلے تنزیلہ ریاض کا ناول مرگ برگ پڑھا تھاجو کہ سٹیج آرٹسٹ کی زندگی پر لکھا گیا تھا کہ کیسے اچھے سکول میں داخلے سے لیکر مرنے تک اسے معاشرہ تذلیل اوت تضحیک کا نشانہ بناتا ہے۔
یہاں تک کہ اسکی اپنی اولاد اس سے شدید نفرت کرنا شروع ہو جاتی ہے کہ آپ نے یہ پروفیشن کیوں اختیار کیا۔۔حتی کہ اسی کسمپرسی کی حالت میں اسکی وفات ہو جاتی ہے۔۔اور جنازہ، تدفین میں بھی مسائل کھڑے کیے جاتے ہیں۔ناول کے بعد میں شاک کی کیفیت میں رہا کہ ایک سوسائٹی ایک آرٹسٹ کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہے وہ جو آپکے گھٹن زدہ، تعفن زدہ معاشرے کو رہنے کے قابل بناتے ہیں۔
دیکھیں امان اللہ صاحب آپ نے بہت غلط کیا۔
آپ نے اس معاشرے کا تعفن زدہ، کائی زدہ چہرہ اپنی ہنسی سے چھپانے کی کوشش کی۔۔دنیا کو یہ بتلانا چاہا کہ نہیں یہ فن سے محبت کرنے والے زندہ دل لوگ ہیں۔
آپ نے پسے مزدور طبقے کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کا بھی جرم کیا۔۔دیکھیں یہاں ایسا نہیں ہوتا۔
آپ نے غلط شعبہ چن لیا۔۔آپ کرپٹ بیوروکریٹ بنتے ساری عمر کرپشن کرتے۔۔اقربا پروری کرتے۔۔اور یقیناً آپ مرنے پر الحاج کا لقب پا لیتے۔
آپ کرپٹ سیاستدان یا آمر جرنیل بنتے آپکے سب گناہ معاف ہوتے۔۔۔علماء لائن لگا کر آپکا جنازہ پڑھنے کو کھڑے ہوتے۔۔آپ نے ہمت کیسے کی اس معاشرے کا مثبت چہرہ دکھانے کی۔۔ایسا نہیں چل سکتا صاحب۔
ہم تو ایسے ہیں کہ جو سوال اللہ نے آپ سے پوچھنے تھے انکا جواب بھی طے کر کے آپکو اپنے قبرستان میں جگہ دینے سے انکار کر دیا۔۔یہ مولوی جانتے ہیں کون جنت میں جانے والا ہے اور کون جہنم میں۔۔جس معاشرے کے دکھوں پر آپ اپنے فن سے مرہم رکھتے رہے انہیں شک ہے کہ آپ مسلمان بھی ہیں نہیں۔
لیکن کہیں ایک طبقہ ہم جیسا بھی ہے جو آج آپ سے شرمندہ ہے اور نظریں نہیں ملا پا رہا۔۔آپ اپنی ہنسی سے ساری زندگی اس قوم کے زخموں پر مرہم رکھتے رہے اور دیکھیں آپ کے ساتھ کیا کیا گیا ہے۔
امان اللہ صاحب ہم بے بس ہیں! امان اللہ صاحب ہم شرمندہ ہیں!!