’’بیٹا،یہ راستہ امن نگر کی طرف جاتا ہے نا؟‘‘
میں برفیلی پہاڑیوں اور پھولوں سے لہلہاتی ہوئی حسین سرسبز وادیوں کے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ ایک نحیف آواز نے مجھے چونکا دیا ۔مڑ کر دیکھا تو ایک باریش بزرگ تھے جن کے سر پر نمازی ٹوپی تھی اور دائیں ہاتھ میں چھڑی ۔ان کے ساتھ ایک آٹھ سالہ بچہ بھی تھا ۔
’’ پتہ نہیں چچا ،میں بھی یہاں مسافر ہوں ۔‘‘
’’یہاں ہم سب مسافر ہی ہیں بیٹا۔پر کون جانے منزل ہماری قسمت میں ہے یا نہیں ۔‘‘بزرگ کے لہجے میں مایوسی در آئی تھی۔
’’ ویسے آپ کو جانا کہاں ہے؟‘‘ میں نے استفسار کیا تو وہ اکتاہٹ بھری نظروں سے مجھے گھورنے لگے۔
’’ امن نگر کا راستہ پوچھا ہے تو امن نگر ہی جاؤں گا نا۔‘‘
’’اس نام کا کوئی شہر دیکھا ہے نہ سنا ہے ،مگر اِس طرف چند قدم کی دوری پر ایک میل کا پتھر ہے ۔شاید اس سے کچھ پتہ چل جائے ۔ مگر کیاآپ کو یقین ہے کہ آپ کو وہیں جانا ہے؟‘‘ اس بار میرے سوال پر بزرگ بھڑک اٹھے۔
’’تمہیں کیا لگتا ہے کہ میرا دماغی توازن ٹھیک نہیں ہے۔70 سال سے امن نگر ڈھونڈ رہا ہوں۔اب جا کر پتہ چلاہے کہ وہ اسی راستے پر ہے ۔پر اللہ جانے منزل ابھی کتنی دور ہے ۔‘‘
مجھے محسوس ہوا کہ بزرگ شاید سچ میں اپنا دماغی توازن کھو بیٹھے ہیں،اس لئے میں نے اُس بچے کی طرف دیکھا جو خاموشی سے ہماری باتیں سن رہا تھا ۔
’’کیا نام ہے بیٹا آپ کا؟ کہاں جانا ہے آپ کو ؟‘‘مگر اس بچے نے کوئی جواب نہیں دیا ۔بس خالی آنکھوں سے مجھے گھورتا رہا ۔
’’اس سے کیا پوچھتے ہو ،میں بتاتا ہوں ۔اس کا نام بھارت ہے اور یہ میرا پوتا ہے۔‘‘
’’ بھارت ! ‘‘ میں نے استعجابیہ لہجے میں کہا۔میری نظریں بزرگ کے سر پر موجود ٹوپی کا جائزہ لینے لگیں ۔ ’’اور آپ کا کیا نام ہے ؟‘‘
’’میرا نام رحیل احمد خان ہے ۔‘‘
اب میرا یقین پختہ ہو رہا تھا کہ یہ واقعی میں ذہنی مریض ہے۔
’’پھر آپ کے پوتے کا نام بھارت ۔۔۔؟
میری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی ان بزرگ نے میری بات کاٹ دی۔
’’وہ اس لئے، کیوں کہ سنا ہے آج کل راستوں کے در ،نام دیکھ کر کھلتے اور بند ہوتے ہیں۔اس لئے میں نے اس کا نام تبدیل کر دیا ۔شاید امید کی کوئی کرن نظر آ جائے اور ہمیں ہماری منزل مل جائے۔‘‘
بزرگ کی بات سن کر میںتھوڑا سٹپٹا سا گیااور ایک بار پھر اس معصوم کی طرف دیکھنے لگااوراس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرنے لگا۔
’’ کچھ کھاؤ گے بیٹے؟تمہیں بھوک لگی ہوگی۔‘‘میرے بیگ میں ڈھیر سارے پھل تھے اوربھارت کا چہرہ بھوک کی شدت کا گلہ کر رہا تھا ، اس لئے میں نے پوچھا ۔ مگرجانے کیوں اُس بچے نے اِس بار بھی کوئی جواب نہیں دیا اورویسی ہی خاموشی سے مجھے تکتا رہا۔
