اقبال کی منسوخ شدہ شاعری پردو تھریڈز میں بات کی تھی۔آج اس سلسلےکا آخری تھریڈلکھ رہاہوں۔سب نے عزیزمیاں قوال کی مشہور قوالی۔۔بیوفا یوں ترامسکرانا بھول جانےکےقابل نہیں ہے۔۔اس قوالی کےابتدائی اشعار۔۔لاؤں وہ تنکےکہاں سےآشیانے کیلئے۔۔بھی اقبال کی غزل کے اشعارہیں جوکلام سےنکال دیئےگئے۔
اقبال نے بچوں کیلئے نظم لکھی شہد کی مکھی۔جس میں شھد کی مکھی کے باغ میں آنے پر ایک پرندے کو جواب تھا۔مطلب یہی کہ مکھی کو حقیر نہ بانو۔یہ نظم شامل کلیات نہیں ہے۔اسی طرح اقبال کی نظم بچے کی دعا۔۔لب پہ آتی ہے۔۔سے بھی تین اشعار منسوخ ہوئے۔آپ دیکھ سکتے ہیں۔۔
فروری1902میں انجمن حمایت اسلام کا اجلاس ہوا۔جس میں لیفٹنٹ گورنر پنجاب سر ولیم میکورتھ نے شرکت کی۔اقبال نے اس موقع پر گورنر صاحب کی مداح میں قصیدہ کہا۔یہ قصیدہ زوق کی مشکل زمین۔۔زھے نشاط اگر کیجئے اسے۔۔میں ہے۔یہ قصیدہ شامل کلیات نہیں ہے۔قصیدہ ملاحظہ ہو۔۔
22جنوری1901 کو ملکۂ وکٹوریہ کا انتقال ہوا۔تعزیتی جلسے 24 فروری کو منعقد ہوا۔اس جلسے میں اقبال نے ملکۂ وکٹوریہ کی وفات پر ایک سو دس اشعار کا طویل مرثیہ کہا۔جو بعد میں اخبارات میں شائع بھی ہوا۔اس کا انگریزی ترجمہ اقبال نے خود کیا۔مرثیہ کے اشعار ملاحظہ ہوں۔
ملکۂ وکٹوریہ کیلئے لکھا گیا مرثیہ اس لئے بھی ایک کمال ہے کہ اقبال نے اسے صرف دو روز کے وقفے میں لکھا۔اور پھر اس کا انگریزی ترجمہ بھی خود ہی کیا۔یہ انکا دوسرا کمال ہے۔یہ مرثیہ ابتدائی کلام کا حصہ رہا۔بعد میں منسوخ ہوا۔زیل میں مرثیہ کا بقیہ حصہ۔
باقیات اقبال میں جاویداقبال لکھتےہیں کہ یہ مرثیہ ہمیں اقبال کی شاعری کوسمجھنے میں مدددیتاہے۔انکا فکری ارتقاء کس قدر سرعت کے ساتھ ہوا۔وہ کس طرح کے ماحول سے شاعری کرتےہوئے اقبال بنے۔وہ آگےبڑھتے گئےتو پیچھےکی شاعری ترک کرتے گئے۔یہ اقبال کاکمال ہےانہوں نےکلام کاتنقیدی جائزہ خودلیا۔