(Last Updated On: )
علامہ اقبال کے کلام اور فلسفے کا مطالعہ کرنے سے ان کی بے شمار حیثیات ہمارے سامنے آتی ہیں۔وہ مفکر اسلام ، مفسرقرآن،حکیم الامت،شاعر مشرق،مصور پاکستان،دانائے راز ،واقف اسرار خودی،ترجمان بے خودی،شارع مرد مومن،علمبرادر تجدید و احیائے دین،داعی اجتہاد،سرمایہ فقروقلندری،آشنائے سرِ زندگی اور ان سے بڑھ کر سچے عاشق رسول ﷺ کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔
علامہ اقبال ؒ کا جتنا مطالعہ کیا جائے ان کی ذات میں وسعت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔شخصیت کے نئے نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ فکر کی نئی نئی جہتیں واضح ہوتی چلی جاتی ہیں۔ میں نے جتنی بار اقبال ؒ کو پڑھنے کی کوشش کی وہ ہر دفعہ ایک نئی حیثیت سے میرے سامنے آئے اور ان کی ہر حیثیت میں الگ الگ شخصیت نظر آئی جس نے مجھے نہ صرف زندگی کی نئی حقیقتوں سے آگاہ کیا بل کہ آنے والے دور کی تصویریں بھی دکھائیں۔
اقبال کسی ایک دور کا شاعر نہیں ہے اس نے تمام زمانوں کو اپنے افکار کے ذریعے محیط کیا ہے۔اقبال کی تمام حیثیتیںاور فکر اقبال کی تمام جہتیںدر اصل قرآن عظیم کی رہنمائی میں تشکیل پاتی ہیں۔وہ اپنی تمام حیثیتوں میں محض اس لیے ظاہر ہوتا ہے کہ اصلاح ملت کا فریضہ ادا کر سکے۔اقبال کے نزدیک قوم کی عظمت رفتہ کی بحالی قرآن اور حامل قرآن حضرت محمد مصطفیﷺ کی طرف رجوع کرنے سے ممکن ہے۔انسان کے لیے رشدو ہدایت کے یہی دو منبع ہیں،ان سے گریز کر کے دین ملتا ہے نہ دنیا اور نہ زندگی کو زندگی بنایا جا سکتا ہے اور نہ آخرت کو بقا کا مقام دیا جا سکتا ہے۔
علامہ اقبال مسلمان سے جدت کردار کا طالب ہے اور اس لیے واضح طور پر اعلان کرتا ہے کہ قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہوئے بغیر یہ مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
؎قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
؎گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جذبہ قرآن زیستن
عشق رسول خدا ﷺ اقبال کی سوچ کا محور ہے اس کے نزدیک یہی جذبہ ہی وہ ذریعہ ہے جو خدا تک رسائی کا وسیلہ بنتا ہے۔اس جذبے کے بغیر ایمان و ایقان کی دولت تو کیا شعور زندگی بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔
در دلِ مسلم مقامِ مصطفی است
آبروئے ما زنامِ مصطفی است
خدا بھی صرف اسی طرف متوجہ ہوتا ہے جو اس کے محبوب کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے سرور دو عالم ﷺ سے جو محبت بڑھا لیتا ہے پھر ہر چیز اسی کی ہو جاتی ہے۔
؎کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
عشق رسول ﷺ کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ۔علامہ اقبال کے نزدیک دنیوی زندگی کی کامیابی ہو یا آخرت کی فوزو فلاح عشق رسول ﷺ کے بغیر نا ممکن ہیں۔تسخیر کائنات جیسا اہم کارنامہ بھی اسی وقت انجام دیا جا سکتا ہے جب مسلمان حضور ﷺ کے عشق سے فیض یاب ہو کر اقوام عالم میں پھیل جائیں۔
؎قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد ؐ سے اجالا کر دے
حقیقت یہی ہے کہ قرآن پاک میں غوطہ زن ہو کر عشق رسول ﷺ میں ڈوب کر اپنی منزل سے آگاہ ہوں۔جس خوش نصیب کو عشق رسول ﷺ کی گراں بہا دولت نصیب ہو گئی یہ کائنات بحرو بر اس کے گوشہ دامان کی وسعت سے زیادہ نہیں رہے گی۔اس لیے ملت اسلامیہ کی زندگی حضور انور ﷺ کے عشق سے ہی وابستہ ہے نہ صرف یہ کہ بل کہ پوری کائنات کا حسن جمال آپ ﷺ کے عشق کی خیرات ہے۔
ہر کہ عشق مصطفی سامان اوست
بحر بر در گور گوشہ دامان اوست
زانکہ ملت و حیات از عشق اوست
برگ و ساز کائنات از عشق اوست
حضور اکرم ﷺ نے ہی قدرت کے ان سربستہ رازوں کو کھولا جن پر پردہ پڑا تھا ۔انسانی زندگی میں روح کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے ۔علامہ اقبال فرماتے ہیں : ’’انسان کی روح کو حضور اکرم ﷺ کے عشق کے بغیر قرار نہیں مل سکتا،یہ ہر وقت مضطرب رہتی ہے اور حضور اکرم ﷺ کا عشق ایسے دن کی مانند ہے جس کی تابانی اور تابناکی کو کبھی زوال نہیں آ سکتا۔
جلوہ بے پردہ او و وانمود
جوہر پنیاں کہ بود اندر وجود
روح راجز عشق اور آرام نیست
عشق او و زیست کہ راشام نیست