’’ وہ تمہارے کسی سوال کا جواب نہیں دے پائے گا ،کیوں کہ وہ گونگا اور بہرا ہے۔‘‘بزرگ گویا میری الجھن کو بھانپ گئے تھے۔
’’ اوپر والا رحم کا معاملہ کرے ۔‘‘ تاسفانہ لہجے میں ،میں نے کہا ۔
’’مگر تم کون ہو ؟سیاح کے بھیس میں تم کوئی پولیس والے تو نہیں ہو نا۔ کیوں کہ یہاں قدم قدم پر تفتیش کرنے والے پریشان کرتے ہیں۔‘‘
’’ نہیں چچا ، بے فکر رہئے۔ میں کوئی تفتیش کرنے والا نہیںہوں ۔مگر آپ امن نگر کیوں جا رہے ہیں؟‘‘ میں نے ان بزرگ کاڈر کم کرنے کی کوشش کی۔
’’آزادی اور سکون کی تلاش میں بیٹا ۔اپنی زمین کی تلاش میں۔ہماری عمر ریت ہونے کو آگئی ہے مگر ہمیںآج تک اپنی زمین نہیں ملی۔‘‘یہ کہتے ہوئے بزرگ کے چہرے پر کرب کی پرچھائیاں نظر آنے لگیں۔
’’ایسا نہیں ہے چچا۔یہ پہاڑ اور ندیاں،یہ وادیاں ،یہ جنت نظیر دھرتی آپ ہی کی تو ملکیت ہیں ۔‘‘میں نے اپنے اطراف کے دلکش نظاروں پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ۔ ضرور ہیں ۔مگر اب یہ زمین فسادیوں سے بھر گئی ہے ۔یہ زمین ہمارے لئے سکڑتی جا رہی ہے ۔ اپنے ہی گھر میں ہم محصورہو گئے ہیںبیٹا ۔انجانے خوف کے سائے ہمیشہ ہم پر مسلط رہتے ہیں۔شورش برپا کرنے والوں کے مسلسل متعصبانہ رویوں سے ہم ذہنی مریض ہو گئے ہیں ۔ہماری آزادی کے خواب کسی ظالم صیاد کے پنجرے میں قیدہیں۔جنت جیسی اس سرزمین میں ہم جہنم کا احساس کر رہے ہیں۔‘‘ بزرگ کی بات سن کر مجھے یوں لگا جیسے ان کا کلیجہ منہ کو آ رہا ہے ۔8سالہ معصوم ابھی بھی بغل میں کھڑا جذبات سے عاری نظروں سے مجھے گھور رہا تھا ۔
’’آپ کے ساتھ صرف آپ کا پوتا ہے ؟آپ کے خاندان کے دوسرے افراد کہاں ہیں ؟میں نے پوچھا تو بزرگ کے چہرے پراچانک ہولناک سائے لہرانے لگے۔
’’دونوجوان بیٹے اور بہوئیں تھیںبیٹا۔ مگرآزادی کی تلاش میں سارے کھو گئے۔ حریت کے گیت گاتے ہوئے اس دھرتی کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے چلے گئے۔‘‘یہ کہتے ہوئے بزرگ کی آنکھیں آسمان کو گھورنے لگیں۔
’’ وہ کیسے؟‘‘ از راہ ہمدردی میں نے پوچھا ۔جانے کیوں میرا اشتیاق بڑھتا جا رہا تھا ۔
’’ایک رات موت نے ہمارے دروازے پر دستک دی۔ہتھیاروں سے لیس سفاک بھیڑیے اندر داخل ہوئے اور آن کی آن میں دنیا کا سب سے بڑا بوجھ میرے بوڑھے کندھوں پر ڈال دیا ۔پھر ان کی گندی نظریں میری بہوؤں پر پڑیں تو بہوؤں نے اپنے آپ کو کمروں میں قید کر لیا ۔ ماتھے کے آنچل کو گلے میں باندھ لیااورلاج کی چادر کو کفن بنا لیا۔۔۔۔۔‘‘
