(Last Updated On: )
رومان کا لفظ ’’رومانس ‘‘ سے نکلا ہے اور رومانس زبانوں میں اس قسم کی کہانیوں پر اس کا اطلاق ہوتا تھا جو انتہائی آراستہ اور پُرشکوہ پس منظر کے ساتھ عشق و محبت کی ایسی داستانیں سناتی تھیں ۔جو عام طور پر دور وسطیٰ کے جنگ جو اور خطر پسند نوجوانوں کے مہمات سے متعلق ہوتی تھیں۔فیروزاللغات اردو نے لفظ رومان کو شامل کیا ہے اور اس کے مندرجہ ذیل معنی بتائے ہیں:۔
’’انگریزی ‘‘رومانس کا مورّد،مذکر ،ادب کی وہ صنف جس میں حقیقی زندگی سے غیر متعلق واقعات بیان کیے جائیں ،فرضی داستان ،حیرت انگیز واقعہ،عشق و محبت کی داستان ‘‘
رومانویت رومانٹکیت (انگریزی )،رومانٹک مس رومانٹسم (فرانسیسی)۔اگرچہ رومانوی کا مطلب >فینسی ،بیانیہ <ہے جیسے قرون وسطیٰ کا رومانس (محبت ،مہم جوئی کی کہانی) لیکن یہ فطرت کی طرف بھی ایک دلفریب احساس دیتا ہے ۔پیٹر ویسٹ لینڈ لکھتا ہے :۔
curiosity and the love ,beauty ,those are certainly integral factors in romanticism.
رومانویت فن و ادب کی تاریخ کا ایک کثیر الجہتی مظہر ہے ۔ جو نہ صرف اٹھارویں اور انیسویں صدی کے فکر و فن کی تاریخ پر محیط ہے بلکہ اس کے ہمہ گیر اثرات اس دور کے بعدکے ادب و فن ،فکر و فلسفہ اور تہذیب و تمدن پر بھی مرتب ہوئے۔رومانویت کے موضوع پر قلم اٹھانے والے بیشتر نقادوں نے رومانویت کی اس وسعت کو تسلیم کیا ہے۔مس فرسٹ کے الفاظ میں:۔
No other literary movement has ever oveked
such a wide reponse throughout Europe.
رومانویت دنیا کے ہر خطے اور ہر کلچر میں موجود ہے ۔ادبیات کے سلسلے میں سب سے پہلے ۱۷۸۱ء میں وارٹن اور ہرڈنے یہ لفظ استعمال کیا۔اس کے بعد گوئٹے اور شلرنے ۱۸۰۲ء میں ادبیات کے سلسلے میںاس کا اطلاق کرنا شروع کیا۔لیکن شیگل اور مادام ڈی اسٹائل نے اسے ایک اصطلاح کی شکل میں رائج کیا ۔ اس طرح یہ لفظ جو پہلے زبان کا نام تھا۔اس کے بعد اس زبان کے مخصوص ادبیات اور داستانوں کا لقب بنا پھر ادب میں ما ورائیت،آراستگی ،عہد وسطیٰ کی قدروں کی نمائندگی کرنے لگا اور آہستہ آہستہ ادب کے ایک مخصوص مزاج کا مظہر بن گیا۔روسو کی اس عظیم آواز کو رومانویت کا مطلع کہا جاتا ہے ۔
’’انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر جہاں دیکھو وہ پابہ زنجیر ہے ۔‘‘
شاید اس لیے روسو کی تھیوری (Return to nature)نے نہ صرف ادبیوں بلکہ فلسفیوں کو بھی متاثر کیا ہے۔انسائیکلوپیڈیا بریٹینکا میں رومانویت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:۔
’’کلاسیکیت ،رومانویت اور حقیقت پسندی ان تین لفظوں میں یورپ کے فن کی کئی صدیوں کی سرگزشت پوشیدہ ہے۔‘‘
رومانویت میں اول حکمرانی تخیل کی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ورڈزورتھ ،بلیک ،کولرج ،شیلے ،کیٹس نے تخیل اور جذبات کو اپنی شعری تخلیقات میں بنیادی مقام دیا ۔
