علامہ اقبالؔ کی شاعری میں دریاؤں کا تذکرہ
علامہ اقبالؔ اردو شاعری کے ایک ایسے شاعر ہیں جن کے افکار ونظریات کو سرسری طور پر بیان کرکے گزر جانا بہت ہی مشکل ہے اردو شاعری میں جہاں انکا نظریہء خودی اور فلسفہء عشق سب سے زیادہ مقبول ہوا اور سب سے زیادہ ان نظریات پر بات کی گئی۔وہیں انکا فلسفہء حسن،فلسفہء جہد وعمل،فلسفہء فطرت،پر اب تک کئی دستاویزی مضامین اور کتابیں آچکی ہیں۔جس کے متعلق سید عبداللہ،خلیفہ عبدالحکیم،عبدالسلام ندوی،فرمان فتحپوری سے لے کر موجودہ عہد کے اہم نقاد اور ماہرِ اقبالیات میں مثلاًپروفیسر جگن ناتھ آزاد،مضطرمجازؔ اور پروفیسر عبدالحق وغیرہ کے نام بھی لئے جاسکتے ہیں۔علامہ اقبالؔ نے حسن وعشق کے ساتھ اپنی شاعری میں جس حسین طور پر فطرت کی عکاسی کی ہے۔اسکی مثال بہت کم ملتی ہے۔زمان ومکان کا فلسفہ علامہ اقبالؔ کے کئی نظموں میں پایا جاتا ہے۔فلسفہء وقت جیسا کہ مشہور ہے مثل مسجد قرطبہ جیسی نظم فلسفہء وقت پر لکھی گئی ہے۔وہی زمان کے ساتھ مکانا ت میں خصوصیت کے ساتھ ن نظر آتا ہے چاہے وہ شہرِبغداد ہو یا ہسپانیہ ہو(اسپین) کا شہر ہو یا ایران کے مشہور شہر اس سے بھی زیادہ مخصوص ہو کر اپنی شاعری میں مخصوص پہاڑوں اور دریاؤں کا ذکر اپنی شاعری میں کیا ہے۔پہاڑ جہاں عظم استقلال اور بلند حوصلگی کی مثال ہوتے ہیں وہی ندیاں مستقل اپنے سفر کی جانب گامزن حرکت اور بے نیازی کی مثال ہے۔جیسا کہ بالِ جبرئیل کے ساقی نامہ میں ایک پہاڑی ندی کا حسین نقشہ کھینچتے ہیں ۔
وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی
اٹکتی لچکتی سرکتی ہوئی
اچھلتی پھسلتی سنبھلتی ہوئی
بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی
رُکے جب تو سیل چیر دیتی ہے یہ
پہاڑوں کے دل چیردیتی ہے یہ
ذرا دیکھ اے ساقی لالہ فام
سناتی ہے یہ زندگی کا پیام
اس کے علاوہ شاعر جیسی نظم میں وہ جو نقسہ کھینچتے ہیں ندی کا اُس سے شاعر کے منصب اور اس سے بلند مقام کا پیغام دیا جاتا ہے۔جہاں ندی کے خیال آفرینی اور مسرت بخش نقشہ ہماری آنکھوں کے سامنے کھینچ جاتا ہے۔وہی ہماری تخیل کی دنیا میں بڑی ہلچل پیدا ہوجاتی ہے۔اس نظم کا ایک بند ملا حظہ ہو۔
؎ مست مئے خرام کا سن تو ذرا پیام تو
زندہ وہی ہے کام کچھ جسکونہیں قرار سے
پھرتی ہے وادیوں میں کیا دختر خوش خرام ابر
کرتی ہے عشق بازیاں شبزہ،مرغزار سے
اس نظم میں جو تصویر ابھرتی ہے اُسکی عکاسی کچھ اسطرح کی جاسکتی ہے کہ سرمستی کے عالم میں پہاڑ سے ایک ندی جھومتی جھامتی ایسے اتر رہی ہے گویا وہ میکدے سے ابھی ابھی شراب پی کر نکل رہی ہے یہ ابر کی خوش خرام بیٹی ہے کہ بے پرواہی سے وادیوں میں بڑے ناز سے ٹہلتی پھر رہی ہے گویا عشق بازیاں کر رہی ہے۔کبھی کبھی اُسکے گلے لگ جاتی ہے کبھی اس سے بچ کر نکل جاتی ہے کبھی شرارت سوجھتی ہے تو پیرِ مغاں (آتش پرستوں کا پیشوا)سے آنکھ بچا کر شراب اُڑا لیتی ہے اور کھیتوں کو جاکر پلاتی ہے اور کھیتیاں مست میں لہلہا اُٹھتی ہے۔