تمہید
انسانی معاشرہ کسی بھی قسم کے ظلم و تعدی کا متحمل ہو کر خاک و خون میں لُتھڑا ہو نہیں رہ سکتا لیکن بدقسمتی سے ابتدائے آفرینش سے ہی دنیا کی تاریخ خاک و خون میں لُتھڑی دکھائی دیتی ہے۔
جنگل کا دور
انسان بے لباس اور غیرمتمدن تھا اور جنگلوں میں قیام پذیر تھا تو درلتوں اور پھلوں نیز شکار کے جانوروں ہر لڑائی چھڑ جاتی تھی۔
قبائلی دور
انسان متمدن ہوا خاندانوں اور قبائل کی صورت میں رین سہن اور بودوباش اختیار کی تو حدود و زمین کے جھگڑے جنم لینے لگے۔
سلسلہء انبیاء علیہم السلام
دنیا کو امن و آشتہ اور معاشرہ کو جنت نظیر بنانے کے لیے اللہ نے سلسلہء انبیاء کا آغاز فرماتے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام کو شریعت کے چار بنیادی احکام دے کر مبعوث فرمایا:
* کھانے کے لیے خوراک
* رہنے کے لیے مکان
* اوڑھنے کے لیے کپڑا
* پینے کے لیے صاف پانی
اگر یہ چار اشیا آج بھی کسی معاشرہ کو مکمل طور پر مہیا ہو جائیں تو اس معاشرہ میں امن و آشتی ہیدا ہو جائے۔
مختصر تاریخِ انبیاء
اگر اختصار کے ساتھ اچٹتی نظر سے جائزہ لیا جائے تو کسی نبی سے بھی ظلم کی تعلیم روا دکھائی نہیں دیتی۔ حضرت آدم علیہ السلام، حضرت آدم ثانی یعنی نوح علیہ السلام نے بھی سلامتی کی ہی تعلیم دی اور اپنے ماننے والوں کو دفاعی پوزیشن پر احکام خداوندی بجا لانے کا ہی ارشاد فرمایا اور بچائے وہی گئے جو امن کے خواہاں تھے۔
پھر لوط، شعیب، صالح، ہود اور حضرت موسیٰ علیہ السلام تک سبھی انبیاء نے امن کی ہی تعلیم دی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام
قرآن کریم میں جس نبی کا ایک جلیل القدر نبی کے طور پر ذکر پایا جاتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ کو کما ارسلنا الی فرعون رسولا کہہ کر ان سے تشبیہ دی گئی اس اعتبار سے حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک جلیل القدر نبی ٹھہرے جن پر دس بنیادی احکامِ شریعت نازل ہوئے۔
وہ ایک جری پہلوان تھے اور ان کا جسمانی طاقت میں بھی کوئی مدمقابل مصر میں دکھائی نہیں دیتا جس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے ایک بار ایک لڑائی میں کسی کو مکا مارا اور دشمن وہیں ڈھیر ہو گیا۔ لیکن قرآن کریم کی نصوص صریح سے ثابت ہے کہ انہوں نے بھی قیامِ امن کی خاطر ہجرت کو ترجیح دی اور لڑائی سے پہلو تہی فرمائی۔
ان کے بعد ابن مریم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر آتا ہے جن کی تعلیم عہد نامہ جدید میں لکھی ملتی یے کہ اگر کوئی تیرے داہنے گال پر تھپڑ مارے تو بایاں بھی اس کے آگے کر دے اور اگر کوئی تیرا ہیراہن مانگے تو نیچے والا پیراہن بھی اس کو پیش کر دے
نرمی اور محبت کی یہ تعلیم دی گئی۔ حالانکہ انبیاء علیہم السلام کی خاطر تو زمین و آسمان تہ و بالا کر دینا اللہ تعالی کے لیے کون سا مشکل امر تھا؟
امن کا سفیر حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم
آگے باری آتی ہے امن کے سفیر حضرت اقدس محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی۔