اقبال کا رومانویت سے بڑا گہرا تعلق ہے ۔رومانویت ہمیں اقبال کی اصطلاح میں ایسی خودی کی یاد دلاتی ہے جو اطاعت نفس سے آشنا نہیں اور اسی لیے رومانویت کا جہان فرد کا جہان ہے۔جماعت کی حیثیت سے یا تو فنی ہے یا سرے سے مفقود ہے۔۔۔۔۔مخزن کی اشاعت ،رومانوی تحریک کا آغاز،اقبال اس تحریک کی نمایاں آواز ،اقبال کی شاعری کے پانچ ادوار۔۔۔۔۔مختصر طور پر یہ کہا جاسکتا ہے اقبال اردو ادب میں دور رومانویت کا سب سے نمایاں اور عظیم ترین مظہر ہے۔
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی زندگی میں قیام یورپ ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے ۔علامہ اقبال ۱ ستمبر ۱۹۰۵ء کو بمبئی کی بندرگاہ سے انگلستان کے لیے روانہ ہوئے۔یہ بحری جہاز ۲۳ ستمبر کو فرانس کی بندرگاہ مارسیلز پر پہنچ گیا ۔اس جگہ مسافروں کو آٹھ دس گھنٹے ٹھہرنا تھا۔اس دوران اقبال بندرگاہ کی سیر میں محو رہے۔۲۴ستمبر کو اقبال لندن پہنچے جہاں شیخ عبدالقادر کو بذریعہ خط حیریت منزل مقصود پر پہنچنے سے آگاہ کیا ۔اقبال کا یورپ میں تین سالہ قیام ان کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی کا سبب بنا۔
پروفیسر آرنلڈ کی نگاہ انتخاب نے اقبال کو ایسے عہدے پر فائز کیا ۔جہاں شعر و شاعری کے پہلو بہ پہلو تحقیق ، تصنیف و تالیف ،ترجمے اور تدریس کے لیے نئے باب کھل گئے ۔۱۹۰۴ء میں طامس آرنلڈ لاہور کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر انگلستان چلے گئے ۔استاد کی محبت نے بھی یورپ کاسفر اختیار کرنے میں اہم کردار اداکیا۔استاد سے محبت یورپ کے سفر کا اہم حصہ تھی ۔
یکم اکتوبر ۱۹۰۵ء کو ٹرنٹی کالج کیمبرج میں داخلہ لے لیا۔۶نومبر ۱۹۰۵ء کو لنکزان میں داخلہ لیا۔بی اے کی ڈگری کے لیے فلسفہ و اخلاقیات کے شعبہ میں ایک تحقیقی مقالہ داخل کیا ۔۱۳ جون ۱۹۰۷ کو یہ ڈگری حاصل کی۔اقبال ۱۹ یا ۲۰ جولائی کو لندن سے روانہ ہوئے اور میونخ پہنچ کر درخواست دی کہ ان کو پی ایچ ڈی کے لیے اپنا مقالہ بہ عنوان Development of metaphysics in persiaداخل کرنے کی اجازات دی جائے ۔اس درخواست میں فلسفہ اصل اوراہم مضمون کے طور پر لیا۔۲۲جولائی ۱۹۰۷ء کو انہوں نے اس کے لیے ضروری فیس دو ساٹھ مارک جمع کرادی ۔ریسرچ سکالرز کے لیے میونخ یونیورسٹی کی تین شرائط تھیں۔پہلی دو سے اقبال کو مستثنیٰ کیا گیا۔جرمنی زبان میں زبانی امتحان دینا لازم تھا۔جرمن زبان سیکھنے کے لیے اقبال کو ہائیڈل برگ کا سفر کرنا پڑا۔ ہائیڈل برگ جرمنی کا خوبصورت شہر ہے۔اقبال جرمنی سے فکری ،شعری اور جذباتی سطحوں پر متاثر ہوئے۔ایما ویگے ناسٹ سے اقبال کی ملاقات دریائے نیکر کے کنارے واقع سرسبز و شاداب مناظر سے مالا مال قصبے ہائیڈل برگ میں ہوئی تھی ۔ایک تو ماحول رومان پرور ،اورپر سے اقبال بھرپور جوانی کے عالم میں اور پھر حسین و جمیل ایما۔ایما کی ذہانت اور شخصیت نے اقبال کو بہت متاثر کیا۔ حیرت کی بات یہ نہیں ہے کہ ایک ہندستانی شاعر کا دل ان پر آگیا ، نہ آتا تو حیرت ہوتی ۔ اقبال ایما کے نام لکھے گئے ایک خط میں لکھتے ہیں:۔