گویاایک الھڑ دوشیزہ کی عمدہ تصویریں الغرض فطرت کی ایسی حسین عکاسی ندی سے متعلق اُ نکی شاعری میں کئی جگہ نظر آتی ہے یہی نہیں بلکہ انھوں نے ندی سے فلسفہء موت اور زندگی کی بھی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے۔جسکا ذکر نظم فلسفہء غم میں اقبالؔکرتے ہیں۔اس نہر کو نہررواں زندگی سے مشابے قراردے کر راز ہائے حیات کو سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ندی کے ساتھ اقبالؔ کے تخیل میں موج کے تصور سے بڑی ہلچل پیدا کی گئی ہے۔موج میں وہ انسان اور اسکی انفرادیت کا عکاس دیکھتے ہیں۔موج پانی کی وسیع بہاؤ سے بلند ہوکر اپنی زندگی اور انفرادیت کا جو ثبوت پیش کرتی ہے اُسکو پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اقبالؔ کو موج کی اس کیفیت سے بڑی آسودگی نصیب ہوتی ہے۔موجِ دریا میں موج اور انسانی زندگی کی اسی مماثلت کی تشریح ملتی ہے۔
؎مضطرب رکھتا ہے میرا دلِ بے تاب مجھے
عین ہستی سے تڑپ صورتِ سیماب مجھے
ہوں وہ رہرو کہ محبت ہے مجھے منزل سے
کیوں تڑپتی ہوں یہ پوچھے کوئی میرے دل سے
زحمتِ تنگیٔ دریا سے گریزاں ہوں میں!!
وسعتِ بحر کی فرقت میں پریشاں ہوں میں
الغرض اقبالؔ نے پانی سے متعلق فطرت کی عکاسی چاہے وہ ندی ہو،جھرنا ہو،آبشار ہو،ساحل ہو،موج ہو،یاروانیِ آب ہو بہت خوب صورت انداز میں کرتے ہیں ۔اب تک مطلقاًفطرت کا ذکر تھا لیکن جن مخصوص فطرت کے متعلق ذکر کیا تھا اُسکا ذکر اب شروع کرتے ہیں۔انکی شاعری میں سب سے پہلے اقبالؔ کی کلیات میں دجلہ کا ذکر چار مقامات پر ہے۔
۱۔ ترانہء ملی ۲۔ مسجدِ قرطبہ ۳۔ ذوق وشوق اور ۴۔ جاوید کے نوائے طاہرہ ۔
۱) دریائے دجلہ:
عراق کا ایک دریا جو کردستان کی پہاڑیوں سے نکل کر عراق کے میدان کو سیراب کرتا ہوا دریائے فرات کے ساتھ آملتا ہے۔ان دونوں دریاؤں کے مجموعی دھارے کو شط العرب(عرب کاحصہ) کہتے ہیں۔یہ دریا بغداد تک’’یعنی ۵۰میل‘‘جہاز رانی کے مقابل ہے۔اس کے کنارے نینوا اور دیگر قدیم شہروں کے آثار پائے جاتے ہیں اور کوٹ عمارہ،بغداد،سامرا اورموصل کے شہر آباد ہیں۔دریا میں تقریباً ہر سال طغیانی آجاتی ہے جس سے گردونواح کا علاقہ سیراب ہوتا ہے اور یہاں کی زرحیزی اسی دریا کی بدولت ہے۔
یاد رہے کہ ترانہء ملی سے پہلے ہندوستانی بچوں کا گیت سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا وہ لکھ چکے تھے،جہاں وہ اپنا مرکز ومسکن ہندوستان کو ہی قرار دیتے ہیں اور ہندوستان کی تاریخ میں رطب اللسان (شیریں زبان )پھر وہ ترانہء ملی کے نام سے ایک نظم لکھتے ہیں اور پورے مسلمانوں کا گھر پوری دنیا کو قرار دیتے ہیں۔وہیں پر لکھتے ہیں کہ
؎اے موجِ دجلہ!تو بھی پہچانتی ہے ہم کو
اب تک ہے تیرا دریا افسانہ خواں ہمارا
اے دریائے دجلہ کی لہر!تو بھی ہمیں پہچانتی ہے۔تیرا دریا اب تک ہمارے قصے سنا رہا ہے۔یہی دریا ہے جس کے دونوں کناروں پر ہم نے بغداد جیسا نادر روزگار شہر تعمیر کیاجو کچھ ایشیا کی سب سے بڑی سلطنت کا مرکز تھا،جس کے ہر محلے میں علم وتہذیب کی نہریں بہتی تھیںبغداد کی عظمت کے نشان مٹگئے،لیکن دجلہ کی روانی کو وہ عظمت کبھی فراموش نہیں ہوسکتی۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے اندلسؔ اور بغداد میں عظیم الشان حکومتیں قائم کیں اور دنیا کو علوم وفنون اور تہذیب وتمدن کی دولت سے مالا مال کردیا۔
