(Last Updated On: )
قبل ازیں بھی اس حوالے سے لکھ چکا کہ اقبال اردو دنیا کا ایسا شاعر ہے کہ جو ملا جیسا ملا اقبال کی نام سے منسوب ہو گیا۔ اقبال کے نام سے ایسے ہی غلط طور پر منسوب چند اشعار پر وقتاً فوقتاً بیان کرتا رہتا ہوں۔ محرم کے آتے ہی علامہ اقبال کے نام سے کچھ متعصب ذہنیت کے مالک لوگ چند اشعار پھیلانے میں محو ہو جاتے ہیں۔ ان اشعار سے بغض اور تعصب کی بو تو آتی ہے ساتھ ہی یہ اشعار وزن اور خیال کے اعتبار سے بھی درست نہیں ہوتے۔ چند دن پہلے اسی طرح کے چند اشعار نظر سے گزرے۔جن کے ساتھ بہ اہتمام نہ صرف علامہ اقبال درج تھا بل کہ تصویر بھی موجود تھی۔ شعر کچھ یوں تھے۔
کِہ دو غمِ حسینؓ منانے والوں سے
مومِن کبھی شہدا کا ماتم نہیں کرتے
ہے عشق اپنی جاں سے زیادہ آلِ رسول سے
یوں سرِ عام ہم ان کا تماشا نہیں کرتے
روئیں وہ جو منکر ہیں شہادتِ حسین ؓ کے
ہم زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرتے
قارئین کرام یاد رہے یہ اشعار ہر گز اقبال کے نہیں جب کہ اصل شعر میں کچھ تحریف بھی کر دی گئی ہے ۔
ان میں آخری شعر دراصل بہت مشہور ہے اور اس شعر کی درست صورت بھی کچھ یہ ہے:
وہ روئیں جو منکر ہوں حیاتِ شہدا کے
ہم زندۂ جاوید کا ماتم نہیں کرتے
یہ شعر اردو کے ایک ایسے شاعر کاہے جو بہ حیثیت شاعر زیادہ پہچان نہ بنا سکے لیکن ان کی شاعری ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوئی۔ ان کا نام اقبال احمد سہیل اور تخلص سہیل ہے۔والد ماجد نے ان کا نام حامد رکھا اور دادا نے سہیل چنا۔ دادا کا دیا گیا نام ہی ان کی پہچان بنا اور وہ اسی نام سے مشہور ہوئے۔سہیل ۱۸۸۴ء میں ضلع اعظم گڑھ کے ایک گاؤں ’’برھرہ‘‘ یا ’’بڈہیرہ‘‘ میں تولد ہوئے۔اقبال سہیل نے ابتداً فارسی شعر گوئی کی ۔ اس وقت کے دستور کے مطابق گھر میں ہی والدہ سے’’گلستان ‘‘ اور ’’بوستان‘‘ پڑھ ڈالیں۔اسلام کی تعلیمات سے بھی بہت رغبت تھی جو آپ کے استاذِگرامی مولانا محمد شفیع کی صحبت میں مزید بڑھی۔بعد ازاں اعظم گڑھ میں علامہ شبلی نعمانی جیسے اہلِ علم کی صحبت میسر آئی تو صلاحتیں نکھر نکھر گئیں۔شبلی نعمانی نے جب سہیل کے شعری ذوق کو دیکھا تو اس پر داد دیے بنا نہ رہ سکے جس کا اعتراف انھوں نے یوں کیا:’’تیری شاعری پر مجھ کو خود اپنے کلام کا دھوکا ہو رہا تھا،آخر یہ رنگِ سخن تو نے کب اور کیوں کر حاصل کیا‘‘۔علامہ نیاز فتح پوری نے اقبال سہیل کے کمالات کا اعتراف یوں کیا:’’اقبال احمد خان سہیل ہمارے صوبے کے ان چند افراد میں سے ہیںجن کو قدرت نے غیر معمولی ذہانت عطا کی۔‘‘آپ ایک مدبر سیاست دان، اعلا وکیل اور صاحبِ مطالعہ خطیب تھے۔نکہت گُل کی طرح عمر بسر کرنے کے بعد مولانا اقبال احمد خان سہیل ۰۷،نومبر ،۱۹۵۵ء کی شب اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔آپ کا شعری کلیات بعد از وفات شائع ہوا۔
مولانا اقبال احمد خان سہیل کا زیر بحث شعر ان کی نظم ’’فلسفۂ شہادت‘‘ سے لیا گیا ہے۔ مذکورہ نظم ان کے شعری کلیات میں موجود ہے۔ احباب کے ذوق کے لیے مکمل نظم پیش ہے۔
فلسفۂ شہادت
ہم زندۂ جاوید کا ماتم نہیں کرتے
ابکا کہ ہم اسباب فراہم نہیں کرتے اعلانِ تنک مائیگی ٔ غم نہیں کرتے
ہنگامۂ فریاد و فغاں ہم نہیں کرتے بے حرمتٔی ماہِ محرم نہیں کرتے
رو رو کے لٹاتے نہیں ہم اشکِ محبت اس گنجِ گراں مایہ کو یوں کم نہیں کرتے
پروانۂ بخشش ہے غمِ سبطِ پیغمبر ہم اشک کے چھینٹوں سے اسے نم نہیں کرتے
انکارِ خلافت تو ہے ابلیس کا شیوہ ہم پیرویٔ دشمنِ آدم نہیں کرتے
اشخاص کے ناموں پہ بناتے نہیں ٹولی شیرازۂ توحید کو برہم نہیں کرتے
سو زخم بھی گُل کی طرح رہتے ہیں خنداں ہم پیرویٔ شیوہ شبنم نہیں کرتے
جانبازِ رہِ عشق کو کہتے نہیں مظلوم ہم شانِ شہدانِ وفا کم نہیں کرتے
سینے میں جو آتش کدۂ عشق ہے روشن آنچ اس کی نمِ اشک سے مدھم نہیں کرتے
ہم حق کی حمایت میں کٹا دیتے ہیں گردن سر سامنے باطل کے مگر خم نہیں کرتے
احساسِ الم اور ہے،اظہارِ الم اور لذت کشِ غم شیون وماتم نہیں کرتے
کیا یاد نہیں قصۂ پیراہنِ یوسُف؟ ماتم وہ کیا کرتے ہیں جو غم نہیں کرتے
وہ روئیں جو منکر ہوں حیاتِ شہدا کے ہم زندۂ جاوید کا ماتم نہیں کرتے
اللہ رے تواں بخشیٔ صہبائے محبت بندے ترے پروائے دو عالم نہیں کرتے
(کلیاتِ سہیل،مولانا اقبال احمد خان سہیل،(مرتبہ)عارف رفیع،بھاوے پروئی ویٹ لمیٹڈ،بمبئی،اپریل۱۹۸۸ء،ص۱۵۲)
بمبئی سے شائع ہونے والے اس کلیات کا پیش لفظ علامہ سید سلیمان ندوی کا تحریر کردہ ہے۔ میری اس تحقیق کا مقصد کوئی منافرت یا تعصب پھیلانا ہر گز نہیں بل کہ میں چاہتا ہوں کہ کلام اقبال کی ساتھ
انصاف برتا جائے اور ہر طرح کے اشعار کو کلام ِ اقبال میں شامل کرنے سے گریز کیا جائے۔
“