’’میں زیادہ لکھ یا کہہ نہیں سکتا،آپ تصور کرسکتی ہیں کہ میری روح میں کیا ہے ۔میری بہت بڑی خواہش ہے کہ میں دوبارہ آپ سے بات کرسکوں اور آپ کو دیکھ سکوں ،لیکن میں نہیں جانتا کیا کروں ۔جو شخص آپ سے دوستی کر چکا ہو اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ آپ کے بغیر جی سکے ۔۔۔۔۔‘‘
اقبال کے دل میں ایما کا کیا مقام تھا اور ان کے ایما سے تعلقات کی نوعیت کیا تھی ؟ان کا اندازہ اس خط سے لگایا جاسکتا ہے :۔
’’براہ کرم اپنے اس دوست کو مت بھولیے جو آپ کو ہمیشہ اپنے دل میں رکھتا ہے اور جو آپ کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا ۔ہائیڈل برگ میں میرا قیام ایک خوبصورت خواب سا لگتا ہے اور میں اس خواب کو دہرانا چاہتا ہوں۔کیا یہ ممکن ہے؟ آپ خوب جانتی ہیں۔‘‘
علامہ اقبال سے متاثر ہونے والی خواتین میں سے ایک عطیہ فیضی تھیں۔ عطیہ بیگم بمبئی کے اُس متمول اور ممتاز فیضی خاندان کی چشم و چراغ تھیں ۔جو تعلیم اور روشن خیالی کے نقطہ نظر سے ہندوستانی مسلمانوں میں بہت پیش پیش تھا۔ اُن کے والد حسن آفندی صاحب ایک بڑے تاجر تھے ۔جن کا قیام بسلسلہ تجارت کئی سال تک استنبول (ترکی) میں رہا۔ عطیہ ایک غیر معمولی ذہین لڑکی تھی ۔ ۱۵ سال کی عمر میں اعلیٰ تعلیم کے لیے سکالرشپ پر انگلستان آگئی ۔یہاں فلسفہ اور لٹریچر کی تعلیم حاصل کررہی تھیں۔ اقبال سے پہلی ملاقات اپریل ۱۹۰۷ ء میں مس بیک کے گھر ایک دعوت پر ہوئی ۔ جو بذات خود مس بیک نے ان کی ملاقات کے لیے ترتیب دی ۔ اقبال عطیہ سے پہلی ملاقات میں ان کی ذہانت کے دلدادہ ہوگئے۔جس کے کچھ روز بعد اقبال نے ان کو ڈنر پر ایک لندن کے ریستوران میں مدعو کیا ۔گویا ملاقاتوں کایہ سلسلہ جاری رہا۔غرض اقبال کے اپنے تحقیقی مقالہ میں بھی عطیہ بیگم کی مشاورت شامل ہے۔اقبال عطیہ فیضی کو خط میں لکھتے ہیں:۔
’’آپ جانتی ہیں کہ میں آپ سے کوئی بات راز نہیں رکھتا ۔
میرا ایمان ہے کہ ایسا کرنا گناہ ہے۔‘‘
ایک اور خط میں بھی اسی قسم کے پُر خلوص اور رازدارانہ روابط کی توثیق ہوتی ہے۔یہ وہ خط ہے جس میں اقبال نے اپنی ازدواجی زندگی کی تلخیوں اور اپنی ذاتی محرومیوں کا ذکر کیا ہے :۔
’’۔۔۔۔۔۔آپ کو میرے بارے میں سب کچھ معلوم ہے ۔اسی سبب سے میں نے اپنے جذبات کے اظہار کی جرات کی ہے ۔یہ راز کی بات ہے براہ کرم کسی سے کہیے گا نہیں!‘‘
عطیہ فیضی نے اقبال کے علاوہ شبلی نعمانی کو بھی متاثر کیا جس کی تفصیل ’’شبلی کی حیات معاشقہ‘‘ میں مل جاتی ہے۔بعض لوگوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اقبال عطیہ کی محبت میں گرفتار ہوگئے تھے ۔لیکن اقبال کی عطیہ سے دوستی فکری سطح پر تھی اور وہ ان سے فلسفیانہ مباحث کیا کرتے تھے۔عطیہ کے نام لکھے گئے خطوط کا اگر ایما کے نام خطوط سے موازنہ کیا جائے تو فرق ران اور دن کی طرح صاف ہے۔۲۰ اگست کو عطیہ ہائیڈل برگ تشریف لے گئیں۔اس دن کی ڈائری میں لکھتی ہیں:۔
