علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں کمال کا مکالمہ
ہمارے ہاں دو دہائیوں سے ایک نئے رحجان نے جنم لیا ہے۔ صحافت کے میدان سے قابلِ ذکر لوگوں کا سیاست کے میدان میں چلے جانا اور اس کے ساتھ ساتھ متعدد کالم نگاروں کا کسی نہ کسی جماعت کے ساتھ رکنیت لیے بغیر گہرا تعلق قائم کرلینا۔ جبکہ ہمارا معاملہ الٹ ثابت ہوا۔ بلوغت سے پہلے ایکٹوسٹ بنے، ساری جوانی سیاسی عمل اور سیاسی جدوجہد کی نذر کردی۔ جب سیاست میں لیڈری کے مقام پر پہنچے تو سیاسی جماعت کے ڈسپلن سے لاتعلق ہوگئے۔ کیوں؟ ہزاروں نہیں، چند بار لاکھوں کے جلسے سے بھی خطاب کا موقع ملا ، سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد کے جلسے جلوسوں سے خطاب تو روٹین رہا بلکہ ہم سیاسی جدوجہد کے اُن لوگوں میں شامل رہے جو جلسے منعقد یا برپا کرتے۔ ملک کے کونے کونے میں سیاسی میٹنگز منظم اور ایڈریس کیں۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا، کشمیر، کہاں نہیں۔ مگر ایک وقت آیا جب سیاسی جماعت کے ڈسپلن کے بندھنوں کو توڑ ڈالا اور اپنا تمام وقت حروف کو دے دیا، لکھنے سے بھی آگے اشاعت کاری تک۔ اس لیے کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ہزاروں اور لاکھوں کے یہ سیاسی جلسے اس وقت تک انقلاب برپا کرنے سے قاصر رہیں گے، جب تک ان ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں شامل ہونے والوں کو ایک گہری سیاسی فکر سے آگاہی نہیں ہوجاتی۔ یعنی پاکستانی سماج ایک جدید عوامی فکر کا تقاضا کررہا ہے۔ افسوس ہماری سیاست اور سیاسی عمل کا زیادہ تر حصہ فکر سے عاری جبکہ جذبات سے لبریز ہے بلکہ سیاسی تواہم پرستی کا شکار ہے۔ گو لکھنے کا آغاز چڑھتی جوانی سے ہوگیا اور سیاسی عمل وجدوجہد میں ساتھ ساتھ یہ سلسلہ بھی بھرپور طریقے سے جاری تھا، مگر جب لفظوں اور حروف کا مکمل تعلق بنا لیا تو بحیثیت ایکٹوسٹ ہم نے یہ راز پایا کہ اپنی تمام تر توانائیاں صرف اپنے حروف کو سپردِ قلم کرنے تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اس سلسلے کو مزید پھیلا دیا جائے، اسی شعوری فیصلے نے اشاعت کاری میں اپنے آپ کو ضم کردیا۔ کہ خود ہفتے میں دو سے تین کالم اور ٹیلی ویژن سکرین میں دو پروگرام سے بھی زیادہ Contributeکیا جانا ممکن ہے۔ اور یوں ہم نے درحقیقت اشاعت کاری میں اپنی توانائیوں کو صرف کرکے اس کے بطن سے لاکھوں سے زیادہ صفحات جدید اور گہری سیاسی، ادبی، تاریخی ، عالمی امور، حقیقی سیاسی فکر سے جنم دے دئیے۔ چند سالوں سے راقم کے اس نئے سفر کے سبب ایک نئی شناخت ابھری۔ اہل قلم، کالم نگار، تجزیہ نگار اور ایکٹوسٹ کے علاوہ مختلف مذاکروں میں ایک اشاعت کار کی حیثیت سے خیالات کی دعوت میرے لیے یہ موضوع اب گہری دلچسپی کا باعث بن گیا ہے۔ اس لیے کہ اشاعت کاری کے میدان میں مکمل طور پر اتر کر معلوم ہوا کہ ہمارے ہاں کون سا Contentشائع ہورہا ہے۔
اسی سلسلے میں چند روز قبل اسلام آباد میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب ڈاکٹر شاہد صدیقی نے اپنی نگرانی اور اپنے ادارے کے دیگر سٹاف کے ساتھ مل کر ایک شان دارا ور بے مثال ادبی میلہ برپا کیا۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی نے جب سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا چارج سنبھالا ہے، یہ ادارہ پاکستان میں اس امید کو تقویت دینے کا سبب بن گیا ہے کہ اگر وژن میں وسعت اور ذات کی نفی کی جائے تو پاکستان بدل سکتا ہے۔ جیسے انہوں نے اپنے وژن اور ذات کی نفی سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو بدل کر رکھ دیا۔ تین لاکھ سے زائد لوگوں کو علم سے فیض یاب کرتی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اب ڈاکٹر شاہد صدیقی کے اس وژن کی کامیابی کی ایک مثال ہے جس کی بنیاد اس یونیورسٹی کے بانی سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی۔ علمی اور انتظامی حوالے سے اب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی پاکستان میں ایک خوش کن مثال بن چکی ہے۔ راقم اُن کے قلم کا مداح تو تھا ہی، اب ان کی انتظامی صلاحیتوں اور ایک ماہرتعلیم کے طور پر بھی مداح ہونے پر مجبور ہوگیا ہوں۔ انہوں نے اس ادبی میلے میں ایک ایسی نشست بعنوان ’’ادب کی اشاعت، مسائل اور امکانات‘‘ کا اہتمام کیا جو میری سیاحت، دانش سے ہوتے ہوئے میری اشاعت کاری کے سفر سے متعلق تھی۔ اس مذاکرے میں وہ ایک سامع کے طور پر میرے سامنے بیٹھے تھے۔ ہم سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں اُن کے سربراہوں کو کلونیل روایات کے مطابق زیادہ تر افسرانہ انداز میں دیکھتے ہیں۔ مگر یہاں معاملہ ایسا نہیں تھا۔ ایک دانشور کی حیثیت سے اُن کا اس مذاکرے میں شامل ہونا، اُن کی وسعت ِعلم کی گواہی تھی۔ راقم کو اس سیشن کا ماڈریٹر اور ایک حوالے سے Key note speaker کے طور پر چنا گیا تھا۔
پینل میں نیشنل بُک فائونڈیشن کے سربراہ جناب ڈاکٹر انعام الحق جاوید، سنگ میل کے جناب افضال احمد اور جہلم بُک کارنر کے گگن شاہد تھے۔ میرے لیے یہ موضوع متعدد حوالوں سے اہم ہے۔ کتابوں کے Contentسے لے کر اشاعت کار کی ذمہ داری و قانونی حقوق اور اسی طرح قلم کار کی ذمہ داریاں اور اُن کی تحریروں کے معیار اور قانونی حقوق۔ اور اسی کے ساتھ کتابوں کی لوگوں تک رسائی کے کتب فروشوں تک، اور سب سے اہم کتاب پڑھنے والوں کے لیے کتاب لکھنے، شائع کرنے اور فروخت کرنے تک کے عمل میں Facilitators کا کردار۔ اس مذاکرے میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید اور جناب افضال احمد نے کتابوں کی اشاعت اور اس کی فروخت کے حوالے سے بہت اہم نکات اٹھائے۔ جبکہ راقم نے ان احباب کی طرف سے اٹھائے نکات کے ساتھ ساتھ Content کے عالمی معیار اور اہل قلم کے حقوق اور اس کے کتابوں کو شائع کرنے والے یعنی پبلشر کے ساتھ تعلقات پر تفصیل سے گفتگو کی۔
پاکستان جیسے نیم تعلیم یافتہ معاشرے میں Contentکا معیار کیسا ہوگا، اس کو سمجھنے کے لیے زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن ہم نے اشاعت کاری کے میدان میں آکر یہ دیکھا کہ ہمارے ہاں پبلشرز لکھاری تعلقات شک وشبے بلکہ Enmity کی بنیاد پر کھڑے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ تصور عام ہے کہ پبلشر ، لکھاریوں کا استحصال کرتے ہیں۔ ایسا ممکن ہے، مگر مکمل طور پر درست نہیں۔ اگر کوئی کسی کے استحصال کا خیال نہیں کرتا تو وہ کتاب پڑھنے والے ہیں۔ راقم نے اس مذاکرے میں یہ بھی عرض کیا کہ بڑے سے بڑا لکھاری، جس کی کتابیں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں، وہ بھی اپنی رائلٹی کے بَل پر زندگی نہیں گزار سکتا۔ حتیٰ کہ مکمل تعلیم یافتہ معاشروں میں بھی۔ اور اسی طرح ہر لکھنے والے کی تحریر حرفِ آخر اور قابل اشاعت نہیں ٹھہرائی جاسکتی۔
کتاب کی اشاعت کے حوالے سے میں نے اس مذاکرے میں اہل قلم کے سامنے یہ عرض کی اور اب اس کالم کے ذریعے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اہل قلم کو پاکستان پبلشنگ ایکٹ پڑھ لینا چاہیے جس میں لکھاری اور پبلشر دونوں کے حقوق اور ذمہ داریاں لکھی ہیں۔ عالمی سطح پر اشاعت کاری کی تعریف اور لکھاری کی تعریف کا تعین ہوچکا ہے۔ اس کے مطابق ایک شخص اپنی تحریر کو جب صفحات پر منتقل کرتا ہے تو وہ مسودہ ہے کتاب نہیں۔ اس کو کتاب کی صورت میں ڈھالنے کے لیے Publishersکے Institutes میں جانا پڑتا ہے، یعنی مسودے کا Intellectual Status اسے شائع کرنے کے بعد بنتا ہے، یعنی کسی بھی تحریر کا کتاب کی طور پر جنم پبلشنگ کے ادارے کی ہی مرہونِ منت ہے۔ اس لیے قانون جب کسی کتاب کو اپنی گرفت میں لیتا ہے تو وہ مصنف کے برابر اشاعت کار کو بھی اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ پبلشر کا کردار ایک ایڈیٹر کا بھی ہوتا ہے۔ اس قانون کے تحت وہ کسی مصنف کی تحریر کو ایڈٹ کرنے کا بھی اختیار رکھتا ہے۔ جیسے زیرمطالعہ کالم اس وقت کالم ٹھہرا، جب روزنامہ نئی بات کے ادارے کے اندر باقاعدہ ایک پراسیس کے ذریعے مختلف ہاتھوں اور ایڈیٹر کے حتمی دستخط سے ہوکر شائع ہوا۔ ہمارے ہاں متعدد لوگ کتاب کو چھاپنا پبلشنگ قرار دیتے ہیں۔ اسی لیے میں عرض کرتا چلا آرہا ہوں کہ پرنٹنگ اور پبلشنگ دومکمل طور پر الگ شعبے ہیں۔ پمفلٹ، رسالہ، اخبار اور کتاب چاروں پریس میں چھپتے ہیں مگر یہ چاروں چیزیں بہت مختلف حیثیت اور معانی رکھتی ہیں۔
ہاں، یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں زیادہ تر پبلشرز ، کتابوں کے پبلشر کی تعریف کے زمرے میں نہیں آتے، وہ بس Contentچھاپتے اور فروخت کرتے ہیں۔ ایک نیم پرنٹرز کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی لیے لوگوں تک غیرمعیاری کتابیں پہنچتی ہیں۔ اگر وہ پبلشنگ کرتے ہوئے ایک پائے کا ایڈیٹر نہیں تو وہ ہر وہ تحریر چھاپ دے گا جو اس کو کاروبار دے گی۔ اس کا ایسا تعلق دانش اور علم سے نہیں۔ ہمارے اکثریتی پبلشر نیم پڑھے لکھے بلکہ اَن پڑھ ہیں۔ اُن کا مطمع نظر کاروبار ہے، Content نہیں۔ اسی لیے ہم جنہیں کتابیں کہتے ہیں، وہ کتابیں نہیں۔ اگر کسی اخبار کا ایڈیٹر نہ ہو اور اس کا کوئی ایڈیٹوریل بورڈ نہ ہو تو تصور کریں کہ اخباراور اس کا ادارتی صفحہ کیسا ہوگا۔۔۔ اسی طرح جن پبلشنگ اداروں میں ایڈیٹوریل بورڈ کا نظام نہیں، وہ ویسی ہی کتابیں شائع کرتے ہیں جیسی زیادہ تر ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں۔ کتاب کا معیار اس کے کاغذ، پرنٹنگ اور جِلدسازی کے معیار کے ساتھ ساتھ اس کے معیاری Contentپر بھی منحصر ہے جو کہ ہمارے ہاں نہایت کم ہے۔ ہمارا لکھاری کیا لکھ رہا ہے یا یہ عرض کروں کہ کیا لکھ سکتا ہے، اس کا اندازہ آپ خود ہی کرلیں۔ اور اسی طرح شائع کرنے والا پبلشر اور پھر تصور کریں کہ جو لوگ ان کتابوں کو پڑھتے ہیں، اُن کا دماغ کیسے اور کس قدر علم، ادب، فلسفے اور فکر سے آشنا ہورہے ہیں۔ میں اس راز کو جاننے میں کامیاب ہوا ہوں کہ ہمارے سماج کا مسئلہ سیاسی بحران نہیں بلکہ فکر اور دانش کا بحران ہے۔ اس حوالے سے کہنے کو بہت کچھ ہے مگر آئندہ کسی کالم میں۔ برطانیہ کے دو بڑے پبلشرز جن کی کتابیں دنیا میں دھوم مچاتی ہیں، ذرا اُن کے بورڈ میں شامل لوگوں کا پس منظر پڑھیں۔ پلوٹو بُکس اورورسو، تو پھر معلوم ہوگا کہ ایک پبلشر کا معیار کیا ہے۔ یہ پبلشر ہی ہے جو لکھاری کا بھی معیار جانچتا ہے، بحیثیت ایک ایڈیٹر کے۔ راقم نے جب اشاعت کاری میں Contribute کرنے کا آغاز کیا تو شروع میں دیگر دکان دار پس منظر والے بڑے بڑے پبلشرز کو دیکھ کر شرمندگی ہوتی لیکن ایک روز کسی تحریر میں معروف دانشور برٹرینڈ رسل کا یہ جملہ پڑھا کہ ’’دنیا کے بڑے کاموں میں ایک بڑا کام کتابیں شائع کرنا ہے‘‘ تو ایسا حوصلہ ملا کہ اب چارسو ہماری اشاعت کاری کے چرچے ہیں۔ اس دوران سب سے اہم کام Contentکا معیاری ہونا سرفہرست تھا۔ لکھاری کے حقوق تو اخلاقاً اور قانوناً لازم ہیں۔ اس دوران راقم نے پڑھنے والوں کے حقوق کو اوّلین ترجیح دی کہ اس تک شان دار Contentپہنچایا جائے۔
“