تلمیحات واستعارات کے استعمال سے ہر زبان نے اپنے سراپائے شاعری کے لب و رخصار کوآراستہ و پیراستہ کیاہے اور علائم و رموز کی کنگھی سے ہر شاعرنے اپنے کلام کی زلفوں کو سنوار کر ان میں حسن و زیبائی کے رنگ بھر دیے ہیں۔شاعر مشرق علامہ محمداقبال ؒنے بھی اپنے کلام میں شاہین عقاب،لالہ صحرائی،پروانہ اور جگنو،نے نوازی،عشق،نظر،خرداور قلندرودرویش وغیرہ جیسی اصطلاحات کے استعمال سے گویا اپنے کلام میں معنویت کی روح پھونک دی ہے۔علامہ اقبال کا طالب علم دوران مطالعہ ہر ہر اصطلاح کے پس منظر میں ایک بہت بڑی فکری وتاریخی کاوش کو کارفرماپاتاہے جس کی گہرائی میں شاعر کاسوزوگدازاوراسکی درانگیزی چھپی ہوئی واضع طورپرمحسوس ہوتی ہے۔
علامہ خود لکھتے ہیں کہ”شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں،اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔خودداراور غیرت مند ہے کہ کسی اور کاماراہواشکار نہیں کھاتا،بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا،بلندپروازہے،خلوت پسند ہے اور تیزنگاہ ہے“۔خودداراور غیرت مند کی خصوصیت تو سبھی زندہ اقوام میں پائی جاتی ہے لیکن آشیانہ نہ بناناتو صرف امت محمدیہ کی خاصیت ہے کہ یہ امت مشرق و مغرب کے خطوط وطنیت سے آزاداور پورے جہاں کواپنا وطن گردانتے ہوئے کسی رنگ،خون اور جغرافیے سے محدود وطن سے ناآشنا ہے۔شاہین کی بلند پروازی کی خصوصیت بھی صرف اسی امت کے سپوتوں میں ہی ملتی ہے کہ مال غنیمت و کشور کشائی بالا تر ہو کر صرف آسمانوں پر نظر رکھتے ہوئے افلاکیت و للھیت ہی انکے پیش نظر ہوتے ہیں۔خلوت پسندی شاہین کی ایک اورجداگانہ خصوصیت ہے جومومن کے نالہ نیم شبی وآہ سحرگاہی میں علامہ کو نظر آتی ہے کہ تبھی اس کا برگ کہن شاداب ہے۔تیزنگاہی کی صفت کو علامہ نے اپنے فارسی کلام میں یوں واضع کیاہے کہ دوسرے پرندے اپنے حسن ورنگ و جمال اوررقص وصوت میں فوقیت رکھتے ہیں لیکن شاہین پلٹ کر جھپٹتاہے اور جھپٹ کر پلٹتا ہے اور تیزنگاہی کے باعث بہت دور سے اپنے شکارکو اپنی گرفت میں لے کراسکی تقدیر اسی طرح بدل دیتاہے جس طرح مومن کی نگاہ سے تقدیریں تبدیل ہوجایاکرتی ہیں۔
شاہین کے مقابلے میں علامہ کے ہاں کبوتروزاغ اور کرگس کی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں۔کبوترکو شاہین کی لولاکی،بے باکی اور افلاکی کے مقابلے میں کمزوراور ناتواں ظاہر کیاگیاہے جو کبوتر کے فطری خصائص ہیں جبکہ کرگس و زاغ کو مردارخوری کے باعث شاہین کی رسم شاہبازی کے بالکل برعکس بتایاگیاہے اور مسلمان نوجوان کو ذہنی غلامی کے مارے ہوئے اور فکری و عملی پسماندگی کاشکار مغرب زدہ سیکولرنظام تعلیم میں پرورش پانے کو فریب خوردہ شاہین کو کرگسوں میں پلنے سے تشبیہ دی ہے۔دورغلامی کی بہت سی قباحتوں میں سے ایک قباحت یہ بھی ہے کہ غلامی کے باعث قومیں پست ہمتی اور بے عملی کا شکار ہوجاتی ہیں اوردوسروں کے شکار پر نظر رکھنے میں گویا کرگس کے ہم صفت ہونے لگتی ہیں،اقبال کے باعث امت مسلمہ بھی گویااقبال مند ہوئی اور آزادی کی تازہ ہوا میں امت کے شاہین پروازکے لیے پر تولنے لگے۔
علامہ نے مسلمانوں کے لیے عموماََاور مسلمان نوجوانوں کے لیے خصوصاََ شاہین کا استعارہ کثرت سے استعمال کیاہے کیونکہ نوجوانوں سے قوم کی بے پناہ توقعات وابسطہ ہوتی ہیں۔اقبال ان مسلمان شاہین بچوں کے بارے میں اللہ تعالی سے بھی دعا گو رہتے ہیں کہ ان میں اقبال جیسی آہ سحر آ جائے اور انہیں نوجوانوں کے ذریعے اقبال کا نور بصیرت عام ہو۔علامہ نے مسلمان نوجوانوں میں سخت کوشی کی عادت کوبھی شاہین سے مستعار لیاہے،اپنی نظم خطاب بہ نوجوانان اسلام اور جواب شکوہ میں نوجوانوں کوشاندارماضی کے آئینے میں غلامی کے خواب غفلت سے نکال کر آزادی کی بے کنارفضامیں کھلی پروازکامزہ چکھنے کے بعد بال جبریل میں بزرگ شاہین کے اپنے بچے کو نصیحت ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں کہ:
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کانام سخت کوشی سے ہے تلخ زنگانی انگبیں
جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزاہے اے پسر وہ مزاشاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...