’’اقبال نے مجھے اور دو پروفیسر لڑکیوں کو جن کے نام ویگے ناسٹ اور سینے شل ہیں، لے کر گروپ کے آگے آگے چلے ،یہ دونوں جوان اور بے حد خوبصور ت لڑکیاں ویگے ناسٹ اور سینے شل ان کو برابر سبق دیتی ہیں ۔اور اقبال انہی سے جرمن اور دقیق مضامین سیکھتے ہیں۔‘‘
عطیہ اپنی کتاب ’’اقبال‘‘ میں ایک اور جگہ لکھتی ہیں:۔
’’یہ اس اقبال سے بالکل مختلف تھے جسے میں نے لندن میں دیکھا تھا۔ایسا لگتا تھا جیسے جرمنی ان کے وجود کے اندر سماگیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اقبال کا یہ پہلو میرے لیے بالکل انوکھا تھا ،اور لندن میں جو ایک قنوطی کی روح ان میں حلول کرگئی تھی وہ یہاں یکسر غائب ہوگئی تھی ۔‘‘
ہائیڈل برگ میں عطیہ نے دیکھا کہ اقبال کے اساتذہ جب انہیں ٹوکتے تھے وہ بچوں کی طرح اپنے ناخن چبانے لگتے ۔عطیہ کے بیان کے مطابق اقبال یہاں جرمن سیکھنے کے علاوہ رقص، موسیقی ،کشتی رانی اور ہائیکنگ کے درس بھی لے رہے تھے ۔ عطیہ فیضی کو اقبال نے دوسرا خط ۱۷ اپریل ۱۹۰۹ء لاہور ہی میںلکھا ۔اس میں اقبال کہتے ہیں:۔
’’چند دن ہوئے مس ویگے ناسٹ کا خط مجھے موصول ہوا تھا۔
جب میں انہیں خط لکھوں گا ،تو انہیں ان دنوں کی یاد دلاؤں گا ،جب کہ آپ جرمنی میں تھیں ۔آہ ! وہ دن پھر کبھی نہ آئیں گئے ۔‘‘
عطیہ نے ایک دلچسپ واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ ایما نے ایک دن اوپرا گانا شروع کیا۔ اقبال نے ان کا ساتھ دینا چاہا لیکن مغربی موسیقی سے ناواقفیت کی بنا پر بے سُرے ہوگئے ۔جس پر اقبال کو سخت خفت محسوس ہوئی اور وہ پیچھے ہٹ گئے ۔ایما نے عطیہ سے درخواست کی کہ وہ انہیں کوئی ہندوستانی گیت سکھا دیں ۔ ایما کی زبان سے یہ گیت ’’گجرا بیچن والی نادان‘‘سن کر اقبال کو جو خوشی ہوئی اور جو اثر ہوا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔یہ بات تو ظاہر تھی کہ معاملہ یک طرفہ نہیں تھا بلکہ ایما بھی اقبال سے بے حد متاثر تھیں ۔ ایما کے نام انگریزی میں لکھا گیا ایک خط جس میں اقبال نے لکھا :۔
’’میں جرمن بھولتا جارہا ہوں ۔صرف ایک لفظ یاد رہ گیا ہے،
ایما!‘‘
عطیہ فیضی کی کتاب ’’اقبال ‘‘ میں درج ہے کہ اقبال ایما کے ساتھ رقص بھی کیا کرتے تھے ۔ماہرین اقبالیات کے مطابق معاملہ صرف زبان کلامی تک نہیں رہا تھا بلکہ اقبال ایما سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ایما ۱۹۰۸ء کے لگ بھگ ہندوستان جانا چاہتی تھیں لیکن ان کے بڑے بھائی کارل نے انہیں تنہا دوسرے ملک جانے سے منع کردیا تھا۔ دوسری طرف اقبال ہندوستان جاکر یورپ واپس جانا چاہتے تھے ۔ جس طرح ایما کے بڑے بھائی نے ان کو جانے سے روکا اسی طرح اقبال کے بڑے بھائی نے بھی ان کو ولایت بھیجنے سے روک دیا ۔
خطوط اقبال میں سے صرف ان اقباسات پر روشنی ڈالتی ہوں:۔
’’میں ہمیشہ آپ کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں اور میرا دل ہمیشہ بڑے خوب صورت خیالات سے معمور رہتا ہے۔
ایک شرارے سے ایک شعلہ اٹھتا ہے اور ایک شعلے سے بڑا الاؤ روشن ہوجاتا ہے ۔‘‘
’’دونوں تصویریں بڑی خوبصورت ہیں اور وہ میرے مطالعہ کے کمرے میں میری میز پر رہیں گئی ، لیکن یہ مت باور کیجیے کہ وہ صرف کاغذ پر نقش ہیں ،بلکہ وہ میرے۔۔۔۔۔
میں بھی جا پذیر ہیں اور تادوام رہیں گئی لیکن میں یہ ضرور تسلیم کرتا ہوں کہ آپ میری زندگی میں ایک حقیقی قوت بن چکی ہیں۔‘‘
’’اگر کئی ملک اور کئی سمندر ہمیں ایک دوسرے سے جدا کریں گئے، پھر بھی ہمارے درمیان ایک غیر مرئی رشتہ قائم رہے گا ۔۔۔۔۔جب دل ایک دوسرے کے قریب ہوں تو فاصلہ کچھ معنی نہیں رکھتا۔‘‘
مندرجہ بالا اقتباسات میں اقبال کی قلبی ،ذہنی اور روحانی کیفیت میں اعتماد ،پیار اور محبت کی جھلک اور تڑپ واضح ہے۔علامہ اقبال ایما کو لکھتے ہیں:۔
’’کچھ عرصے بعد جب میرے پاس پیسے جمع ہوں گئے تو میں یورپ کو اپنا گھر بنا ؤں گا۔۔۔۔۔‘‘
اس تمام عرصے میں ایما کی یا د ان کے دل سے کبھی محو نہ ہوسکی ۔ ایما سے ملاقات کے ۲۴ برس بعد ۱۹۳۱ء میں گول میز کانفرنس کے لیے جب اقبال لندن گئے تو اس وقت بھی انہوں نے جرمنی جا کر ایما سے ملنے کی کوشش کی تھی ۔ لیکن اُس وقت تک اقبال نے مزید اور دوشادیاں کرلی تھیں۔ اور ان کے بچے جوان ہوگئے تھے ۔اس لیے یہ ملاقات نہیں ہوسکی ۔ڈاکٹر سعید اختردرانی نے اس موضو ع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے:۔
’’ویگے ناسٹ ،اقبال اور عطیہ بیگم ایک مثلث تھی،جن میں اقبال کا جھکاؤ ویگے ناسٹ کی طرف تھا ،جب کہ عطیہ بیگم کا اقبال کی طرف۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اقبال کے مزاج اور شخصیت میں خود اعتمادی اور توازن پسندی کی جو شان تھی ، اس نے اقبال کو یاس اور احساس نامرادی کی تلخیوں سے بچا لیا۔ اس کے بجائے ان میں ایک خاص قسم کا سوزوگداز اور عشق کی گرمی پیدا ہوگئی ۔اقبال کا دل اعلیٰ، لطیف اور نازک کیفیات سے آشنا ہوا۔ ان کے ذہن اور فکر کو رنگ و آہنگ نصیب ہوا ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے عشق ملت،عشق انسانیت ، عشق رسول ﷺ اور عشق باری تعالیٰ کی تمام ضروری اور حیات بخش منزلیں طے کیں۔۔۔۔لیکن اس میں شک نہیں کہ اس جذبے کا ابتدائی دھارا اسی واردات قلبی سے پھوٹا، جس کا پہلا نام عشق مجازی اور دوسرا نام ’’ایما‘‘ تھا۔ اقبال اور ایما کا ملاپ نہیں ہوسکا ،لیکن اردو ادب کو پھر بھی ان کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ ان کی بدولت اردو کو چند لازوال رومانوی نظمیںمل گئیں۔ حسن و عشق، چاند اور تارے ،کلی ،وصال ،سلیمی ، عاشق ہرجائی ،جلوہ حسن ،اختر صبح ،تنہائی اور دیگر کئی نظمیں جن پر ایما سے تعلق کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