(Last Updated On: )
امن کا نوبل انعام فلپائن اور روس کے صحافیوں کے نام
نارویجن اکیڈمی آف نوبل پرائز نے سال 2021 کا امن کا انعام فلپائن کی 58 سالہ صحافی ماریا ریسا اور روس کے 60 سالہ صحافی دمترے آندرے وچ کو اظہار رائے کی آزادی کے لیے ان کی جدوجہد پر دینے کا اعلان کیا ہے۔
نوبیل کمیٹی نے کہا ہے کہ یہ دونوں صحافی دنیا بھر کے اُن تمام صحافیوں کے نمائندے ہیں جو آزادی اظہار کے لیے کھڑے ہیں۔
امن کے نوبیل انعام کو حاصل کرنے کے لیے 329 امیدوار میدان میں تھے جن میں سے ان دو شخصیات کو منتخب کیا گیا۔
ماریہ ریسا کو، جو نیوز سائٹ ریپلر کی شریک بانی ہیں، اظہار رائے کی آزادی کے ذریعے ’طاقت کے غلط استعمال کو سامنے لانے، تشدد کے استعمال اور اپنے آبائی ملک فلپائن میں بڑھتی ہوئی آمریت کو بے نقاب کرنے پر سراہا گیا ہے۔
ریپلر پر براہ راست براڈکاسٹ میں ماریہ ریسا نے کہا کہ وہ اس وقت ’شاک‘ میں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ان کی جیت یہ بتاتی ہے کہ ’حقائق کے بغیر کچھ ممکن نہیں ہے۔۔۔ حقائق کے بغیر دنیا کا مطلب ہے سچائی اور بھروسے کے بغیر دنیا۔‘
ریپلر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ ان کے لیے باعث عزت ہے اور وہ حیران بھی ہیں کہ ان کی سی ای او کو انعام ملا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ اس سے بہتر وقت پر نہیں آ سکتا تھا۔ ایسا وقت جب صحافیوں اور سچ پر حملے ہو رہے ہیں اور انھیں کمزور کیا جا رہا ہے۔‘
نوبیل کمیٹی نے کہا کہ ڈمٹری موراتوف، جو ایک آزاد اخبار نووایا گزیٹا کے شریک بانی اور چیف ایڈیٹر ہیں، کئی دہائیوں سے روس میں بڑھتے ہوئے مشکل حالات میں آزادی اظہار کا دفاع کرتے رہے ہیں۔
مشہور ٹیلیگرام چینل پوڈیوم کے ساتھ ایک انٹرویو میں ڈمٹری موراتوف نے کہا کہ ’میں ہنس رہا ہوں۔ مجھے اس کی بالکل توقع نہیں تھی۔ یہ ایک پاگل پن ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ یہ انعام روسی صحافت کے لیے ایک صلہ ہے، جسے اب دبایا جا رہا ہے۔
ڈمٹری کو کریملن کے ترجمان ڈمٹری پیسکوف نے مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ مسلسل اپنے خیالات کے مطابق کام کرتے رہتے ہیں، انھوں نے ان کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا ہے، وہ باصلاحیت ہیں، وہ بہادر ہیں۔‘
امن کا نوبیل انعام ان افراد یا تنظیموں کو دیا جاتا ہے جنھوں نے ’قوموں کے درمیان بھائی جارے کے لیے سب سے زیادہ یا سب سے اچھا کام کیا ہو۔‘
نوبیل کمیٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ‘آزاد اور حقائق پر مبنی صحافت طاقت کے غلط استعمال، جھوٹ اور پراپیگنڈے سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔’
****
تحریر: اسلم ملک
****
تحریر: اسلم ملک