بزرگ کی باتیں سن کر میری غلط فہمی دور ہونے لگی ۔ یہ بے چارہ تو حالات کا مارالگ رہا تھا۔مجھے اپنی سوچ پر افسوس ہونے لگا۔
’’۔۔۔۔۔اگلے دن اخبار میںمیرے بیٹوں کی لاشوں کی تصویر چھپی ۔اس تصویر میں میرے بیٹوں کے ہاتھوں میں وہی ہتھیار تھے جن سے ان کا سینہ چھلنی کیا گیا تھا ۔میں کہاں جاتا؟کس سے انصاف مانگتا ؟ ظالموں نے سب کچھ لوٹ لیا،میرے پاس زادِراہ تک نہیں ہے ۔بس اللہ کے سہارے گھر سے نکل پڑا ہوں۔میں تو اپنی سانسوں کی طناب بھی توڑ دیتا مگر اس معصوم کی خاطر زندگی کا زہر پی رہا ہوں ۔‘‘
اتنا کہتے کہتے بزرگ پاس کھڑے اپنے پوتے سے لپٹ کر زاروقطار رونے لگے۔
’’یہاںایسے بے شمار پھول تھے بیٹا، جنہیں ان کے اپنے ہی آنگن میں مسل دیا گیا، یتیم بنادیا گیا ۔جانے کب تک ہماری نسلیں درندگی کا نشانہ بنتی رہیں گی۔میرا پورا خاندان میری آنکھوں کے سامنے تباہ ہو گیا ۔ چاہتا ہوں کہ میری زندگی ختم ہونے سے پہلے اِسے امن نگر پہنچا سکوں، اس کے حصے کی زمین اسے دلا سکوں ۔‘‘ بزرگ اپنے پوتے کا ماتھا چومنے لگے ،اس کے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیرنے لگے۔بزرگ کی دلگیر باتیں سن کرمیری روح کانپ اٹھی اور میں دل گرفتہ ہونے لگا۔ میرے آس پاس کا منظر دھواں دھواں ہو رہا تھا ۔گیلا ٹشو ایک طرف پھینکتے ہوئے بھرائی آوازمیں، میں نے پوچھا۔
’’چچا،کیا میں آپ کی کچھ مدد کر سکتا ہوں ؟‘‘
’’سوائے اللہ کے کوئی کچھ نہیں کر سکتا بیٹا۔یہاں کے چنار بھی سال میں ایک بار اپنا رنگ بدلتے ہیں مگر یہاں کے باشندوں کی تقدیر یںجانے کب بدلیں گی۔جانے کب اجڑے ہوئے چمن میں پھر بہاریں دستک دیں گی۔‘‘بزرگ نے پوتے سے الگ ہوتے ہوئے کہا۔
’’ حوصلہ رکھیں چچا۔یہ جگہ خلق خداوندی کی بے نظیر تصویر ہے۔یہاں امن کا پرچم ضرور لہرائے گا،ضروریہ اجڑی ہوئی وادیاں ایک بار پھر زعفران زار ہوں گی۔‘‘میں نے ان کا حوصلہ بڑھانا چاہا۔
’’امید تو یہی ہے بیٹا،مگر ساری دنیاجانتی ہے کہ یہاں کی فضاؤں میں عتاب کے شکار لوگوں کی چیخیں سنائی دیتی ہیں،یہاں کے زعفرانوں سے بھی بارود کی بو آتی ہے۔اگر اپنی جان کی امان چاہتے ہو تو چلے جاؤ بیٹا ۔‘‘بزرگ نے میرے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’تو پھران حالات میں آپ امن نگر کہاں ڈھونڈ رہے ہو؟‘‘میرا اتنا پوچھنا تھا کہ بزرگ کی غمگین آنکھوں میں اچانک چمک اتر آئی۔
’’ کوئی نیا خواب گر ہے جس نے ان خونچکاں منظروں کے درمیان ہمارے خوابوں کو نئی سمت دی ہے ۔ ہماری تاریک زندگیوں میں امن کی ایک نئی صبح کی امید جگائی ہے۔امیدوں کی ایک ایسی امن نگری جہاں کسی کے ساتھ کوئی ظلم اور ناانصافی نہیں ہوگی،کسی ماں کی کوکھ نہیں اجڑے گی۔میں اسی نگر کی تلاش میں نکلا ہوںبیٹااورچاہتا ہوں کہ میری آخری سانس ۔۔۔۔۔‘‘
