(Last Updated On: )علامہ آلوسی (1217-1270ھ)امت مسلمہ کے علماء میں ایک مشہور و معروف مفسر کے طور پر جانے جاتے ہیں،تفسیر روح الامعانی آپ کی مایہ ناز تالیف ہے جسے ایک زمانہ گزرجانے کے باوجود مستندومصدرحقیقی کامقام حاصل ہے۔آپ کا پورااسم مبارک سید محمود آفندی تھا،کنیت ابوالثناتھی لیکن آپ اپنے لقب سے زیادہ مشہورہوئے اور دنیانے آپ کو شہاب الدین آلوسی بغدادی کے نام سے جانا جبکہ”آلوس“ایک گاؤں تھاجوبغداداور ملک شام کے درمیان کے راستے میں ایک مقام پر واقع ہے اور فیصلہ خداوندی کے تحت یہ مقام آپ کی جنم بھونی قرارپایااور اس گاؤں سے نسبت آپ کی وجہ شہرت بنی۔1217ھ آپ کی تاریخ پیدئش ہے جبکہ 25ذوالقعدہ1270ھ کو آپ خالق حقیقی سے جا ملے اس طرح کم و بیش ستاون برس کی کل عمر پائی،بغدادکے ہی تاریخی محلہ ”کرخ“کے مقامی قبرستان میں مدفون ہوئے۔اپناتعارف کراتے ہوئے ایک جگہ خود رقم طرازہیں کہ”میں اللہ تعالی کاشکرگزارہوں کہ مجھے عالی نسب میں پیدافرمایا،میں والدہ محترمہ کی طرف سے سیدناامام حسن ؓ اور والد ماجد کی طرف سے سیدنا امام حسین ؓکی اولاد سے ہوں“۔علامہ آلوسی ؒاپنے زمانے کے بہت بڑے عالم تھے،علم و فضل میں کمال کے باعث دوردرازسے طالبان علم آپ کی طرف مقناطیس کی طرح کھنچے چلے آتے تھے اورایک حلقہ سا ہر وقت آپ کے یمین و یساررہتا تھا۔فقہ و اصول فقہ،تفسیر،حدیث،علم ہیئت اور صرف و نحوپرآپ کو مکمل عبورحاصل تھا۔منقولات و معقولات پرکمال دسترس رکھنے میں آپ کا ثانی کوئی نہیں تھا۔صبح کو اہل علم اور شام کے اوقات میں مطالعہ کی ہم رکابی آپ کا معمول ہواکرتاتھا،ایک شعر آپ کی زبان سے بکثرت سناجاتاتھا کہ”علم کی نوک پلک سنوارنے کے لیے میری بیداری مجھے ایک حسین عورت کی ملاقات سے زیادہ لذیزترہے“۔آپ اپنے زمانے میں علوم القرآن و علوم الحدیث پرمکمل عبور رکھنے والوں میں شمار ہوتے تھے،منطق اور علم الکلام آپ پر ختم تھا اور اسی طرح لغت کے فن میں بھی آپ اپنے زمانہ کی امامت کے منصب پر فائز تھے۔علامہ آلوسی ؒ نے قدرت کی طرف سے بلاکا حافظہ پایا تھااور آپ اکثر کہاکرتے تھے کہ”میں نے اپنے ذہن کو کوئی ایسی امانت سپرد نہیں کی جس میں اس نے خیانت کی ہواور نہ ہی اپنی قوت فکروتدبرکوکسی مشکل کے لیے بلایا اور اس نے میری عقدہ کشائی نہ کی ہو“۔
علامہ آلوسی ؒنے حصول تعلیم کے بعد تیرہ برس کی عمر سے تعلیم و تدریس کا باقائدہ سلسلہ شروع کیا،رات کے ابتدائی حصہ میں طالب علموں کو وقت دیتے اورآخری حصہ میں پڑھناآپ کی عمر بھرکاوطیرہ رہا اور اسی وقت میں ہی آپ نے تفسیری تحقیق بھی سپرد قلم کی۔بہت سے مدارس میں آپ نے معلم کے فرائض سرانجام دیے۔مسلکاََآپ فقہ شافعی سے اپنا تعلق جوڑتے تھے لیکن اکثر معاملات میں احناف کی رائے کو بھی قبول کرلیتے تھے جبکہ آخری عمر میں آپ کا جھکاؤ اجتہاد کی طرف زیادہ ہو گیاتھا۔