علامہ اقبال نے بار ہا نظم و نثر کے ذریعے متعلقین کو اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ عصر حاضر کے تمام مسائل کا حل حضور اکرم ﷺ کی اتباع اور ان سے محبت میں مضمر ہے اقبال کی شاعری میں جگہ جگہ حضور اکرم ﷺ سے عقیدت کا اظہار ملتا ہے۔
کرم اے شہ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظر کرم
وہ گدا کہ تو نے عطا کیا ہے جنھیں دماغ سکندری
اے باد صبا کملی والے ؐ سے جا کیہو یہ پیغام میرا
قبضے سے امت بیچاری کے دیں بھی گیا دنیا بھی گئی
بانگ درا کی اکثر نظموں میں یہی عقیدت نظر آتی ہے بلاد اسلامیہ ،ترانہ ملی،وطنیت،ایک حاجی کی مدینے کے راستے میں ،خطاب یہ جوانان اسلام وغیرہ دیکھئے پھر حضور اکرم رسالت مآب ﷺ میں عرض کرتے ہیں:
حضورؐ دہر میں آسودگی نہیں ملتی
تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی
ہزاروں لالہ گل ہیں ریاض ہستی میں
وفا کی جس میں ہو بو وہ کلی نہیں ملتی
لاریب علامہ اقبال کی شاعری پڑھ کر انسان کو ان کی شاعری اور ان کی شخصیت سے عشق ہو جاتا ہے۔
محمد بھی تیرا ،جبرئیل بھی،قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا
وہ دانائے سبل ،ختم رسل مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادیٔ سینا
نگاہ عشق مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یسٰیں وہی طہٰ
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
عشق دم جرئیل ،عشق دلِ مصطفی
عشق خدا کا رسول ،عشق خدا کا پیغام
علامہ اقبال جو دل لے کر پیدا ہوئے اس کی تسکین کے لیے عشق رسول ﷺ ہی لازم تھا وہ اپنی پیری کا ذکر کرتے ہوئے ایک پرندے کا ذکر کرتے ہیں جو شام کو کسی آشیانے کی تلاش میں اڑتا پھرتا ہے۔ہر درد مند مسلمان کی طرح علامہ اقبال بھی امت مصطفویﷺ کے غم میں ہمہ وقت متفکر رہتے اور دن رات اپنے پرسوز نغموں میںآہ و فغاں کرتے۔ایک جگہ حضور اکرم ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں۔۔۔یا رسول اللہ ﷺ دل میں جو حرارت عشق اور امت مسلمہ کے لیے سب آپ ﷺ کے سوز و غم کی بدولت ہے۔میرے نالے بھی آپ ﷺ ہی کی توجہ کا فیضان ہیں۔
علامہ اقبال کا عشق رسول ﷺ واردات قلب کی صورت میں ان کی نظموں میں نمایاں ہے ان میں جابجا اس کی شدت و سوز کا اظہار ملتا ہے ۔اس حقیقت مندی عقل و دل کے تمام تر جذبات شامل ہیں چناں چہ اقبال نے عام شعرا او عام ڈگر سے بالکل ہٹ کر مختلف و منفرد انداز میں اس محبت کا اظہار کیا ہے۔بال جبریل میں شامل نظم ’’ذوق شوق‘‘ کے اس نعتیہ ٹکڑے کا تو شاید اردو ادب میں جواب نہ ہو۔
لوح بھی توُ قلم بھی توُ،تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب
شوکت سنجرؒ، وسیلمؒ، تیرے جلال کی نمود
فقر جنیدؒ با یزیدؒ تیرا جمالِ بے نقاب
شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب ،میرا سجود بھی حجاب
علامہ اقبال نے غزلوں میں بھی جہاں کہیں بھی حضور پر نور ﷺ کا ذکر مبارک کیا ہے اس میں ایک خاص گرم جوشی اور احترام و محبت کے جذبات واضح طور پر محسوس کرتے ہیں ،عملی زندگی میں بھی حضور اکرم ﷺ کی محبت اقبال کا خاصہ رہی۔آخری عمر میں تو ذکر رسول ﷺ سن کر آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے یہاں تک کہ حکیم احمد شجاع نے ایک مرتبہ انھیں نہایت پریشان و مضطرب پایا ،وجہ پوچھی تو حضرت اقبال نے دلگیر ہو کر کہا کہ:
’’میں کبھی کبھی یہ سوچ کر بہت رنجیدہ و مضطرب ہو جاتا ہوں کہ کہیں میری عمر رسول مقبول ﷺ کی عمر سے زیادہ نہ ہو جائے۔‘‘
وہ دانائے سنبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہ عشق مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یسین وہی طہٰ
سچی اور کامل پیروی عشق صادق ہی سے ممکن ہے حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت ،نبی ﷺ کی پیروی کو آسان بنا دیتی ہے اور حضور اکرم ﷺ کا عشق ایمان کو کامل کر دیتا ہے ۔یہ وہ مقام بلند ہے جہاں عقل بھی ہار جاتی ہے اور عقلی توجیہات بیکار مہمل معلوم ہوتی ہے۔گویا محبت خدا وندی کی واحد شرط اتباع رسول ﷺ کہ یہی محبت کا تقاضا ہے اور یہی بندگی کی طلبَ۔
بہ مصطفی برساں خوش را کہ دیں ہمہ اوست
گر بہ نرسیدی تمام بو لہبی اوست
(دنیا کیا ہے مصطفی کی پیروی۔۔اگرتو اس سے گریزاں ہے تو ابو لہبی (کفر) کے سوا کچھ بھی نہیں)
“