اس سے پہلے کہ بزرگ اپنی بات مکمل کرتے ،اچانک گولیاںچلنے کی آوازآئی ۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھ پاتا،ایک گولی بزرگ کے سر میں لگی اور وہ بے سدھ ہو کر دھڑام سے زمین پر گرپڑے۔سر سے خون جاری ہوا اور پاس کھڑے بھارت کے چہرے کو لال کر گیا۔ گولیوں کی ترتراہٹ میں کوئی وقفہ نہیں تھا ۔پیچھے سے دو فوجی مسلسل گولیاں برسارہے تھے۔اس اچانک حملے سے میں اتنا بدحواس ہو گیاکہ میرے ماتھے پر پسینہ جمنے لگا اور جسم پر لرزہ سا طاری ہو گیا ۔میںفوراً پیچھے ہٹااور اپنے دونوں ہاتھ اوپر کی طرف کر کے زمین پر بیٹھ گیا۔
خوف و ہراس کے عالم میںبھارت کی ٹانگیںبھی بری طرح کپکپا رہی تھیں۔ ڈرااور سہما ہوا بھارت بھی تیزی سے پیچھے ہٹنے لگا اور اسی کوشش میں اچانک پیٹھ کے بل گر پڑا۔اس کا سرپیچھے موجود میل کے پتھر سے جا ٹکرایا اورپھر اس کے سر سے خون کا فوارہ پھوٹنے لگا۔میں لاچاری کی مورت بنا رہا۔میں حرکت کرنے کی جرأت نہیں کر پا رہا تھا مگربے قابو ہوتے آنسوؤں کو روک نہیں پایا۔خون میں لت پت بھارت تڑپتا رہا اوراس کے سر سے نکلنے والا لہو زمین کو لالہ زار کرتا رہا۔ پھر کچھ دیر بعد اس کی گردن ایک طرف لڑھک گئی۔جس میل کے پتھر کے قریب بھارت کی خون آلودہ لاش پڑی تھی، اس پر لکھا تھا ’امن نگر 370کلو میٹر‘ ۔
کچھ دیر بعدوہ فوجی قریب آئے اور ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا نے لگے ۔ ان کی مکروہ مسکراہٹ سے مجھے خون کی بو آ رہی تھی۔ انہوں نے مجھے فوراً وہاں سے نکل جانے کو کہا۔میں نے بے بسی سے ایک نظر دونوں لاشوں پر ڈالی اور بوجھل قدموں سے چلتا ہوا وہاں سے دور نکل آیا۔
ہوٹل پہنچ کر بھی میری بد حواسی کم نہیں ہوئی ۔سارا دن میں نے اپنے آپ کو کمرے میں قید کر لیا۔ میرے اندر ایک قیامت برپا تھی ۔ ذہن میں بے شمار سوالات کلبلانے لگے۔کیوں انسان کا خون اتنا ارزاں ہو گیا ہے؟کیوں انسان اپنے مفادات کا کشکول بھرنے کے لئے ارضِ وطن کو لہو لہو کر دیتا ہے؟ کیوں اس کے مکینوں سے جینے کا حق چھین لیتا ہے؟ اس خون آشام منظر کو دیکھ کر انسانیت سے میرا اعتماد اٹھ گیا ۔اس دلدوز منظر کویاد کر کے میں پوری رات سو نہیں پایا۔
اگلی صبح چیک آؤٹ کرنے کے لئے ریسپشن تک آیا تو کاؤنٹر پر رکھے اخبار پر نظر پڑی۔ اخبار کی شہ سرخی تھی۔
’’انتہا پسندوں کو ہتھیار فراہم کرنے والا 70 سالہ بوڑھا انکاؤنٹر میں ہلاک‘‘
یہ پڑھ کر بے ساختہ میرے منہ سے نکلا ’ہے رام‘