آج – ٥ ؍ جون ؍ ١٨٨٠
ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، سیکڑوں شاگردوں کے استاد، قادر الکلام اور معروف استاد شاعر ” علاّمہ سیمابؔ اکبر آبادی صاحب “ کا یومِ ولادت…
سیمابؔ اکبرآبادی
نام سید عاشق حسین صدیقی، سیمابؔ تخلص۔ ٥ جون ۱۸۸۰ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ کتب متداولۂ عربی وفارسی کی تکمیل کے بعد انگریزی اسکول میں داخل ہوئے۔ ۱۷؍سال کی عمر میں ایف اے کا آخری امتحان ہونے والا تھا کہ ان کے والد انتقال کرگئے۔ مجبوراً انھیں سلسلہ تعلیم ترک کرنا پڑا۔ زمانۂ طالب علمی میں ان کا یہ دستور تھا کہ فارسی نصاب میں جتنے اشعار شریک درس ہوتے تھے ان کا ترجمہ اردو نظم میں کرکے اساتذہ کے سامنے رکھ دیتے تھے۔ بہ سلسلہ معاش کان پور گئے۔ ۱۸۹۸ء میں داغؔ کے شاگرد ہوگئے۔ کچھ عرصہ ریلوے میں ملازم رہے۔ وہاں سے مستعفی ہو کر زبان وادب کی خدمت کے خیال سے آگرہ میں ’’قصرالادب‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ ایک ہفتہ وار پرچہ ’’تاج‘‘ اور ایک ماہ نامہ پرچہ ’’شاعر‘‘ نکالا جس نے ان کی شاعری اور شہرت کو فروغ دیا۔ ان کے سیکڑوں شاگرد تھے۔ یہ ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ قرآن حکیم کا منظوم ترجمہ کیا۔ تقسیم ہند کے بعد سیمابؔ، کراچی آگئے اور یہیں ۳۱؍جنوری ۱۹۵۱ء کو انتقال کرگئے۔ ’’کلیمِ عجم‘‘، ’’سدرۃ المنتہیٰ‘‘، ’’لوحِ محفوظ‘‘، ’’ورائے سدرہ‘‘، ’’کارِ امروز‘‘، ’’ساز و آہنگ‘‘، ’’الہامِ منظوم‘‘ (مثنوی مولانا روم کا منظوم ترجمہ) ’’وحئ منظوم‘‘ (قرآن مجید کا منظوم ترجمہ) ’’عالمِ آشوب‘‘ (رباعیات)، ’’تغیرِ غم‘‘ (سلام ومراثی)، ’’شعرِ انقلاب‘ (انقلابی نظمیں) ان کی تصانیف ہیں۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:286
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
استاد شاعر سیمابؔ اکبر آبادی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ تحسین…
اب وہاں دامن کشی کی فکر دامن گیر ہے
یہ مرے خواب محبت کی نئی تعبیر ہے
—
بت کریں آرزو خدائی کی
شان تیری ہے کبریائی کی
—
پریشاں ہونے والوں کو سکوں کچھ مل بھی جاتا ہے
پریشاں کرنے والوں کی پریشانی نہیں جاتی
—
تجھے دانستہ محفل میں جو دیکھا ہو تو مجرم ہوں
نظر آخر نظر ہے بے ارادہ اٹھ گئی ہوگی
—
تیرے جلووں نے مجھے گھیر لیا ہے اے دوست
اب تو تنہائی کے لمحے بھی حسیں لگتے ہیں
—
چمک جگنو کی برق بے اماں معلوم ہوتی ہے
قفس میں رہ کے قدر آشیاں معلوم ہوتی ہے
—
خدا اور ناخدا مل کر ڈبو دیں یہ تو ممکن ہے
میری وجہ تباہی صرف طوفاں ہو نہیں سکتا
—
خلوص دل سے سجدہ ہو تو اس سجدے کا کیا کہنا
وہیں کعبہ سرک آیا جبیں ہم نے جہاں رکھ دی
—
دل کی بساط کیا تھی نگاہِ جمال میں
اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں
—
دیکھتے رہتے ہیں چھپ چھپ کے مرقع تیرا
کبھی آتی ہے ہوا بھی تو چھپا لیتے ہیں
—
رنگ بھرتے ہیں وفا کا جو تصور میں ترے
تجھ سے اچھی تری تصویر بنا لیتے ہیں
—
سیمابؔ دل حوادثِ دنیا سے بجھ گیا
اب آرزو بھی ترکِ تمنا سے کم نہیں
—
عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
—
منزل ملی مراد ملی مدعا ملا
سب کچھ مجھے ملا جو ترا نقش پا ملا
—
نشاطِ حسن ہو جوشِ وفا ہو یا غمِ عشق
ہمارے دل میں جو آئے وہ آرزو ہو جائے
—
وہ دنیا تھی جہاں تم بند کرتے تھے زباں میری
یہ محشر ہے یہاں سننی پڑے گی داستاں میری
—
کہانی میری رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
—
یہ شراب عشق اے سیمابؔ ہے پینے کی چیز
تند بھی ہے بد مزہ بھی ہے مگر اکسیر ہے
—
اللہ رے شامِ غم مری بے اختیاریاں
اک دل ہے پاس وہ بھی نہیں اختیار میں
سیمابؔ اکبر آبادی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ
آپ علاّمہ سیمابؔ اکبر آبادی کی کتب پنجند۔کام کے اس لنک سے پڑھ سکتے ہیں۔