دوسری جگہ دجلہ کا ذکر مسجدِ قرطبہ میں کرتے ہیں ۔ہسپانیہ( اسپین) کے اموی خلیفہ عبدالرحٰمن نے اس مسجد کی بنیاد آٹھویں صدی عیسوی کے آخر میں رکھی تھی۔اسکی تعمیر میں مشرق ومغرب کی تمدنی میراث کو نہایت خوبی وسلیقے سے استعمال کیا گیا ہے۔اس انتہائی مضبوط اور خوبصورت مسجد کے اکیس دروازے اور کئی ستون ہیں اقبال دریائے دجلہ کے متعلق مسجدِ قرطبہ میں یوں کہتے ہیں کہ
؎اس کی زمیں بے حدود،اس کا افق بے ثغور
اس کے سمندر کی موج،دجلہ ودینیوب ونیل
اسلامی وطن کی کوئی حد نہیں روئے زمین کا ہر ٹکڑا اور ہر گوشہ مسلمان کا وطن ہے۔اس کا افق حد بندی سے بے نیاز ہے۔دریائے دجلہ،دریائے دینیوب اور دریائے نیل اسی کے سمندر کی لہریں ہیں۔
مراد یہ ہے کہ مسلمان عرب سے نکلے تو ساری دنیا پر چھا گئے۔کوئی گوشہ ایسا نہ رہا جہاں ان کی تعلیمات حقہ کے اثرات کسی نہ کسی شکل میں نہ پہنچے ہوں۔دجلہ،دینیوب اور نیل کا ذکر تو سرسری طور پر کردیا۔ایشیا،یورپ اور افریقہ کا کونسا قابل ذکر دریا ہے،کس نے اسلامی سمندر میں لہر کی حیثیت اختیار نہ کی ہو!بیشک آج ان کی وہ شان جلال باقی نہیں،لیکن کیوں سمجھ لیا جائے کہ وہ اپنے دین کی تعلیمات حقہ کا سہارا لے ۔پھر پہلے درجے پرنہیں پہنچ سکتے؟
مسلمان قوم کسی خاص خطہ ارض میں محصور نہیں ہے بلکہ ساری دنیا اس کا وطن ہے نہ اسکی زمین کی کوئی حد ہے اور نہ اس کے آسمان کی کوئی نیابت ہے اسکی حکومت دریائے دجلہ سے لے کر دریائے دینیوب اور دریائے نیل تک وسیع وعریض رہ چکی ہے۔
اس مصرعہ میں سلطنت عثمانیہ کی وسعت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ سلطان سلیمان اعظم کے زمانہ میں یہ تینوں دریا سلطنت عثمانیہ میں شامل تھے دریائے دجلہ عراق میں ہے دریائے دینیوب وسط یورپ میں اور دریائے نیل مصر میں ہے۔
تیسری مرتبہ بالِ جبرئیل کے ذوق وشوق میں دجلہ کا ذکر آتا ہے جیسا کہ اقبال نے اس نظم کے بارے میں خود لکھا ہے کہ اس نظم کے اکثر شعر فلسطین میں کہے گئے تھے۔جہاں وہ دسمبر ۱۹۳۱ء میں عالمی مسلم کانگریس میں شرکت کے لئے گئے تھے۔کم وبیش آٹھ دن بیت المقدس میں رہے۔کانگریس کے جلسوں میں شرکت کی۔فلسطین کے بعض مقدس اور مشہور مقامات بھی دیکھے خود بھی بیت المقدس میں حرم کے علاوہ بعض دوسرے تاریخی مقامات بھی دیکھے یہ نظم دراصل حضرت رسول اکرم صلعم کے عشق میںلکھی گئی ہے۔اقبالؔ نے ذوق وشوق میں دریائے دجلہ اور دریائے فرات کا ذکر کچھ اسطرح کیا ہے۔ ؎
قافلہء حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ وفرات
