1893ء میں اقبال کی کریم بی کے ساتھ شادی رواج کے مطابق ان کے بزرگوں نے طے کی تھی اور ان کی اپنی بعد کی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شادی پر رضامند نہ تھے، مگر چونکہ سولہ برس کی عمر کے لڑکے تھے اس لیے احترام کے پیشِ نظر انہیں اپنے بزرگوں کے سامنے دم مارنے کی ہمت نہ ہوئی۔
شادی کے پہلے دو سال سیالکوٹ میں گزارے۔ اس دوران میں انہوں نے ایف۔اے کا امتحان پاس کیا اور مزید تعلیم کی تحصیل کی خاطر 1895ء میں لاہور آگئے۔لاہور میں چار سال کواڈرینگل ہوسٹل میں گزارے۔ کریم بی ہوسٹل میں ان کے ساتھ تو نہ رہ سکتی تھیں، اس لیے وہ بیشتر وقت اپنے والدین کے ساتھ یا اپنے میکے گجرات میں بسر کرتی تھیں اور بعض اوقات چند ماہ کے لیے سیالکوٹ آجاتیں۔
اقبال گرمیوں کی چھٹیاں عموماً سیالکوٹ میں اپنے والدین کے ساتھ گزارتے اور کبھی کبھار چند ہفتوں کے لیے اپنے سسرال گجرات چلے جاتے۔ اس دوران وہ دو بچوں کے باپ بن چکے تھے۔ معراج بیگم 1896ء میں پیدا ہوئیں اور آفتاب اقبال 1898ء میں۔
1900ء سے لے کر 1905ء تک کی پانچ سالہ ملازمت کے دوران جب اقبال بھاٹی دروازے والے مکان میں رہائش پذیر تھے، کریم بی نے ان کے ساتھ مکان میں قیام نہ کیا۔ نذیر نیازی کی رائے میں کریم بی سے کشیدگی کی ابتدا انہی ایام میں ہوگئی تھی۔ 1905ء سے لے کر 1908ء تک کے تین سال اقبال نے یورپ میں گزارے۔ ان کی واپسی پر معراج بیگم بارہ برس کی اور آفتاب اقبال دس برس کے تھے۔
نذیر نیازی تحریر کرتے ہیں :
یورپ سے واپسی کے بعد اگرچہ وہ (کریم بی) احیاً نا لاہور آتیں، محمد اقبال ان کا بڑا خیال رکھتے، مگر ایک دوسرے سے کشیدگی بڑھتی چلی گئی۔ تا آنکہ باپ اور بھائی کی کوششوں کے باوجود علیحدگی کی نوبت آگئی۔
یہ زمانہ محمد اقبال کے لیے بڑے اضطراب کا تھا۔ بغیر طلاق کے چارہ نہ رہا۔ لیکن والدہ آفتاب کی عزتِ نفس نے گوارا نہ کیا محمد اقبال کفالت کے ذمے دار ٹھہرے ۔ فرمایا شرعاً میرے سامنے دو ہی راستے تھے، طلاق یا کفاف کی ذمہ داری۔ والدہ آفتاب طلاق پر راضی نہ ہوئیں۔میں نے بخوشی کفاف کی ذمہ داری قبول کی۔
چنانچہ ایک مقررہ رقم ہر مہینے بھیج دیتے۔ حتیٰ کہ آخری علالت کے دوران میں بھی یہ رقم باقاعدہ روانہ کی جاتی۔ پھر جب علالت نے طول کھینچا اور مالی دشواریاں بڑھیں تو اس میں تخفیف کرنا پڑی، لیکن رقم کی ترسیل میں کوئی فرق نہ آیا۔ آخری منی آرڈر میرے ہاتھوں سے ہوا، میں نے تعمیل ارشاد کردی۔
اس سلسلے میں اقبال کی جو ذہنی کیفیت تھی وہ عطیہ فیضی کے نام ان کے خط محررہ 9 اپریل 1909ء سے ظاہر ہے۔ لکھتے ہیں :