مظالم سے بھرا ہوا رونگٹے کھڑے کر دینے اور روح کو لرزہ بر اندام کر دینے والا تیرہ سالہ مکی دور کبھی کوئی صاحبِ ایمان مسلمان بھلا سکتا ہے؟ شعب ابی طالب میں گزارے تین سال، طائف کی وادی میں برستے ہوئے پتھروں کے نتیجہ میں جسم سے رس رس کر نعلین مبارک میں جمتا ہوا خون عداس نامی نینوا کے باسی کے انگوروں کے باغ میں پناہ لینا اور جبرئیل کا حاضر ہو کر کہنا کہ آج عرش کا خدا بہت غصہ میں ہے اگر آپ کی اجازت ہو تو اہل طائف کو دونوں پہاڑوں کے درمیان پیس کر ہلاک کر دیا جائے؟ لیکن امن کے سفیر اور رحمتِ عالم کے قربان جائیے! سجدے میں گر گئے اور خدا کے حضور عرض کرنے لگے کہ اللہم اھد قومی فانہم لا یعلمون۔ اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے یہ مجھے پہچان نہیں پا رہے۔ کیا اس نبی کے حقیقی امتی دہشت گرد یا جنگ پرست ہو سکتے ہیں؟
خانہ کعبہ کے قریب ابوجہل کا پتھر مار کر آپ کا سر پھاڑ دینا، ابولہب کا آپ کے چہرہ مبارک پر تھپڑ مارنا۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بدلہ لیا؟
خاموشی سے رحمت عالم ہونے کا ثبوت دیتے رہے۔
طاقت کا دور
تیرہ سالہ بہیمانہ مظالم برداشت کرنے کے بعد جب مدینہ کو ہجرت کی تو وہاں اقتدار حاصل ہو گیا۔ اس کے باوجود کوئی انتقامی کارروائی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ محبت، شفقت اور رافت ہی دکھائی دیتی ہے۔ حتی کہ شرارت کرنے والے یہود کے بھی آپ سراپا رحمت نظر آتے ہیں اور انہیں مدینہ بدر کرنے کے علاوہ کوئی سزا نہیں دیتے حالانکہ غداری کی سزا سیدھی سیدھی قتل مقرر تھی۔ وہ یہود قبائل خیبر کی طرف منتقل ہو گئے لیکن اپنی ریشہ دوانیاں نہ چھوڑنے کے باعث جب وبال جان بن گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ نے قیام امن کے لیے ان پر چڑھائی کی۔
اذنِ جہاد
سورہ الحج میں پہلی بار مسلمانوں کو اللہ رب الافواج نے فوج تیار کرنے اور جہاد بالسیف کا اذن عطا کیا۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ترحم اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ کسی پر ظلم کیا جائے۔ چنانچہ آپ نے جہاد بالسیف کے جو قواعد وضع فرمائے ان میں سے چیدہ چیدہ درج ذیل ہیں:
* صرف اس کے ساتھ لڑائی کی جائے جو لڑائی کے لیے ہتھیار اٹھائے اور حملہ آور ہو۔
* بوڑھوں، بچوں، معذور افراد اور ایسی عورتوں کو قتل نہ کیا جائے جن کے پاس ہتھیار نہ ہو اور وہ لڑائی کے میدان میں نہ اترے ہوں۔
* فتح کے بعد جنگی قیدیوں کو قتل نہ جائے۔
* فتح کے بعد املاک کو منہدم نہ کیا جائے۔
* مفتوحہ علاقہ کے درختوں اور فصلوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ وغیرہ وغیرہ
حتی کہ دنیا کی معلوم تاریخ کی سب سے عظیم فتح فتح مکہ سمجھی جاتی ہے جسے نولڈکے اور سر ولیم میور جیسے عظیم مستشرقین نے بالاتفاق تسلیم کیا ہے اور حیرت کا اظہار بھی کیا ہے کہ یہ دنیا کی سب سے پُرامن فتح تھی جس میں کوئی جان قتل نہیں ہوئی اور خون بھی نہیں بہایا گیا حالانکہ دنیا کے فاتحین فتح کا جشن مناتے ہوئے قبیح حرکات کرتے ہیں جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عظیم فاتح کے طور پر جب مکہ میں داخل ہو رہے تھے تو آپ کا سر مبارک عجز و انکسار کی وجہ سے اس قدر جھکا ہوا تھا کہ آپ کی جبین مبارک اونٹ کی کوہان کو جا لگی تھی۔
اس موقع پر ایک سالار نے سینہ تان کے کہا کہ آج کعبة اللہ کی حرمت کا بھی خیال نہیں کیا جائے گا اور خون کی ندیاں بہا دی جائیں گی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں یہ آواز پڑی تو آپؐ نے اس سپہ سالار کو معزول کر کے جھنڈا ان کے بیٹے کو پکڑا دیا اور فرمایا کہ آج ہی تو دراصل کعبة اللہ کی حرمت تا قیامت قائم کرنے کا دن ہے
قارئین محترم!
اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگیں محض علاقوں کو فتح کرنے کے مقصد کی حامل ہوتیں تو اس دن مکہ کی نالیوں میں پانی کی بجائے اہل مکہ کا خون بہہ جاتا اور گلی گلی خون کی ہولی کھیلی جاتی جبکہ آپ نے اعلان فرمایا کہ:
* بلال کے جھنڈے تلے آ جانے والا پناہ میں ہو گا۔
* اپنے گھر کا دروازہ بند کر لینے والا امن میں ہو گا۔
* میرے جھنڈے تلے آ جانے والا بھی امن میں ہو گا۔
* ہتھیار ڈال دینے والا بھی امن میں ہو گا۔
یہاں ایک بھی شرط ایسی نہیں کہ اسلام قبول کرنے والا امن میں ہو گا ایسی کوئی شرط آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں رکھی۔ اور تاریخ کی آنکھ نے دیکھا کہ اس دن ظالم قریش معاف کر دیئے گئے۔
اسلامی غزوات کی حقیقت
پس اسلامی غزوات از غزوہء بدر تا وصال اکبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لمحہ لمحہ گواہ ہے کہ اسلامی جنگیں قیام امن اور ظالم کے خلاف تھیں اور اسلام تلوار کے زور پر نہیں پھیلا بلکہ اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت و محبت اور حسنِ سلوک کی وجہ سے پھیلا۔
دہشت گردی اور اسلام
قارئین محترم!
الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا
کہ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اہنی نعمت تم پر کامل کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند فرمایا ہے۔
اللہ کی ایک صفت سلام یعنی سلامت رہنے والا اور سلامتی عطا کرنے والا ہے۔ ہس اسلام کا مطلب ہی سلامتی اور خیر کا رستہ ہے۔
اسلامی تعلیمات خیر و امن کی داعی ہیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
المسلم من سلم المسلمون من یدہ و لسانہ
کہ حقیقی مسلم وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان کے شر سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں۔
پس وہ لوگ جو اسلام کے نام پر دہشت گردی کو ہوا دیتے اور رواج دیتے ہیں، اسلام انہیں اپنے دائرہء عمل و ایمان سے باہر قرار دیتا ہے۔ وہ مسلمان کیسے یو سکتے ہیں جو سلامتی کی خلاف ورزی کر کے دنیا میں آگ بانٹتے پھرتے ہیں؟
مغرب کی سازش
طاغوتی طاقتیں اسلام پر حملہ آور ہوتیں اور ایسے عناصر کی پشت پناہی کرتی ہیں جو اسلام کو بدنام کرتے ہوئے غیراسلامی رویہ اپناتے ہوئے دنیا کا امن برباد کر کے معاشرہ میں انارکی پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے عناصر کا اسلام سے اور اسلام کا ایسے عناصر سے کوئی تعلق نہیں۔
حرفِ آخر
حرفِ آخر کے طور پر چند اعدادوشمار حقائق کے آئینہ میں قارئین محترم کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جن سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا کہ دہشت گردی کے حوالہ سے اسلام کو بدنام کرنا دراصل طاغوتی طاقتوں کی ہی ایک سازش ہے نہ کہ اسلام کا رویہ ایسا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