حجاز کے قافلہ کو دیکھو،اس میں ایک بھی حسینؓ نظر نہیں آتا جو استبداد اور مطلق العنانی کے خلاف بے باکانہ کھڑا ہوجائے،اپنا سر کٹوادے،لیکن راہ حق سے ادھر اُدھر نہ ہو۔دوسری طرف دیکھو کہ دجلہ اورفرات کے گیسوؤں میں ابھی تک پیچ وخم باقی ہیں۔دجلہ وفرات کا ذکر اس لئے کیا کہ حضرت امام حسینؓ کی جنگ فرات کے کنارے ہوئی تھی۔اقبال کی مراد یہ ہے کہ استبداد اور مطلق العنانی کی شان وشوکت اور رعنائی میںابھی تک فرق نہیں آیا۔اس شان وشوکت اور رعنائی کو توڑنے کے لئے امام حسینؓ جیسے مجاہد حق کی ضرورت ہے،جو اپنے عہد میں قافلہ حجاز کا سالار تھا۔آہ!کہ اب اس قافلہ میں ویسی شخصیت ایک بھی نہیں آتی۔
کس قدر افسوس کامقام ہے کہ کفر اپنی پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہے لیکن اسکا مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں میں کوئی شخص امام حسینؓ کے نقش قدم پر چلنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
۲)دریائے نیل:
دریائے نیل دنیا کا سب سے طویل دریا ہے جو براعظم افریقہ میں واقع ہے۔دریائے نیل کا شمالی حصہ سوڈان سے مصر تک مکمل طور پر صحرا سے گزرتا ہے۔دریائے نیل۶۶۹۵کلو میٹر(۴۱۶۰میل)کا سفر طے کرنے کے بعد اس ڈیلٹائی علاقے سے ہوتا ہوا بحیرہ روم میں گرتا ہے یہاں میں دریائے نیل کا مشہور واقعہ کا ذکر کرتی چلوں۔
جب مصر فتح ہوا تو اہلِ مصر نے فاتح مصر حضرت عمروبن عاص سے کہا کہ ہمارے ملک میں کاشتکاری کا دارومدار دریائے نیل پر ہے،ہمارے ہاں یہ دستور ہے کہ ہر سال ایک حسین وجمیل کنواری لڑکی دریا میں ڈالی جاتی ہے۔اگر ایسا نہ کیا جائے تو دریا خشک ہوجاتاہے اور قحط پڑ جاتا ہے۔حضرت عمرو بن عاص نے انھیں اس رسم سے روک دیا۔جب دریا سوکھنے لگا تو حضرت عمروبن عاص نے یہ واقعہ خلیفہ وقت امیرالمومنین حضرت عمر فاروق کو لکھ بھیجا۔جواب میں حضرت عمر نے تحریر فرمایا کہ دین اسلام ایسی وحشیانہ وجاہلانہ رسموں کی اجازت نہیں دیتا اور آپ نے ایک خط دریائے نیل کے نام لکھ بھیجا اور اسے دریا میں ڈالنے کی ہدایت کی اس خط کا مضمون یہ تھا۔
’’بعد حمد وصلوت کے مطالب یہ ہے کہ اگر تو اپنی طرف سے اور اپنی مرضی سے چل رہا ہے تب تو خیر نہ چل اگر اللہ تعالیٰ واحد وقہار تجھے جاری رکھتا ہے تو ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں کہ وہ تجھے رواں کردے۔‘‘
یہ پرچہ لے کر حضرت امیر عسکر نے دریائے نیل مین ڈالدیا۔ابھی ایک رات بھی گزرنے نہیں پائی تھی جو دریائے نیل میں سولہ ہاتھ گہرا پانی چلنے لگا اور اسی وقت مصر کی خشک سالی زرخیزی میں بدل گئی۔
اقبال نے اپنے کلام میں دریائے نیل کا ذکر کئی جگہوں پر کیا ہے۔بانگ ِدرا کی نظم ماہ نو میںکچھ اسطرح کیا ہے۔
؎ٹوٹ کر خورشید کی کشتی ہوئی غرقاب نیل
ایک ٹکڑا تیرتا پھرتا ہے روئے آبِ نیل
طشت گردوں میں ٹپکتا ہے شفق کا خو ناب
نشتر قدرت نے کیا کھولی ہے فصد آفتاب
چرخ نے بالی چرالی ہے عروس شام کی
نیل کے پانی میں یا مچھلی ہے سیم خام کی
ہلال کے متعلق تشبہیں دیتا ہوا شاعر کہتا ہے کہ سورج کی کشتی ٹوٹ کر دریائے نیل میں غرق ہوگئی یعنی سورج نیلے آسمان کا سفر ختم کر کے ڈوب گیا اور نیل کے پانی کے سطح پر صرف ایک ٹکڑا رہ گیا جو تیرتا پھرتا ہے۔
مراد یہ ہے کہ سورج ڈوبا اور ہلال نمودار ہوا شاعر اسے سورج کی ٹوٹی ہوئی کشتی کا ایک ٹکڑا قرار دیتا ہے۔
آسمان کے تھال میں شفق کا لہو ٹپک رہا ہے یعنی شفق کی سرخی آسمان پر پھیل گئی ہے۔کیا ہمیں سمجھنا چاہیے کہ قدرت کے نشتر نے سورج کی فصد کھولی ہے یعنی اس کی رگ سے خون نکالا ہے!اس شعر میںہلال کو قدرت کا نشتر کہا ہے۔
یا کیا یہ سمجھیں کہ آسمان نے شام کی دلہن کے کان سے بالی چرالی ہے! یا یہ فرض کریں کہ نیل کے پانی میں چاندی کی مچھلی تیرتی ہے۔اس شعر مین ہلال کو عروس شام کی بالی اور سیم کام کی مچھلی قرار دیا ہے۔
اس نظم میں اقبالؔ نے تشبیہات اور استعمارات کی خوبی کو کمال تک پہونچا دیا ہے ماہ نو کو خورشید کی کشتی کا ٹکڑا عروس شام کی بالی اور سیم خام کی مچھلی قرار دیا ہے۔کسی قدر انوکھا خیال ہے یہ تشبیہات ان کی قوت تخیل کی صناعی کی بہترین مثالیں ہیں۔
مطلب:کہتے ہیں کہ یہ پہلی رات کا چاند ہے یا خورشید کی کشتی کا ایک ٹکڑا ہے یا عروس شام کی بالی ہے یا سیم خام کی مچھلی ہے یا شفق کی سرخی ہے یا قدرت نے آفتاب کی فصد کھول دی ہے؟اس کے بعد ماہ نو سے خطاب کرتے ہیں۔
بالِ جبریئل کی غزل میں دریائے نیل وفرات وراوی کا ذکر ملتا ہے۔بالِ جبریئل کی غزل’’نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے‘‘میں کچھ اسطرح ہے۔
؎رہے گا راوی ونیل وفرات میں کب تک
ترا سفینہ کہ ہے بحرِ بے کراں کے لیے!
تیری کشتی تو کنارہ سمندر کے لئے بنائی گئی ہے۔یہ کب تک راوی،نیل وفرات کے دریاؤں میں چکر لگاتی رہے گی۔
مطلب یہ ہے کہ مسلمان!تو نے اپنے مقصد ومدعا کو چھوٹے چھوٹے خطوں میں محدود کرلیا ہے حالانکہ تو جن مقاصد کے لئے پیدا کیاگیا ہے ،وہ بہت بلند وسیع ہیں۔
اے مسلمان!تجھ کو اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات پر حکومت کرنے کے لئے پیدا کیا اس لئے تیرا زاویہ نگاہ آفاقی ہونا چاہیے یعنی تیرا نصب العین یہ ہے ساری دنیا میں اسلام کے اصولوں کی اشاعت ہوساری دنیا اسلام کی حلقہ بگوش ہوجائے پس تو اپنی جدوجہد کو ہندوستان یا مصر یا عراق تک محدود مت کر تجھ کواللہ تعالیٰ نے ساری اقوام عالم کا سردار بنایا ہے۔اس شعر کا مضمون اس آیت سے ماخوذ ہے۔اے مسلمانو!ہم نے تم کو تمام اقوام عالم کا سردار بنایا ہے تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کئے گئے ہو اور تمہارا فرض یہ ہے کہ تم لوگوں کو نیکی کا حکم کروگے اور بُرائیوں سے روکو گے۔
یہ آیات نہیں بلکہ وہ آئینہ ہے جس میں مسلمان اپنی صورت دیکھ سکتے ہیں کہ وہ کس حد تک اللہ کے منشاء کی تکمیل کررہے ہیں۔
دوسری جگہ ارمغان حجاز میں نظم مسعود مرحوم میں کیا ہے۔مسعود مرحوم نظم میں اشارہ ہے نواب مسعود جنگ بہادر ڈاکٹر سرسید راس محمود (ولادت علی گڑھ ۱۵فروری۱۸۸۹ء وفات بھوپال۳۰جولائی ۱۹۳۷ء)کی طرف۔وہ جسٹس محمود کے بیٹے اور سرسید احمد خان مرحوم کے پوتے تھے۔وہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر بھی رہے۔۱۹۳۴ء میں مستعفی ہوگئے تو نواب بھوپال نے انھیں اپنا وزیر تعلیم بنا لیا۔مرحوم کو علامہ سے عقیدت کی حد تک محبت تھی۔اسی بنا پر انہوں نے علامہ کو جنوری ۱۹۳۵ء میں بھوپال بلوایا۔جہاں علامہ کچھ عرصہ رہکر لاہور لوٹ آئے۔جولائی۱۹۳۵ء میںعلامہ شدید علالت کے باعث علاج کے لئے پھر بھوپال گئے جہاں مسعود کے مہمان ہوئے۔مسعود ہی کی درخوست پر نواب بھوپال نے علامہ کا وظیفہ مقرر کیا تھا۔
اس نظم میں علامہ نے مسعود مرحوم کے مرثیہ کے ساتھ ساتھ خود شناسی پر بھی روشنی ڈالی ہے۔اقبالؔ نے مسعود مرحوم نظم میں نیل وفرات کے حوالے سے کچھ یوں کہا ہے۔
؎خودی ہے زندہ تو دریا ہے بے کرانہ ترا
ترے فراق میں مضطر ہے موج نیل وفرات
اے مخاطب!اگر تیری خودی زندہ ہے تو تیرا سمندر بیحد وسیع ہے تیرے فراق می نیل(مصر کا مشہور دریا) اور فرات(عراق کا مشہور دریا) کی موجیں بے قرار اور بے چین ہیں۔دریا آخر میں جا کر سمندر میں گر جاتا ہے۔نیل وفرات سے مراد عام دریا ہے۔سمندر کے فراق میں موجوں کی بے قراری کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس میں مدغم ہونے کے لئے تڑپ رہی ہیں ۔موج کا تڑپنا ایک قدرتی امر ہے لیکن علامہ نے یہاں حسن تعلیل سے کام لیا ہے۔مطلب یہ کہ صاحب خودی میں وہ قوت وجذب پیدا ہوجاتی ہے کہ کائنات اس میں سما جاتی ہے یعنی کائنات اسکی مسخر ہوجاتی ہے۔
اے مسلمان!اگر تیری خودی زندہ ہے یعنی اگر تو نے عشق رسولؐ کی بدولت اپنی خودی کو مستحکم کرلیا ہے تو اس میں لامحدود ترقی کی صلاحیت پیدا ہوجائے گی۔تیرا دریا بیکرانہ ہوجائے گا۔واضح ہو کہ اقبالؔ کی اصطلاح میں خودی کی زندگی سے ہمیشہ استحکام خودی مراد ہوتا ہے۔
(یہ تصور بھی قرآن کریم کی اس آیت سے ماخوذ مقتبس ہے۔یعنی بیشک جو لوگ ایمان لائے اور اس کے بعد انھوں نے حضورؐ کی اتباع کی جسے قرآن میں عمل صالح سے تعبیر کیا گیا ہے تو آخرت میںانہیں ایسا اجر ملے گا جو کبھی ختم نہ ہوگا۔)
دوسرے مصرع کا مطلب یہ ہے کہ اگر تو اپنی خودی کو مستحکم کر لے گا تو دنیا کی مختلف قومیں (دریائے نیل اور دریائے فرات) تیری پناہ میں آئیں اور تجھ سے رابطہ واتحاد پیدا کرنے کی آرزو کا اظہار کریں گی۔
نوٹ:چوں کہ حضرت عالمگیرؒ کی خودی زندہ تھی اس لئے دنیا کے بڑے بڑے یا جبروت بادشاہ ان سے دوستی کرنا اپنے لئے باعث فخر سمجھتے تھے اور انہی کے پوتے محمد شاہ کی خودی مرچکی تھی اس لئے نادرشاہ نے دوست بنانے کے بجائے اسکو اپنا غلام بنالیا اوراس نے یہ کوئی نئی بات نہیں کی پر طاقتور کمزور کو اپنا غلام بنا لیتا ہے۔
خضر راہ میں نیل کا ذکر :
یہ نظم اقبالؔ نے انجمن حمایت اسلام کے سینتیسویں سالانہ اجلاس مین پڑھی تھی۔جو اپریل ۱۹۲۲ء میں اسلامیہ ہائی اسکول اندرون شیرانوالہ دروازہ میں منعقد ہوا تھا۔عالم اسلام کے لئے وہ وقت بے حد نازک تھا۔قسطنطنیہ پر اتحادی قابض تھے۔سلطنت عثمانیہ کی اینٹ سے اینٹ بچ چکی تھی۔اتحادیوں کے ایما پر یونانیوں نے اناطولیہ میں فوجیں اتاردی تھیں۔شریف حسین جنگ کے زمانے میں انگریزوں کے ساتھ مل کر سلطنت عثمانیہ سے بغاوت کرچکا تھا۔اس وجہ سے انگریزوں اور فرانسیسیوں کو عرب کے مختلف حصوں میں براہ راست مداخلت کاموقع مل گیا تھا۔اس طرح مسلمانوں پر رنج وقلق کی گھٹائیں چھا گئیں۔ہمارے ملک میں ہجرت کی تحریک جاری ہوئی،پھر خلافت اور ترک موالات کا دور شروع ہوا۔ہزاروں مسلمان قید ہوگئے۔ادھر دنیائے اسلام کے روبرو نئے نئے مسا ئل آگئے۔اقبال نے انھیں میں سے بعض اہم مسائل کے متعلق حضرت خضرؑ کی زبان سے مسلمانوں کے سامنے صحیح روشنی پیش کی اور نظم کا نام’’خضرراہ‘‘اسی وجہ سے رکھا کہ یہ مشکلات ومصائب کے نہایت نازک دور میں راہنمائی کا مینار تھی اقبال کے دریائے نیل کا ذکر خضر راہ میں کچھ اسطرح کیا ہے کہ
؎ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کرتابخاک کا شغر
مسلمانوں کے لئے کعبے کی نگہبانی اور حفاظت سب سے بڑا فریضہ ہے۔اس فریضے کی بجا آوری کے لئے دریا ئے نیل کے کنارے سے کاشغر تک سب مسلمانوں کو متحد ہوجانا چاہیے ۔مشرق میں کا شغر او رمغرب میں نیل سے مراد یہ نہیں کہ دوسرے مسلمانوں پریہ فرض عائید نہیں ہوتا شاعر نے شرق وغرب کے دو مشہور مقامات کا ذکر کر دیا ۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں جتنے مسلمان آباد ہیں ان سب کو اس نصب العین کے لئے جمع ہوجانا چاہیے۔تمام مسلمان اسلام کی حفاظت کے لئے ملّتِ واحدہ بن جائیںاور نیل سے لے کر کاشغر تک ( مصر سے لیکر چین تک) سارے اسلامی ممالک ایک ہوجائیں۔
۳)دریائے جیحوں:
آمو دریا وسط ایشیا کا سب سے بڑا دریا ہے جبکہ یہ دریائے جیحوں بھی کہلاتا ہے۔پامیر کے پہاڑوں سے نکلنے والے اس دریا کی کل لمبائی ۲۴۰۰کلو میٹر ہے اور یہ افغانستان،تاجکستان،ترکمانستان اور از بکستا ن سے ہوتا ہوا بحیرہ ارال میں گرتا ہے۔اس میں پانی کا سالانہ اخراج ۵۵مکعب کلو میٹر ہے۔
جیحوں دریا کا ذکر اقبالؔ کے کلام بالِ جبرئیل میں ایک جگہ ملتا ہے۔
؎
اسی کے فیض سے میری نگاہ ہے روشن
اسی کے فیض سے میرے سبو میںہے جیحوں!
چنانچہ اقبالؔ نے صحبت مرشد کی اہمیت کو اپنی ذاتی مثال سے واضح کیا ہے کہتے ہیں کہ اے مسلمانو!اگر تم اپنی کم علمی اور کوتاہ نظری کی بنا پر صحبت شیخ کی اہمیت سے واقف نہیں ہو تو میری طرف دیکھو میری نگاہ میں جو کچھ بھی روشنی پیدا ہوتی ہے یہ کانٹ اور ہیگل نیٹشے اور برگساں کے مطالعہ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ مرشد رومیؒکا فیض نظر ہے اور میری شاعری (سبو) میں تم کو حقائق ومعارف کا جو دریا (جیحوں ) موجزن نظر آتا ہے یہ سب اسی مرد خود آگاہ کی باطنی توجہ کا اثر ہے۔
۴)دریائے گنگا:
دریائے گنگا شمالی بھارت اور بنگلہ دیش کا ایک اہم دریا ہے دریائے گنگا ہندومذہب میں کثافت میں اہم حیثیت رکھتا ہے اور مقدس سمجھتے ہوئے اس کی پوجا کی جاتی ہے۔یہ دریا جمنا کے ساتھ مل کر ایک عظیم اور زرخیز خطہ تشکیل دیتا ہے جو شمالی بھارت اور بنگلہ دیش پر مشتمل ہے اس علاقے میں آبادی کی کثافت دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
ہمالیہ کی برف پوش چوٹیوں سے نکلنے والا دریائے گنگا اپنے سفر کے آغاز میں نہایت شفاف اور صاف ستھرا ہوتا ہے پہاڑوں اور صاف ستھرے شمالی علاقوں سے بہتا ہوا یہ پانی آئینے کی طرح شفاف ہوتا ہے۔دریائے گنگا نہ صرف پینے کے پانی کے علاوہ زراعت میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ہندوعقیدے کے مطابق دریائے گنگا کا پانی گناہوں کو دھوڈالتا ہے یہی وجہ ہے کہ روز صبح کے وقت لاکھوں افراد گنگا میں اشنان (غسل) کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کو دھونے کی کوشش کرتے ہیں۔
