وہ لاہورکاعاشق تھا۔ جب بھی اسے موقع ملتا وہ اپنے اس محبوب سے گلے ملنے ضرورآتا، جمخانہ میں قیام کرتا، دوست احباب سےملتا ،پرانی یادوں کوتازہ کرتا اور خاموشی سے واپس بھارت لوٹ جاتا ۔ وہ دنیا بھر میں گھوما لیکن لاہو کو وہ کبھی نہ بھلا پایا ۔ وہ دنیا میں جہاں بھی گیا لاہوراس کےساتھ ساتھ رہا۔ دنیا کا کون ساایسا شہرتھاجواس نےنہیں دیکھا تھا لیکن لاہورکے مقابلےمیں وہ سارے شہراپنی تمام تر خوبصورتیوں کے باوجود اسے ہیچ اورکم ترنظر آتے تھے۔لاہوراس کی روح کی گہرائیوں میں اترچکا تھا۔ وہ لاہور کےبغیر خود کو نامکمل سمجھتا تھا۔
پران نوئل ابھی پچیس سال کا تھا جب اسے اپنا یہ محبوب شہر چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا تھا۔ وہ شہرجہاں وہ پیدا ہوا تھا، جہاں اس نے تعلیم حاصل کی تھی یکا یک اس کے لئے اجنبی بن گیا تھا ۔یہ بات تو اس کو وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ وہ کبھی لاہور کو چھوڑ سکتا ہے۔ یہ شہرتواس کے آباواجداد کا شہرتھا وہ تواس شہر کی مٹی کا حصہ تھے پھرکیسے ہوسکتا ہے کہ وہ یہ شہرچھوڑجائیں۔ لیکن اگست 1947 میں فرقہ واریت کی جو آگ بھڑکائی گئی تھی اس نےصدیوں پرمحیط انسانی رشتوں کو جلا کر راکھ کردیا تھا۔ نسل درنسل باہم اکٹھے رہنے والوں انسان ایک دوسرے کے قاتل بن گئے تھے۔ دوستوں نے ایک دوسرے کو پہچاننے سے انکار کردیا تھا اورمحلے داروں نے ایک دوسرے کے خلاف ہتھیاراٹھالئے تھے۔ کوئی نہیں تھا جو مذہب کے نام پر بھڑکائی اس آگ کو ٹھنڈاکرتا اورعقل و شعورکا پرچم بلند کرتا ۔ سیاسی جماعتیں اورمذہب اکابرین وحشت کی اس آگ پر نفرت اور مفاد پرستی کا تیل ڈال کراسے مزید بھڑکا رہے تھے۔ پنجابیوں نےایک دوسرے کا خون بہانے اورباہمی قتل وغارت گری کی ساری سرحدیں پار کرلی تھیں
پران نوئل22۔ اکتوبر 1922 کو لاہور کے ایک خوشحال خاندان میں پیدا ہوئے ۔ گورنمنٹ کالج لاہورسے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی لیکن عملی زندگی کا آغاز کرنے سے پہلے ہی ہندوستان تقسیم ہوگیا اورانھیں لاہورچھوڑ کرجانا پڑ گیا۔ بھارت جا کر انھوں نے بھارت کی وزارت خارجہ میں شمولیت اختیار کرلی اوراپنے سفارتی کئیریرکے دوران وہ جاپان، پولینڈ، یوگوسلاویہ،سوویت یونین اورامریکہ میں تعینات رہے تھے۔ فنون لطیفہ اورادب پران نوئل کی دلچسپی کے خصوصی شعبے تھے۔ انھوں نے سات سال پرمحیط تحقیق کے بعد ’ہندوستان کی رقاصائیں‘ کے عنوان سے کتاب لکھی جس میں زمانہ قدیم سے تاحال ہندوستان میں رقص وموسیقی اور رقاصاوں کی تاریخ لکھی تھی۔ انھوں نے اپنے محبوب شہرلاہور کے بار ے : لاہور ایک جذباتی سفر‘ لکھی تھی جس میں پرانے لاہورکی یادوں کو بیان کیا گیا تھا۔ پران نوئل کا خصوصی موضوع برطانوی عہد کا ہندوستان تھا۔
ماضی کے گلوکاروں اور کلاکاروں کے فن سے نئی نسل کو متعارف کرانے کے لئے انھوں نے کے ۔ایل سہگل سرکل کے نام سے ایک تنظیم بنائی ہوئی تھی ۔ انھوں نے کے۔ ایل۔ سہگل کی سوانح عمری بھی لکھی تھی۔ ا ن کی دوسری کتابوں میں ’ پردے کے پیچھے‘،’ برطانوی عہد کی رومانی داستاتیں‘،’ برطانوی عہد کی جھلکیاں‘ شامل ہیں۔ پران نوئل کو فن و ادب پر لیکچردینے کے لئے نہ صرف بھارت بلکہ امریکہ یورپ اوربرطانیہ کی یونیورسٹیوں میں مدعو کیا جاتا تھا۔
لاہور کا یہ نامور سپوت بھرپوراورقابل رشک زندگی گذارنے کے بعد آج 11 ۔اکتوبر کو بھارت کے دارالحکومت دہلی میں اس سفر پر روانہ ہوگیا جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...