آپ کے پاس بکثرت طلبہ قیام پزیر رہتے تھے جن کے خوردونوش،رہائش اور قیام و طعام و لباس سمیت جملہ ضروریات آپ اپنی جیب خاص سے برداشت کرتے تھے۔آپ علم و فضل کے باعث عراق کے سرکردہ لوگوں میں سے تھے،آپ احناف کے منصب افتاء پر بھی فائز رہے جوآپ کے تفقہ و تدبرکامستنداقرارتھا۔طبع علمی کے باعث یہ منصب آپ کے مزاج کے موافق نہ تھا چنانچہ بہت جلد مستعفی ہو کر افتاء سے دستکش ہو گئے اور اس کے بعد سے پوری دلجمعی کے ساتھ تفسیر میں ہمہ تن مصروف تر ہوتے چلے گئے۔آپ خود لکھتے ہیں کہ”میں نے 1263میں اپنے عہدے سے استیفی دیااور قرآن پاک کی تفسیر میں مشغول ہوگیا،اس کام کا آغاز میں نے 1252ھ کو بوقت شب کیاتھاجب میری عمر 34برس کی تھی اور یہ سلطان محمود خان بن سلطان عبدالمجیدخان کا زمانہ تھا،تفسیرکااختتام منگل کی شب 4ربیع الاول 1267ھ کو ہوا“۔تفسیرکاکام مکمل ہونے پر آپ اس عظیم الشان کاوش کا نام رکھنے کے بارے میں پریشان تھے،مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ ”وزیراعظم رضاپاشاکے سامنے میں نے اپنی اس مشکل کو پیش کیاتو انہوں نے فی الفور اس کانام”روح المعانی فی تفسیرالقرآن العظیم و سبع مثانی“ تجویزکردیا“۔اس تفسیری کاوش کے علاوہ بھی آپ کی متعدد تصنیفات و تالیفات علماء کے درمیان زندہ رہتی ہیں جن میں کچھ کے نام اس طرح ہیں:
۱۔حاشیہ الفطر:یہ نامکمل تصنیف تھی جسے آپ کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے سیدنعمان آلوسی نے مکمل کیا۔
۲۔شرح المسلم فی منطق
۳۔الاجوبہ العراقیہ
۴۔درۃالغواض فی ادھام الخواص
۵۔النفحات القدسیہ فی المباحث الامامیہ ۱ور
۶۔الفوائد السنیہ فی آداب البحث
علامہ آلوسی ؒکی اصل وجہ شہرت انی تفسیر”روح المعانی فی تفسیرالقرآن العظیم و سبع مثانی“ہی ہے۔یہ تفسیر اپنے فن تفسیرمیں اسلوب الروایہ اور اسلوب الدرایہ کا حسین امتزاج ہے،اسی لیے اس تفسیر کو علماء کے ہاں تفسیر بالرائے المحمودہ کامقام بھی حاصل ہے۔ابتدامیں سورۃ کاتعارف،زمانہ و شان نزول اور اسکی روحانی برکات کا بھی ذکرکرتے ہیں۔ایسی آیات جن میں اللہ تعالی نے احکامات بیان فرمائے ہیں علامہ آلوسی ؒانکی تفسیر میں بہت تفصیل سے کام لیتے ہیں اور اکابر فقہا کی آراء اورانکاموقف پیش کرتے ہیں اور اس موقف کے حق میں یااس کے خلاف دلائل بھی لاتے ہیں۔احکامات سے متعلق آیات کی تفسیر میں آپ کا زیادہ تر جھکاؤ شوافع کی طرف رہتاہے اور کبھی کبھی احناف کے موقف کی بھی تائید کرتے ہیں اور بہت کم مواقع پر آپ نے اپنا جداگانہ موقف بھی اختیار کیا ہے جس سے جہاں آپ کی مجتہدانہ بصیرت کا پتہ چلتاہے وہاں آپ کی حتی الامکان حزم و احتیاط بھی سامنے آتی ہے۔اسرائیلیات سے آپ حتی الوسع پرہیز کرتے ہیں بلکہ ان مفسرین پر حیرانی کااظہار کرتے ہیں جنہوں نے اپنی تفسیر کی بہت بڑی جگہ اسرائیلیات کے لیے میسروفراہم کر دی تھی۔علامہ آلوسی ؒکو چونکہ علم ہیئت پر بھی عبور حاصل تھااس لیے قرآن مجید میں جہاں کہیں اجسام فلکی اوراسرارکائنات کا ذکرہے وہاں آپ کا قلم اس وقت تک کی ہیئتی تحقیقات و مشاہدات کو سمیٹنے لگتاہے۔