* پہلی جنگ عظیم کا محرک کون تھا؟ مسلمان تو نہیں تھے۔
تاریخ کا مطالعہ کرنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ پر لیگ آف نیشنز بنائی گئی لیکن 1932 کے معاشی بحران اور لیگ آف نیشنز کی ناکامی دوسری جنگ عظیم کا سبب بنی۔
*سوچنا پڑے گا کہ دوسری جنگ عظیم کا محرک کون تھا؟ وہ بھی مسلم نہیں تھے۔
* 1939 اور 1945 کے مابین نازیوں نے چھ ملین یہود کا قتل عام کیا تھا مسلمانوں نے نہیں۔
*آسٹریلیا میں بیس ملین قدیم آسٹریلوی باشندوں کےبہیمانہ قتل عام میں مسلمان تو ملوث نہیں تھے۔
*جاپان کی ہنستی بستی آبادیوں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کی اُفتاد کس نے گرائی تھی؟ کیا مسلمان اس میں ملوث تھے؟
*جنوبی امریکہ میں ایک سو ملین سے بھی زائد اور شمالی امریکہ میں پچاس ملین سے بھی زائد انڈیِنز کا بہیمانہ قتل عام مسلمانوں کا قبیح فعل تھا؟
*کون تھا جو ایک صد اٙسی ملین افریقنوں کو ان کے ممالک سے غلام بنا کر پابہ زنجیر امریکہ لایا تھا جن میں سے %88 کو بحرِ اوقیانوس میں پھینک کر یا ویسے قتل کر کے ان کی لاشوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا تھا۔ کیا اس میں مسلمان ملوث تھے؟
قارئین محترم! جس نے ناول The Roots. پڑھا ہو یا اس پر عکس بندی کی جانے والی فلمیں دیکھی ہوں وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ انگریز امریکنوں نے یہ ظلم کیسے توڑے تھے۔
من ہاٹن نیویارک امریکہ کی تعمیرات اور پُرشکوہ عمارات آج اس بات کا ببانگ دہل اعلان کر رہی ہیں کہ ان کی بنیادوں میں ان بے گناہ افریقن غلاموں کی ہڈیاں دفن ہیں جو ان عمارات پر کام کرتے ہوئے گر جاتے تھے اور کراہتے کراہتے کس مپرسی کے عالم میں وہیں مر جاتے تھے اور انگریز ظالم انہیں اٹھانے اور طبی امداد مہیا کرنے کی بجائے اسی حالت میں ان پر کوڑے برساتے کہ یہ کام کرتے کرتے گرا کیوں ہے؟
دیدہ و دل میں کھول رہے ہیں درد کے اوقیانوس
مجبوروں کے ایشیا اور مزدوروں کے روس
تنہائی میں جل اٹھے ہیں یادوں کے فانوس
کوئی بھی سچا مسلمان دہشت گردی کے حق میں قطعاٙٙ نہیں۔
نہ اسلام نے جنگ و جدل کی تعلیم دی ہے۔
اسلام نے تو حتی المقدور عفو و درگزر کی تعلیم دی ہے لیکن کیا یہ منافقت اور انصاف کا دُہرا معیار نہیں کہ اگر کوئی غیرمسلم ایسے کسی فعل شنیع کا مرتکب ہو تو وہ محض ایک جرم کہلائے اور اگر کوئی مسلمان انفرادی طور ہر ملوث ہو تو وہ دہشت گردی کہلائے؟
ہم تو امن کے داعی ہیں اور دنیا میں جنت نظیر معاشرہ کا قیام چاہتے ہیں۔ اس لیے ہم جنگ اور امن میں سے امن کو چُنتے ہیں کیونکہ
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی؟
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لیے اے شریف انسانو!
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے