کورونا وائرس نے دنیا بھر میں جو کہرام برپا کر رکھا ہے، اس کا سرا ایک صدی پہلے کی وبا سے ملتا ہے۔1918ء میں برصغیر میں ایک وبا پھیلی تھی۔یہ انفلواینزا کی وبا تھی۔اب کورونا کے علاج کے لیے جو ویکسین یا دوا تیار کرنے کی کاوشیں ہو رہی ہیں ان میں زیادہ تر انفلوینزا والی دوا شامل کی جا رہی ہے۔ایک صدی پہلے جب انفلوینزا کی وبا نے لاہور کو زد پر لے رکھا تھا،
ان دنوں کا کچھ ذکر علامہ اقبال کے بعض خطوط میں بھی ملتا ہے۔ڈاکٹر محمد وسیم انجم صدر شعبہ اردو وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد نےعلامہ اقبال کے ان خطوط کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے دو خط بھی فراہم کر دئیے ہیں ۔ڈاکٹر محمد وسیم انجم کے شکریہ کے ساتھ وہ دونوں خطوط یہاں پیش کر رہا ہوں ۔
" لاہور میں وبائے انفلوئنزا کی بہت شدت ہے …دوا سے بھی اس مرض کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔اول تو معلوم ہی نہیں کہ اس کا علاج کیا ہے،دوسرا دوا موجود نہیں اور ڈاکٹر خود اس کا شکار ہو جاتا ہے۔اللہ تعالی اپنا فضل کرے۔پنجاب میں اس وقت اس کا حملہ نہایت شدید ہے۔۔۔۔"
علامہ اقبال بنام اکبرالہ آبادی
مکتوب محررہ28 اکتوبر 1918ء
" لاہور میں وباء کی شدت بہت ہے۔۔۔اللہ تعالی اپنا فضل کرے۔اس بیماری کے جراثیم تمام دنیا میں پائے جاتے ہیں۔اور غضب یہ ہے کہ اطباء اس کی تشخیص سے عاری ہیں۔دوائی سے اس کا مقابلہ نہیں ہو سکتا کہ دوائی میسر نہیں ہوتی۔ دارچینی کا استعمال کہتے ہیں مفید ہے۔قہوہ دو چار دفعہ دن میں پینا چاہیئے ۔اللہ تعالی اپنی مخلوق پر رحم فرمائے "
علامہ آقبال بنام خان نیاز الدین خان
محررہ 29 اکتوبر 1918ء
انفلوینزا سے کورونا تک کا ایک صدی کا سفر کرنے کے بعد کورونا وائرس اب ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔دنیا بھر میں اس کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔اس کے اثرات سے بچاؤ کے لیے ہر ملک کاطبی عملہ، پولیس، فوج اور متعدد دوسرے محکموں کے لوگ جانفشانی سے سرگرمِ عمل ہیں ۔اس دوران مذکورہ محکموں کے بہت سارے لوگ خود بھی اس وائرس کے شکار ہوئے ۔بعض صحت یاب ہوئے اور بعض جاں بحق ہوگئے۔
کورونا ابھی تک خطرناک ہے اور ایسے ماحول میں ایک عجیب خبر سننے میں آئی ہے۔سویڈن کی شہزادی صوفیہ کرسٹینا برناڈوٹ نے کورونا کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کے لیے اپنی خدمات پیش کی ہیں ۔تین روزہ تربیت لینے کے بعد اب شہزادی صوفیہ سویڈن کے ایک ہسپتال میں مختلف ٹیسٹ مشینوں کی صفائی کا کام کر رہی ہیں اور اس کے ساتھ مریضوں کو کھانا بھی دے رہی ہیں ۔ایک ترقی یافتہ ملک کی شہزادی کا خدمت انسانی کا یہ جذبہ لائقِ صد تحسین ہے۔بادشاہت والےمسلمان ملکوں کے شاہی خاندان سے بھی کوئی ایسی مثال آ جائے تو خوشی ہوگی ۔اسی طرح جمہوری مسلمان ملکوں کی مقتدر شخصیات کے شہزادوں، شہزادیوں میں سے بھی کوئی دوچار لوگ شہزادی صوفیہ جیسا کچھ کر گزریں تو کیا ہی بات ہے۔
ایک تصویر دیکھیں ۔۔۔۔لگتا ہے شوبز کے مشہور اسٹار فواد خان اپنے بیٹے کو لے کر کھڑے ہیں ۔لیکن یہ فواد خان نہیں بلکہ جرمنی میں مقیم مصور اور شاعر مبشر محیط ہیں جو اپنے نوزائیدہ بیٹے کو اٹھائے ہوئے ہیں ۔فواد خان اور مبشر محیط میں اتنی زیادہ مشابہت دلچسپ ہے۔