علامہ آلوسی ؒکے تفسیری اقوال صرف و نحو اور لغت کی بحثوں سے بھرے پڑے ہیں،اگرچہ عام قاری کے لیے یہ اسلوب بعض اوقات بہت ثقالت کا باعث بن جاتاہے لیکن جہاں قانون سازی اور استنباط احکامات کامرحلہ درپیش ہوتاہے وہاں یہ بحثیں بہت سے چھپے ہوئے گوشوں کوبے نقاب کرتی ہیں اور اس کتاب عظیم کی گہرائی اور گیرائی سے طاب علموں کو آگاہ کرتی ہیں۔علامہ آلوسی ؒنے قرآنی آیات کے ظاہری حسن کے ساتھ ساتھ انکے باطنی حسن پر بھی بہت روشنی ڈالی ہے کہیں کہیں تو اس تفصیل کے ساتھ وہ قرآن مجید کے باطن میں ڈوب ڈوب جاتے ہیں کہ انکے صاحب قلم و قرطاس ہونے کی بجائے صاحب نسبت و معرفت ہونے کا گمان غالب آنے لگتاہے۔علامہ آلوسی ؒنے اپنی اس تفسیر میں مسلمانوں میں موجود بعض باطل نظریات وعقائد کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ان اصلاح کی کوشش کی ہے۔
علامہ آلوسی ؒکی اس تفسیر کو بلاتامل گزشتہ بہترین تفاسیر کا خلاصہ کہاجاسکتاہے۔فاضل مفسرنے اپنے تفسیری اقوال میں گزشتہ تفاسیر کے خلاصے کو گویا سمیٹ کر رکھ دیا ہے،مولف نے ابوحیان،کشاف،بیضاوی اور امام رازی ؒ کی تفاسیر سے باقائدہ اقوال نقل کیے ہیں۔ان مفسرین کا ذکر کرتے ہوئے ان کے احترام کو بھی علامہ آلوسی ؒنے ملحوظ خاطر رکھاہے چنانچہ بیضاوی کو ”قاضی“لکھتے ہیں اور فخرالدین رازی کو”امام“کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ان مفسرین کے اقتباسات نقل کرنے کے بعد ان پر آزادانہ بحث کرتے ہیں ان سے اتفاق کرتے ہیں اورکہیں کہیں ان سے اختلاف بھی کرنے لگتے ہیں اور ان اقوال کے درمیان تقابل پیش کر کے ان پر نقد بھی کرتے ہیں جبکہ حسب روایت آخر میں اپنی رائے کے ساتھ بحث کو سمیٹ لیتے ہیں۔
قرآن مجید زندہ کتاب ہے جو تاقیامت اپنی حقانیت کی بنیاد پر زندہ رہے گی،اس کتاب پر قلم اٹھانے والے صدیوں کے بیٹے ہوتے ہیں اور قرآن کی طرح وہ بھی انسانوں کے درمیان زندہ رہتے ہیں۔یہ اعجاز قرآن ہے کہ اتنے بڑے بڑے لوگوں کی تفسیروتشریح کے بعد بھی جب اگلا مفسر قلم اٹھانے لگتاہے تو قرآنی آیات اس کے سامنے بھی اپنے نئے سے نئے رازوں سے پردے ہٹاتی چلی جاتی ہیں۔گزشتہ ڈیڑھ ہزارسالوں سے جاری یہ سلسلہ تاقیامت جاری و ساری رہے گا کہ اس کتاب کے نہ ختم ہونے والے اسرارورموزکھلتے چلے جائیں گے اورخوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کانام اس کتاب کے ساتھ اس دنیاکے درمیان مدرسہ ومکتب میں اورمحراب و ممبر پر لیاجاتاہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ”تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرآن پڑھے اور پڑھائے“۔اللہ کرے کہ علامہ آلوسی ؒکی قبر نور سے بھر جائے اور اس کتاب پر کی ہوئی انکی کاوش بارگاہ ایزدی میں مقبول ہو اور انہیں خاص جوار رحمت میں جگہ عطا ہو،آمین۔