میں کوئی ملازمت نہیں کرنا چاہتا۔ میری خواہش یہ ہے کہ جلد سے جلد اس ملک سے بھاگ جاؤں۔ اس کی وجہ آپ کو معلوم ہے، میں اپنے بھائی کا ایک قسم کا اخلاقی قرضدار ہوں اور صرف اسی چیز نے مجھے روک رکھا ہے۔ میری زندگی نہایت مصیبت ناک ہے۔ یہ لوگ میری بیوی کو زبردستی مجھ پر منڈھ دینا چاہتے ہیں۔ میں نے اپنے والد کو لکھ دیا ہے کہ انہیں میری شادی کردینے کا کوئی حق نہ تھا، بالخصوص جب کہ میں نے اس قسم کے تعلق میں پڑنے سے انکار کردیا تھا۔ میں اس کی کفالت کرنے پر آمادہ ہوں، لیکن اسے اپنے پاس رکھ کر اپنی زندگی کو عذاب بنانے کو ہرگز تیار نہیں۔ ایک انسان ہونے کی حیثیت سے مجھے مسرت کے حصول کا حق ہے۔ اگر معاشرہ یا فطرت وہ حق مجھے دینے سے انکاری ہیں تو میں دونوں کے خلاف بغاوت کروں گا۔ میرے لیے صرف ایک ہی چارہ ہے کہ میں اس بدبخت ملک کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دوں یا مے خواری میں پناہ ڈھونڈوں، جس سے خودکشی آسان ہوجاتی ہے۔کتابوں کی یہ بے جان اور بنجر اوراق مسرت نہیں دے سکتے اور میری روح کے اندر اس قدر آگ بھری ہوئی ہے کہ میں ان کتابوں کو اور ان کے ساتھ ہی معاشرتی رسوم و روایات کو بھی جلا کر خاکستر بناسکتا ہوں۔ آپ کہیں گی کہ ایک اچھے خدا نے یہ سب کچھ تخلیق کیا ہے، ممکن ہے ایسا ہی ہو، مگر اس زندگی کے تلخ حقائق کسی اور ہی نتیجے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ ذہنی طور پر ایک اچھے خدا کی بجائے کسی قادر مطلق شیطان پر یقین لے آنا زیادہ آسان ہے۔ مہربانی کرکے ایسے خیالات کے اظہار کے لیے مجھے معاف کیجیے گا۔ میں ہمدردی کا خواستگار نہیں ہوں۔ میں تو صرف اپنی روح کا بوجھ اتارنا چاہتا تھا۔
اقبال کی اس شادی کی ناکامی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ان کے دونوں بچے شفقت پدری سے محروم رہ گئے۔ ایسی صورت میں بچوں کی ہمدردیاں عموماً ماں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ معراج بیگم اور آفتاب اقبال کے بچپن اور جوانی کا بیشتر زمانہ ماں کے ساتھ ننھیال میں گزرا۔ جب دونوں کچھ بڑے ہوگئے تو دادا اور دادی کے پاس سیالکوٹ میں رہنے لگے۔ باپ کے ساتھ تو ان کی ملاقات شاذ و نادر ہی ہوتی تھی۔ اس کے باوجود اقبال معراج بیگم(بیٹی) سے بڑی محبت کرتے تھے۔ معراج بیگم(بیٹی) ماں باپ کے تعلقات میں کشیدگی پر اندر ہی اندر کڑھتی رہتیں، لیکن کیا کرسکتی تھیں، بے بس تھیں۔ انہیں جوانی ہی میں خنازیر کا مرض لاحق ہوا، اور انیس برس کی عمر میں 17 اکتوبر 1915ء کو وفات پاگئیں۔
آفتاب اقبال اپنے دادا کے منظور نظر تھے۔ ان کا نام بھی شیخ نور محمد ہی نے رکھا تھا۔لیکن شفقت پدری کی عدم موجودگی میں اپنے تایا کی سخت طبیعت کو انہوں نے کبھی قبول نہ کیا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا، آفتاب اقبال کے دل میں یہ بات ہمیشہ کے لیے بیٹھ گئی کہ ان کی ماں کے ساتھ باپ نے نا انصافی کی ہے۔ نتیجتاً باپ بیٹے کے اختلافات بڑھتے چلے گئے۔ اقبال کے بعض احباب کی کوششوں کے باوجود ان کی آپس کی غلط فہمیاں دور نہ ہوسکیں، تا آنکہ اقبال کی زندگی ہی میں باپ بیٹے میں قطع تعلقی ہوگئی۔
(آنے والی پوسٹ علامہ اقبال کی دوسری ازواج سردار بیگم اور مختار بیگم کے حوالے سے ہوگی)
حوالہ کتاب : "زندہ رُود"
از : "ڈاکٹر جاوید اقبال"
ص : 199..200..201