اقبالؔ کے کلام میںگنگا کاذکرصدائے درد نظم میں ملتا ہے۔یہ نظم اس دور سے تعلق رکھتی ہے۔جب ملکی حالات پہلی مرتبہ اقبال کے دل ودماغ پر اثر انداز ہوئے تھے اور انھوں نے باہمی نفرتوں کا ماتم کیا۔یہی افکار واحساسات انہوں نے اپنی مشہور نظم ’’تصویردرد‘‘میں بھی پیش کئے تھے۔پوری نظم میں اقبال نے ان تمام موضوعات کی مذمت کی ہے،جن سے ہندوستانیوں کے مختلف طبقوں میں تفرقے کو تقویت پہنچتی تھی۔
؎جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے
ہاں ڈبودے اے محیط آب گنگا تو مجھے
دل کی جلن کے باعث میری حالت ایسی ہے جیسے آگ لگی ہوئی ہو اور چین کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔اے دریائے گنگا کی لہرو!مجھے ڈبو دے،جلن کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے وطن کے ذرے ذرے سے نفاق کے چشمے ابل رہے ہیں۔دوسری دفعہ گنگا کا ذکر ترانہ ہندی میںکیا ہے۔
؎اے آب رودِ گنگا،وہ دن ہیں یاد تجھ کو؟
اتر اترے کنارے جب کا رواں ہمارا
اے گنگا کے دریا!کیا تجھے وہ زمانہ یاد ہے جب ہمارا قافلہ تیرے کنارے پر اتراتھا!اس شعر میں مسلمانوں کی ان فتو حات کی طرف اشارہ ہے جو انہوں نے شروع شروع میں کی تھیں۔
۵)دریائے راوی:
صوبہ پنجاب میں دریائے سندھ اور اسکے معاًبعد دریائے جہلم،دریائے چناب،دریائے راوی اور دریائے ستلج بہتے ہیں۔دریائے راوی ضلع کانگڑا میں سے نکلتا ہے اور ساڑھے چار سو میل لمبا( ۷۲۰کلومیٹر) ہے۔پاکستانی پنجاب کا دارالحکومت لاہور اسی دریا کے کنارے واقع ہے۔دریائے راوی اور دریائے چناب کا درمیانہ علاقہ دوآبہ رچنا کہلاتا ہے۔
اقبالؔ نے دریائے راوی کا ذکر بانگِ دریا کی نظم کنارراوی میں کیا ہے۔
؎سکوت شام میں محو سرود ہے راوی
نہ پوچھ مجھ سے جوہے کیفیت مرے دل کی
شام کی خاموشی چھاچکی ہے۔راوی دریا گانے میں مگن ہے ۔اے دوست!مجھ سے نہ پوچھ کہ اس وقت میرے دل کی حالت کیا ہے؟راوی کے گانے جو اونچے سُرپیدا ہو رہے ہیں وہ مجھے پیغام دیتے ہیں کہ سجدے میں گرجا۔
دریائے راوی کاذکر ایک اور جگہ بالِ جبرئیل میں ملتا ہے۔
؎رہے گا راوی ونیل وفرات میں کب تک؟
ترا سفینہ کہ ہے بحرِ بیکراں کے لئے
تیری کشتی توبے کنارہ سمندر کے لئے بنائی گئی ہے۔یہ کب تک راوی،نیل اور فرات کے دریاؤں میں چکر لگاتی رہے گی!مطلب یہ ہے کہ مسلمان!تونے اپنے مقصدومدعا کو چھوٹے چھوٹے خطوں میں محدود کرلیا ہے،حالانکہ توجن مقاصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے، وہ بہت بلند بہت وسیع ہیں۔
میری دانست میں یہ جائزہ بہت مختصر ہے کلام اقبال کا مطالعہ کرنا مجھ ناچیز کے بس کی بات نہیں لیکن میں نے کوشش ضرورکی ہیکہ جہاں تک ہوسکے اکتساب کرتے ہوئے اپنی معلومات میں اضافہ کرسکوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