املتاس۔۔۔۔ زرد سہرے والا دلہا!!!
امید کا پھول!!
املتاس کے درخت ہوتے ہیں۔ جن میں زرد مہکتے پھولؤں کے گچھے کے گچھے لٹکتے ہیں کہ پورا درخت لگتا ہے زرد سہرا پہنے ہو۔ پیلے رنگ کے پھول تو گیندے کے پھول کے بھی ہوتے ہیں جو اکثر شادی بیاہ باالخصوص مہندی کی تقریبات اور بسنت کے تہوار پر خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں مگر املتاس کے پھول صرف درختوں پر لٹکتے ہی اچھے لگتے ہیں۔ ان سے بناوٹ، سجاوٹ کا کام نہیں لیا جاتا حالانکہ یہ پھول مقدار میں زیادہ، سائز میں کافی بڑے اور اس کے درخت پر پتے نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔دل کے نہاں خانوں سے آواز آتی ہے اس کی پیلی زلفوں کے نیچے بیٹھ جائیں پھر کب موقع ملے گا؟ پھر خوبصورت منظر، نظارے دل و دماغ کو اور بھی مسخر کر دیتے ہیں۔ دور دور تک اس کے پھولوں کی مسحور کن مہک پھیلی رہتی ہے۔ ایسی خوشبو کہ سبحان اللہ۔۔۔۔ جون کے مہینے میں کہ جب سخت گرمی میں چیل بھی انڈا چھوڑ دے تب اس کے پھول آنکھوں کو تازگی بخشتے ہیں۔ پھر پھلیاں لگتی ہیں جو ایک سے دو فٹ لمبی ہوتی ہیں۔ اسی لئے شاید نیپالی میں اس درخت کو بندر لاٹھی کہا جاتا ہے۔ اور ان پر سخٹ چھلکا ہوتا ہے۔ پکنے پر یہ گہرے برائون بلکہ کتھئی رنگ کی ہو جاتی ہیں۔ جب ہواچلتی ہے تو یہ پھلیاں آپس میں ٹکرا کر تالیاں بجاتی ہیں۔ بالکل چائنیز ووڈن چائم جیسی مدھر آواز۔ یہ پھلیاں دیمک بھگانے کا تاثیر بھی رکھتی ہیں۔ املتاس کی پھلی جو پکنے کے بعد ڈارک براؤن ہو جاتی ہے۔ کسی پنساری سے لے لیں یا کراچی میں تو عام پارکوں میں لگی ہوتی ہے اس کے تقریبا چھ انچ کے ٹکڑے پر جگہ جگہ ہر کمر ے میں رکھ دیجئے مگر پھلی ثابت نہیں بلکہ توڑ کر رکھئے اور ہر سال بعد بدل دیجئے۔ یہ درخت اپنے آس پاس ایک ایسا ماحول بناتا ہے جو زندگی کی نافراموش یاد بن جاتا ہے۔ اس کی پھلیوں کا گودہ مغز خیار شنبر کہلاتا ہے اور بے شمار ادویات میں استعمال ہوتا ہے۔ اکثر لوگ اس کی پھلیاں اکٹھی کر کے پنساریوں کو فروخت کرتے ہیں۔ اس کے پھولوں کا گلقند بھی بنتا ہے۔ لیکن اس کی پھولوں کی خوشبو کی تو بات ہی کیا ہے۔ ایسی بھینی بھینی اور دلفریب مہک ہوتی ہے کہ دل کرتا ہے آنکھیں بند کر کے گہرے گہرے سانس لیتے رہو۔ ولیم ورڈس ورتھ کے ڈیفوڈلس کی طرح اس کے پھول اور خوشبو بھی ہمیشہ کے لئے آپکے ذہن میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔ اس کا پرفیوم بھی دستیاب ہے۔
املتاس کے بے شمار طبی فوائد بھی ہیں۔ تپ دق یا ٹی بی کے مرض میں جدید تحقیقات میں بہت ہی مفید ثابت ہوا ہے۔بھوک اور وزن میں کمی‘لگاتار ہلکا بخار‘بہت جلد تھکاوٹ ہونا‘خصوصا رات کو پسینے میں شرابور ہوجانا ٹی بی کی علامات ہوسکتی ہیں جبکہ مسلسل کئی ہفتوں سے کھانسی جو عام علاج سے درست نہ ہواور کھانسی کے ساتھ خون کا اخراج نیز سینے میں دردوغیرہ جیسی علامات پھیپھڑوں کی ٹی بی کی نشاندہی کرتی ہیں۔طب یونانی میں بھی اس مرض کا موثر علاج موجود ہے اور اس سلسلے میں املتاس کے گودے سے عالمی سطح پر ہربل و جدیدادویات تیار کی جارہی ہیں ۔
املتاس کاسنسکرت نام ارگ وادھا ہےیعنی بیماریوں کو مارنے والااور اس کے اسم بامسمہ ہونے کی گواہی وہ طبی نسخاجات دیتے ہیں جو برصغیر پاک و ہند کے طول و عرض میں صدیوں سےرائج ہیں اور بے شمار امراض میں ان گنت مریضوں کو شفایاب کر چکے ہیں۔ دنیا کے بہت سے جاگے ہوئے ممالک میں ان نسخاجات کی جدید علوم کی روشنی میں نہ صرف توسیق کی جارہی ہے بلکہ ان میں بہتری بھی لائی جا رہی ہے۔ہم بھی نجانے ایسی کتنی ہی ادویات استعمال کر رہے ہونگے جن میں وہ اجزا موجود ہونگے جو املتاس یا ہمارے دوسرے نباتاتی ورثےسے لئے گئے ہونگے۔
ا ملتاس (پھول بھی سبزی بھی)
اس کے پھل کا گودا جلاب کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ورم کو گھلاتا ہے اور کھانسی میں فائدہ دیتا ہے۔ منہ پکنے، حلق سوجنے اور گلے کی نالی کے زخم، خراش اور ورم کیلئے اس کا گودا دودھ میں جوش دے کر اس سے غرارہ کریں۔ بچوں کے اپھارے میں یہ گودا سونف کے عرق میں پیس کر بچے کی ناف کے ارد گرد لیپ کریں۔ فوری تسکین ہو جاتی ہے۔
املتاس کا گلقند
املتاس کے پھول قبض کشا ہیں اور کھانسی کیلئے مفید ہیں۔ پھول صاف کر کے ان سے دگنا وزن شکر ملائیں۔کسی مرتبان(شیشہ کا بند ڈھکنے والا برتن)میں ڈال کر 4 یا 5 دن دھوپ میں رکھیں۔ روزانہ 10 سے 40 گرام تک استعمال کرنے سے ہائی بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے۔ دائمی قبض کیلئے اس کے پھول گوشت میں پکا کر کچھ دن تک کھائیں۔ قبض دور اور آنتوں کا فعل ان شاء اللہ العزیز درست ہو جائے گا۔
ٹانسلز کا علاج:
سیاہ پھلیوں کا گودا ہی ’’مغز املتاس‘‘ کہلاتا ہے۔ اس سے تیار کردہ دوا کو ’’لعوق خیارشنبر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے دو چمچے ایک پیالی گرم پانی میں ملا کر سوتے وقت اور صبح پیئں۔ یہ کھانسی اور قبض میں بھی مفید ہے۔ مغزاملتاس سے غرارے بھی کرائے جاتے ہیں۔